Breaking News
Home / اخبار / کیا نئی حکومت معاشی و سیاسی چیلنجز کا سامنا کر پائے گی؟

کیا نئی حکومت معاشی و سیاسی چیلنجز کا سامنا کر پائے گی؟

پاکستان کی سیاسی تاریخ ایک بار پھر بدل چکی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد عمران خان سابق وزیر اعظم اور سابق اپوزیشن لیڈر اور صدر مسلم لیگ ن شہباز شریف قائد ایوان اور نئے وزیر اعظم منتخب ہو چکے ہیں۔ واضح رہے کہ شہباز شریف گذشتہ تین سال سے قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف تھے تاہم مرکز کی سیاست میں وہ کسی حد تک نووارد تصور کیے جاتے ہیں۔ ان کی پہچان صوبہ پنجاب کے حوالے سے زیادہ نمایاں رہی جہاں وہ تین ادوار میں مجموعی طور پر لگ بھگ 13 سال صوبے کے وزیرِاعلٰی رہے ہیں۔ اس دوران وہ کئی مرتبہ تقاریر میں اپنے جذباتی رویے تو کبھی اپنے کام کرنے کے انداز کی وجہ سے سیاسی مخالفین، میڈیا اور عوام کی توجہ کا مرکز رہے۔ کبھی انھیں لانگ بوٹ پہنے سیلابی پانی میں کھڑے دیکھا گیا تو کبھی وہ سرکاری اداروں پر ’اچانک چھاپے‘ مارتے نظر آتے تھے۔

شہباز شریف ایسے وقت میں ملک کی باگ ڈور سنبھال رہے ہیں جب ملکی معیشت کا بھٹہ بیٹھ چکا ہے۔عمران خان نے اپنی 200 ماہرین کی ٹیم کے ساتھ کھیل کا آغاز کیا اور پھر ایک کے بعد ایک وزیر کو کرپشن کرنے پر وزارت سے بدل کر دوسری وزرات پر بٹھا دیا۔  اپنے مشیروں کی فوج ظفر موج باہر کے ممالک خاص طور پر امریکہ سے لا کر پاکستان پر مسلط کر دی۔ ان کو اہم عہدے اور مراعات سے نواز دیا۔ کرپشن کے نئے دروازے کھول دیے گئے ان پر پاکستان کا کوئی قانون لاگو نہیں ہونے دیا گیا۔ جس کی بدولت پاکستانی معیشت تباہ ہو گئی۔ کرپشن اور لاقانونیت کو فروغ ملتا گیا۔ریاست مدینہ جدید کے داعی حکمرانوں نے اپنی نا اہلی، چور بازاری اور ملی بھگت سے امریکی ڈالر کو 115 سے 190 پر پہنچا دیا۔ معیشت کی دیگر صورتحال بھی ایسی ہی تھی اور اس وقت ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر محض 11 بلین ڈالر ہیں جن میں سے 8 بلین ڈالر کے قریب دوست ممالک کی جانب سے پارک کیے گئے ہیں۔

 اس وقت پاکستان کے معاشی چیلنجز بہت ہی سنگین ہیں۔ حکومت کا سب سے پہلا کام آئی ایم ایف کے پروگرام کو بحال کرانا ہے۔ اس کی بحالی کیلئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے جو اقدامات اٹھانے کیلئے کہا ہے، حکومت کو ان پر لازمی عملدرآمد کرانا ہوگا۔ پیٹرولیم مصنوعات پر عمران خان نے جو ریلیف دیا تھا، اسے سب سے پہلے ختم کرنا ہوگا۔ اس وقت سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کے دبائو پر جو سہولیات ختم کی جائیں گی، اس کے بعد پاکستان میں پیٹرول اور ڈیزل کی فی لیٹر قیمت میں کس حد تک اضافہ ہوگا؟ اس سلسلے میں آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے کہا تھا کہ پیٹرول کی قیمت فی لیٹر 205 روپے ہونی چاہیے۔ موجودہ حکومت یہ سوچ رہی ہے کہ قیمتوں میں اضافہ تو ناگزیر ہے لیکن اسے ایک دم بڑھا دیا جائے یا تھوڑا تھوڑا کرکے اس میں اضافہ کیا جائے۔

 وزیراعظم شہباز شریف نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ڈالر کی قدر کو مستحکم کرنا اشد ضروری ہے۔ ہم نے دیکھا کہ پاکستان میں جیسے جیسے سیاسی بحران بڑھ رہا تھا اس کا ملکی معیشت پر بڑا گہرا اثر پڑا۔ ڈالر کی قدر 190 سے زائد تک جا پہنچی تھی۔ اب وہ گر کے 182 پر پہنچ چکی ہے۔ اب صرف ایک دن میں ڈالر کی قدر میں اتنی بڑی کمی ہونا یہ چیز ثابت کرتا ہے کہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ فنانشل مارکیٹس کو لگ رہا ہے کہ پاکستان میں معاشی استحکام آنا شروع ہو جائے گا۔ملک میں حکومت کی تبدیلی کے آثار نظر آنا شروع ہو چکے ہیں۔ سٹاک مارکیٹس میں بہتری آ رہی ہے۔ ڈالر کی قیمت میں کمی ہو رہی ہے اور اس کے علاوہ فارن بانڈز کے ییلڈز گر رہے ہیں۔ اس کے باوجود موجودہ حکومت بین الاقوامی مدد مانگنے پر مجبور ہو جائے گی۔ اندازہ یہی ہے کہ دوبارہ سے چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب کے پاس جانے کا فیصلہ کیا جائے گا تاکہ تیل کی طلب پوری کی جا سکے اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری ہو سکے۔

یہاں ایک محاذ خارجہ پالیسی کا بھی ہے ۔خارجہ پالیسی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے اور یہ عمل کسی طرح ملکی مفاد میں نہیں کہلایا جا سکتا۔ وزیراعظم کو اپنی گورننس کی ناکامیوں اور اس سے پیدا شدہ مشکلات کے لیے دوسروں پر الزام لگانے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ الزام لگانے والی پارٹی کو اپنے ماضی کے فیصلوں کے حوالے پر بھی نظر ضرور ڈالنی چاہیے۔ خان صاحب سمجھتے ہیں کہ امریکن محالف بیانیہ سے وہ عوام میں مشہور بو جائیں گے اور اگلے الیکشن میں اس کا فائدہ ہو گا۔لیکن سوال یہ ہے کہ جس بندے نے سٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے حوالے کیا آئی ایم ایف کے بندے کو وزیر خزانہ بنایا عوام اب کیسے اس کے اس امریکن محالف بیانیہ پر یقین کرے؟ اور اگر یقین بھی کر لیں تو کیا پاکستان آئی ایم ایف قرضوں کے بغیر چل سکتا ہے؟ کیا ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ ایک عالمی طاقت کی مخالفت مول لیں۔ یہ الزام وہ پارٹی لگا رہی ہے جس نے سٹیٹ بنک آئی ایم۔ ایف کے حوالے کیا۔ وزیر خزانہ آئی ایم ایف کا لگایا۔ نئی حکومت کے لیے یہ بھی بہت بڑا چیلنج ہے کہ وہ امیج کو کیسے درست کرتی ہے جس کو عمران خان نے بگاڑا ہے۔

نئی حکومت کو بے بہا چیلنجز کا سامنا ہے اور دیکھنا ہے کہ حکومت ان چیلنجز سے کیسے نمٹتی ہے کیونکہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ہے۔ بہرحال ن لیگ کو ایک بات کا فائدہ ہے کہ اس کے پاس ایک تجربہ کار ٹیم موجود ہے جو ملک کو چلانے کا اچھا تجربہ رکھتی ہے۔ بہرحال عمران خان کی جانب سے سخت اپوزیشن اور جلسے جلوسوں کی موجودگی میں یہ چیلنج اتنا آسان نہیں ہوگا۔

About خاکسار

Check Also

بیلجئم، فلسطین کے حق میں طلباء کا مظاہرہ، یونیورسٹی کا اسرائیل سے تعاون پر نظرثانی کا اعلان

صہیونی مظالم کا شکار فلسطینیوں کے حق میں طلباء مظاہروں کا دائرہ بیلجئم تک پھیل …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے