Breaking News
Home / اخبار / گجرات کا قصائی اور اسامہ

گجرات کا قصائی اور اسامہ

بڑے باپ کی اولاد کئی ہوتے ہیں مگر بڑے ہو نہیں پاتے، کئی کی ماں عظیم ہوتی ہے لیکن اولادنہ عظمت کی دہلیز پار کرتی ہے، نہ بڑھائی اور اونچائی کے نقارے بجتے ہیں۔ ماں کی بین الاقوامی قائدانہ گونج اور باپ کی سیاسی فہم و فراست کے بل بوتے پر کوئی کسی ملک ، وہ بھی کسی جغرافیائی و نظریاتی چوک والے ملک، یہی نہیں جوہری توانائی کے حامل ملک کا وزیرِ خارجہ بن جائے، یہ بات فقیر کی طبع نازک پر ناگوار گزری تھی۔

اس ناگواری کی وجہ کا سبب وہ خدشہ تھا جو سابق وزیراعظم کے قول و فعل کے تضاد کی وجہ سے سامنے آیا، خدشے کے بجائےا گر خوف کی اصطلاح استعمال کروں تو شاید زیادہ مناسب ہو۔ سابق وزیراعظم ایک ہیرو تھے، آج بھی ہردلعزیز ہیں مگر ان کی مقبولیت کو شاید جمہوریت نے قبول نہیں کیا، وہ اپوزیشن لیڈر تو باکمال ٹھہرے تاہم بطورِ وزیراعظم بھی ان کا طرزِ تکلم اپوزیشن لیڈر ہی والا تھاجو ان کا دماغ گرم رکھتا، سو وہ کوئی تعمیری کردار نہ ادا کر پائے ۔ سیدھی سی بات کہ ہیرو وزیراعظم کے ناکام تجربہ کے بعد اب صاحبزادہ صاحب ،وزیر خارجہ کو عقل تسلیم کرنے سے قاصر تھی!

عقل کے سر تسلیمِ خم نہ ہونے کی دو تین اہم وجوہات تھیں ، پہلی یہ کہ پیپلزپارٹی کی تنظیم اور رکنیت سازی ابھرتے ہوئے لیڈر کا راستہ دیکھ رہی تھی۔ دوسرا وہ کچے دھاگے سے بندھا ہوا پی ڈی ایم کا اتحاد جس کی نازکی اک پنکھڑی گلاب کی سی تھی مگر نزاکت اور نوعیت گلابی نہ تھی۔ تنظیم سازیوں کی کارسازیوں کو جمعیت اور جماعت اسلامی میں بڑے قریب سے دیکھ رکھا تھا، دماغ نہیں مانتا تھا پیپلزپارٹی کاچیئرمین ، بھٹو کا نواسہ، بی بی کا بیٹا اور آصف علی زرداری کا صاحبزادہ مسلم لیگ نواز کے صدر میاں شہباز شریف کو سیلوٹ کرے !

گویا 22 مئی 2022 کے کالم ’’بلاول بھٹو ہی وزیر خارجہ پاکستان کیوں؟‘‘ میں اس پیش منظر و پس منظر کا تذکرہ کیا تھا کہ 33 سالہ بلاول بھٹو زرداری نے بھلے ہی آکسفورڈ یونیورسٹی سے جدید تاریخ اور سیاسیات میں ڈگری حاصل کر رکھی ہے مگر اسٹیٹس مین بننے کیلئے انہیں ہنوز استروں کی مالا پہن کر جمہوری پگڈنڈیوں پر طویل سفر طے کرنا ہوگا۔ مانا کہ وہ پاکستان کی تاریخ کے کم عمر ترین وزیر خارجہ بننے میں کامیاب ہو گئے لیکن عالمی پیش نظر اور ہے، قومی اسٹیج اور ! صداقتِ عامہ ہے کہ بین الاقوامی دِلوں کی دھڑکن میں بسنے کیلئے اِس زمانے میں سائنس، انجینئرنگ وٹیکنالوجی کی شاہراہ پر گامزن ہونا پڑتا ہے۔

علاوہ بریں،’’بلاول بھٹو: شنگھائی تعاون تنظیم سے یو این تک ؟‘‘ (جنگ ، 18ستمبر 2022) میں سپردِ قلم کرنا پڑا’’امور خارجہ کے ماہرین اور دفتر خارجہ سے بازگشت ہے کہ بلاول اپنے خارجی امور میں بعض جگہوں پر پارٹی لائنز کے بجائے ریاستی لائنز پر دکھائی دیتے ہیں جو پروفیشنلزم کا منہ بولتا ثبوت ہے‘‘ بہرحال ان دنوں فیٹف اور آئی ایم ایف میں برف پگھلنے کا عمل شروع ہوچکا تھا، چرچہ تھا کہ بلاول بھٹو ٹھوس پالیسی بیان اور انٹرنیشنل میڈیا کا سامنا غیور قوم کے نمائندے کی حیثیت سے کرتے ہیں، صاف کہا 370 اور 35۔اے جیسی دفعات کو سبوتاژ کرکے بھارتی سفاکی و ڈھٹائی سب حدود پار کرچکی، بی جے پی کے کشمیریات اور انسانیات کو نقصان پہنچانے کے سبب بھارت سے تعلق میں روانی اور کامرانی ممکن نہیں رہی۔

سمرقند شنگھائی تعاون تنظیم میں بھی بھارتی و پاکستانی وزرائے اعظم کی آپس میں کوئی طےشدہ ملاقات شیڈول کا حصہ نہ رہی لیکن یورپی یونین کے سرد لہجوں میں گرم جوشی کا عنصر لانے میں بلاول ضرور کامیاب رہے، بلاول بھٹو کا آسیان ریجنل فورم میں کمبوڈیا جاتے ہوئے بنگلادیش(چٹگرام ایئرپورٹ) کا ٹرانزٹ رکھنا اور بنگلا دیش کے انفارمیشن منسٹر سے رابطہ کرنا اور وزیراعظم سے پیغام رسانی کو بروئے کارلانا، اے آر ایف میں بنگلادیش کے وزیر خارجہ سے گفت و شنید کرنا بہت اہم تھا۔انہوں نےآسیان ریجنل فورم میں انڈونیشیا ، ملائشیا، سنگاپور وغیرہ سے تعلقات میں بہتری کو ملحوظِ خاطر رکھا، مئی 2022 میں یو این فوڈ سیکورٹی اجلاس کے سبب نیویارک گئے تو سابق وزیراعظم عمران خان کے روسی دورے کے حوالے سے صحافیوں کے ایک سوال کے جواب میں دو ٹوک کہا ’’سابق وزیراعظم پاکستان کی خارجہ پالیسی کے تناظر میں بحیثیت سربراہ حکومت روس گئے۔‘‘

اس دورے کا کمال پاک امریکہ تعلقات کی سرد مہری کا خاتمہ بھی تھا۔ ایران جانا پڑوسیوں سے تجدیدِ وفا ٹھہرا، جسے امتِ مسلمہ نے خوش آئند قرار دیا، ان کامیابیوں میں، سیکرٹری خارجہ سہیل محمود، امریکہ میں پاکستانی سفیر مسعود خان ہی نہیں وزارتِ خارجہ کے جونیئرز اور سینئرز کے تعاون کا بھی اہم رول تھا۔ جب میں نے وزارتِ خارجہ کے (حتی کہ سابق حکومت کے دلدادہ افسران) سے سنا کہ بلاول بھٹو ٹیم ورک میں یقین رکھتے ہیں تو رفتہ رفتہ رائے بدلی کہ بلاول کے وزیرِ خارجہ بننے کے فیصلے کو جزوی طور پر درست مانا اور مذکورہ بالا تین باتیں ذہن سے سرکتی گئیں۔

المختصر، مختلف فکری و ماہر خارجہ صائب الرائے، بالخصوص ، سیکرٹری خارجہ، سردار مسعود خان، سراج الحق، احسن اقبال، مرتضیٰ جاوید عباسی ،حسین حقانی، چوہدری جعفراقبال اور حنا ربانی کھر سے ریمارکس لے کر ہی فقیر کسی حتمی نتیجہ پر پہنچے گا لیکن نیویارک میں ہونے والی بلاول بھٹو دبنگ پریس کانفرنس نے یقیناً ایک عالم کو اپنی طرف متوجہ کیا ہوگا، وزیرِ خارجہ کی صاف گوئی کہ گجرات کے قصاب کو وزیراعظم بھارت’’تسلیم‘‘ کرلیا گیا ، ان کا اشارہ تھا کہ اسامہ بن لادن تو قصۂ پارینہ ہوا مگر بی جے پی کی کشمیر ہڑپ اور پاکستان میں دہشت گردی کرانے کے امور پر بھی عالمی برادری غور کرے۔ کہہ دیا:

’’اسامہ بن لادن مر چکا ہے لیکن گجرات کا قصائی زندہ ہے اور وہ انڈیا کا وزیراعظم ہے۔‘‘

بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے طعنے’’ ایک ایسا ملک جس نے القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کی میزبانی کی اسے یہ حق نہیں کہ وہ اقوام متحدہ میں نصیحت آموز تقریر کرے۔‘‘ اس طعنے کا جواب ضروری تھا۔ بلاول بھٹو نے پریس کانفرنس میں پاکستان میں انڈین دہشت گردی سے متعلق ڈوزیئر سے صحافیوں کو آگاہ کیا کہ’’ 2021 میں لاہور (جوہر ٹاؤن) دہشت گردی میں بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت ہیں۔‘‘

بلاول بھٹو نے افغانستان میں لڑکیوں کی پرائمری تعلیم کے بعد ثانوی تعلیم کے دروازے کھولنے پر بھی زور دیا اور عالمی برادری سے افغان مسائل سمجھنے کی اپیل بھی کی جو قابلِ تحسین ہے۔

غور طلب کہ، پاکستان میں دہشت گردی پھر سر نکالنے کے درپے ہے، بھارت کی پشت پناہی نظر انداز نہیں کی جاسکتی اورنہ بلاول بھٹو کے خدشات تحفظات کہ’’اسامہ بن لادن مر چکا ہے لیکن گجرات کا قصائی زندہ ہے اور وہ انڈیا کا وزیراعظم ہے۔‘‘

بہرحال 33 سالہ وزیرِ خارجہ خود کو بڑا ابنِ کبیر ثابت کر رہا ہے!

About خاکسار

Check Also

صہیونیت مخالف طلباء تحریک، نیویارک یونیورسٹی میں اساتذہ کی ہڑتال

نیویارک یونیورسٹی کے 120 سے زائد اساتذہ نے پولیس کے ہاتھوں طلباء پر تشدد کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے