Breaking News
Home / اخبار / تاریک توانائی: کائنات کا سب سے بڑا اسرار ( حصہ چہارم)

تاریک توانائی: کائنات کا سب سے بڑا اسرار ( حصہ چہارم)

اس کا  مطالعہ کرنے ایک طریقہ یہ ہے کہ اس کی پیمائش”بیری ان صوتی ارتعاش” (Baryon acoustic oscillation)کے پیمانے سے کی جائے۔کائنات، جب ابھی تک اپنے بچپن میں تھی، صرف 379000 سال پرانی، تو یہ قدرے ٹھنڈی  تھی -اس قدر کہ بیری انز کو فوٹونز سے جدا  کیا جاسکے۔(بیری ان، پروٹون اور نیوٹرون سے مل کر بنتا ہے، جبکہ فوٹون روشنی کے پیکٹس کو کہا جاتاہے)اس علٰحدگی نے اپنے پیچھے اپنا نقش چھوڑا- جسےآفاقی مائکرویو پس منظر (cosmic microwave background) کہا  جاتا ہے اور اس کا پتہ آج بھی لگایا جاسکتا ہے۔اس میں صوتی لہریں (sound waves) شامل ہوتی ہیں جونوخیز کائنات میں اپنا راستہ بناتی ہیں۔

ان ارتعاشات کی چوٹیاںیا بلند ترین نقاط ، ایک ایسے علاقے کی نمائندگی کرتی ہیں جوباقی کائنات کی نسبت قدرےگھنے تھے۔اور چونکہ مادہ، ماد ےکو کشش ثقل کے زریعے کھینچتاہے،لہٰذا کائنات کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ  ،ان گھنے خطوں کا ادغام ، پہلے کہکشاؤں اور پھر کہکشاؤں کے جھرمٹوں  کی صور ت میں ہوا۔اگر فلکیات  دان حقیقی “کائناتی مائکرو ویوکے  پس منظر میں ارتعاشات” (cosmic microwave background oscillations)کا  موازنہ، کائنات کی تاریخ کے مختلف درجوں پر کہکشاؤں کی تقسیم سےکریں تو وہ کائنات کے پھیلاؤ کی شرح معلوم کر سکتےہیں۔

تاریک مادےکی توضیح و شریح کا ایک اور طریقہ،کشش ثقل کی  خمیدگی (gravitational lensing)  کا عمل ہے۔ البرٹ آئن  سٹائن کےنظریہ عمومی اضافیت کے تحت، خلا میں سفر کرتا ہوا روشنی کا دھارا ، جب مادے کے پاس سے گزرتاہے تو اس میں کشش ثقل کی وجہ سے خمیدگی آتی ہے۔( دراصل  یہ خود خلا ہوتا ہےجس میں خمیدگی آتی ہے، روشنی اس  پر سوار ہو کر جاتی ہے)اگر کہکشاؤں کےدو جھرمٹ، منظر کی سیدھی لائن میں واقع ہوں تو پیش منظر کا جھرمٹ ، عدسے کے طورپر کام کرےگاجو پس منظر کےجھرمٹ سے آنےوالی روشنی میں بگاڑ پیدا کردے گا۔روشنی میں  پیدا ہونے ولا بگاڑ، ماہرین فلکیات کو پیش منظر یا آگے والے جھرمٹ کا حجم بتا دےگا۔کائنات کے مختلف حصوں میں موجود لاکھوں کہکشاؤ ں کی تجزیہ کرنے سے، فلکیات دان یہ جاننےکے قابل ہو جائیں گے کہ، وقت گزرنےکے ساتھ ساتھ، کہکشائیں کس شرح سے جھرمٹوں میں اکٹھی ہو ئیں، اور پھر ان کے اکٹھے ہونے کی شرح، بدلے میں انہیں یہ معلومات فراہم کرے گی کہ  تاریخ کےمختلف  مقامات پر ، کائنات کےپھیلنے کی رفتار کیا تھی۔

قطب جنوبی کی خوردبین ایک  تیسری تکنیک استعمال  کرتی ہے،جسے "سنائیوزیل ڈووچ ایفیکٹ (sunyaevzel’dovich effect) کہا جاتا ہے۔یہ نام، دو سوویت طبیعات دانوں کے نام پر رکھا گیا ہے۔ ۔اس میں، آفاقی مائکروویو پس منظر کا  طریقہ استعما ل کیا جاتا  ہے۔اگر  آخرالذکر سے ایک فوٹؤن ،جھرمٹ کی گرم گیس سے باہمی تعامل کرتا ہےتو اسےتوانائی میں معمولی سے اضافے کا تجربہ ہوتا ہے۔ اس انرجی  کا پتہ لگانے پر، فلکیات  دانوں کو موقع ملتا ہےکہ وہ  جھرمٹوں کی  نشاندہی کریں اورکائنات کی پوری تاریخ کےدوران،ان کی نشوونما میں تاریک توانائی کےاثرات کی پیمائش کریں۔ کم از کم یہی امیدہےکہ،” سائنسدانوں کی کمیونٹی  کےبہت سے لوگوں نے، میرےخیال کےمطابق، صحتمند تشکیک کو ترقی دی ہے۔وہ کہتے ہیں، یہ  بہت اچھا ہے لیکن ہمیں پیسےدکھاؤ۔” ہولزیپ فل نے کہا۔ ” اور میں  سوچتاہوں ایک یا دو سال کے اندر اندر ہم ایسا کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔”

ایس-پی-ٹی کی ٹیم نے کلسٹرز یا جھرمٹوں پر توجہ مرکوز کی ہوئی ہے، کیونکہ یہ کائنات کےسب سے بڑے اجسام ہیں، اکثر یہ  سینکڑوں کہکشاؤں پر مشتمل ہوتے ہیں-وہ سورج سے اربوں،کھربوں گنا زیادہ  حجم رکھتے ہیں۔جب  تاریک توانائی کائنات کو پھیلنے کے لیے قوت لگاتی ہے، کہکشاؤں کے جھرمٹوں کے لیے مزید بڑھوتری مشکل ہوتی جائےگی۔ان کے درمیان فاصلہ بڑھتا جائے گا، اور، کائنات سرد تر اور تنہا جگہ بن جائے گی۔

"ڈھانچے کی ساخت کےلحاظ سے، کہکشاؤں کے جھرمٹ کوئلے کی کان میں خطرےکا پتہ دینے والی  کسی  چیز کی طرح ہے”فیل  نے کہا۔ اگر تاریک  مادے کی density، یا  تاریک توانائی کی خصوصیات  تبدیل ہو جائیں تو جھرمٹوں کی بہتات” سب سے پہلی چیز ہوگی جو تبدیل  ہوگی”۔جنوبی قطب  کی دوربین کہکشاؤں  کے جھرمٹوں کو کھوجنے کےلیے وقت  کی ضرورت ہو گی۔” آپ کہہ سکتے ہیں، کئی ارب سال پہلےکتنے جمگھٹے تھےاور اب کتنے  ہیں”، ہولزیپ فل  نے کہا۔ "اور پھر آپ ان کا موازنہ اپنی پیشین گوئیوں سے کریں”۔

تاہم یہ  سب طریقہ  ہائے کار ایک خامی رکھتے ہیں۔یہ  سب فرض کرتے ہیں کہ ہم کشش ثقل  کو سمجھتے ہیں،جو کہ تاریک توانائی مخالف واحد قوت نہیں ہےلیکن پھر بھی وہ گزشتہ چار سال سے طبیعات کی اہم بنیاد بنی ہوئی ہے۔ایک سیکنڈ میں بیس مرتبہ، نیو میکسیکو کےسکرامنٹو پہاڑوںسے روشنی  کی ایک لہرچاند کی سمت نشانہ  لیتی ہے جو کہ 239،000میل دور ہے۔ پہاڑوں سے اٹھنے والے لہروں کے بیم کا ٹارگٹ ان تین سوٹ کیس کے سائز ریفلیکٹرز میں سے ایک ہے جنہیں اپالو کے خلانوردوں نےچار عشرے پہلے چاند کی سطح پر لگایاتھا۔اس بیم سے  فوٹونز  آئینےسے ٹکرا  کر  واپز نیو میکسیکو  پلٹتے ہیں۔اور ان کے جانے اور آنے کا کل وقت” کم وبیش”  دو اعشاریہ  پانچ سیکنڈ ہے۔

یہ ” کم و بیش’ تمام فرق پیدا کرتا ہے۔ روشنی کی رفتار کےوقت کے حساب سے، اپالو  (APPOLL) میں بیٹھے ہوئے محققین لمحہ  بہ لمحہ چاند  اور ز مین کا  درمیانی فاصلہ نا پ رہےہیں۔ اور چاند کےمدار کا نقشہ غلطیوں سے مبرا درستگی کے ساتھ تیار کر رہے ہیں۔ماریو لیویو، ایک فلکیاتی طبیعات دان جو کہ بالٹی مور کے خلائی دوربین کے سائنسی مرکز سے تعلق رکھتے ہیں اسے ایک” مکمل ناقابل یقین تجربہ” کہتے ہیں۔اگر چاند کا مدار آئن سٹائن کی پیش گوئیوں سے زرا بھی ہٹتا ہے ، تو سائنسدان اس کی مساوات پر دوبارہ غور کریں گے- اور شاید  وہ تاریک مادےاور تاریک توانائی کے وجود  پر بھی ایک  مرتبہ پھر سوچیں۔

About خاکسار

Check Also

امریکہ رو بزوال، امن معاہدہ بے سود ہے، سربراہ انصار اللہ

یمنی مقاومتی تنظیم کے سربراہ نے کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ کسی قسم کا …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے