Breaking News
Home / اخبار / طالبان حکومت کس رخ جارہی ہے؟

طالبان حکومت کس رخ جارہی ہے؟

20 جنوری کو میں نے کمال بی بی سے بات کی، جو  غزنی کے ضلع اندار کے ایک گاؤں میں  رہنے والی ایک  اٹھارہ سالہ ماں ہے۔  میں نےاس  سے طالبان کی نئی حکومت کے بارے میں پوچھا۔ یہ وضاحت کرتے ہوئے کہ جنگ سے تباہ حال ضلع بالآخر پرامن ہوچکا ہے، اس نے کہا”  میں بہت خوش ہوں”۔اس کی خوشی کا سرچشمہ نہ  صرف امن تھا، بلکہ جیسا کہ اس نے مجھے بتایا، بین الاقوامی امداد بھی تھی جو اس کے گاؤں والوں نے اٹھارو سال بعد وصول کی۔”ہمارےگاؤ ں میں طالبان کے امن قائم کرنے کے وجہ سے امداد وموصول ہونے پر ، یہاں ہر کوئی بہت خوش ہے” ، اس نے مجھے بتایا۔ اس کے جواب سے مخمصےکا شکار ہو کر میں نے پوچھا: ” لوگ اب انہی طالبان  سے کیسے خوش ہیں جنھوں نے انہیں ایک لمبے عرصے تک انہیں خوف میں رکھا؟”

کمال بی بی کے مطابق، برادری کے بزرگوں کی طرف سے شناخت کیے گئے ضرورت مندوں میں ، طالبان، بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے ملنے والی امداد فراخ دلی سے تقسیم کر رہے ہیں۔ جنگ کے دوران اسی برادری کو طالبان نے،  سارا عرصہ امداد سے محروم کیے رکھا۔یہ کوئی پہلا موقع نہیں  تھا کہ بی بی کے جیسی برادریوں کو امداد سے محروم رکھا گیا ہو۔1978 میں، اس وقت کے صدر داؤد خان کے خلاف خونی بغاوت کرتے ہوئے، افغان کمیونسٹوں نے طاقت پر قبضہ کر لیا۔ طاقت ہاتھ میں آنے کے بعد، جلد  ہی کمیونسٹ حکومت نے ، 1980 میں، اپنی نئی قائم شدہ حکومت کے لیے حمایت حاصل  کرنے کی خاطر ،غریب دیہی علاقوں میں امداد تقسیم کرنا شروع کردی تھی۔ ان غریب  علاقوں میں غزنی کا  ضلع اندارا بھی شامل تھا ۔

امداد غذا اور گرم کپڑوں پر مشتمل ہوتی  تھی  جس میں، جہالت  کے خاتمے کے لیے،  تعلیمی پروگرام بھی شامل تھا۔ امداد  کی  وجہ سے سماج میں کوئی بہتری نہ  آسکی کیونکہ جلد ہی، کمیونسٹ مخالف  مجاہدین  نے خطرہ محسوس کرتے ہوئے اس کا سلسلہ  کاٹ دیا۔  نئے ابھرتے ہوئےلیکن پر عزم باغیوں میں  سے کچھ بدمعاشوں نے، امداد مہیا کرنے والوں پر حملے شروع کردیےاور امداد وصول  کرنے والوں کو  سزائیں دینا شروع کردیں۔ وہ بعض اوقات انہیں قتل بھی کر دیتے۔ مجاہدین نے ،جبکہ ، کمیونسٹ حکومت کی دیہاتوں تک رسائی کو کامیابی سے روک دیا، تو، کچھ بدمعاش عناصر کی جانب سےامداد روک دینے سے، کئی  اقلیتیں امداد اور تعلیمی پروگرام سے محروم ہو گیئں۔ اور پھر  جب 1988 سے ضلع اندار میں طاقت مجاہدین کے ہاتھوں میں آ گئی ، تو  انہوں نے بین الاقوامی امداد کی تقسیم کا عمل اپنے ہاتھ میں لے لیا اور ان لوگوں کے دل و دماغ بھی جیت لیے جو کبھی ان سے نفرت کرتے تھے۔

امریکی قبضے کے دوران امداد سے محرومی

گزشتہ  دو عشروں کے دوران طالبان نے،کئی اقلیتوں کو مختلف طریقوں سےبین الاقوامی  امداد سے محروم رکھا۔  ان کے مسلسل حملوں  اور  لڑائی نے، امداد کی تقسیم کے لیے ناسازگار حالات پیدا کر دیے۔ امدادی کارکنوں کو  خاص کر  سخت نشانہ بنایا گیا۔کئی مرتبہ وہ کراس فائیر کی زد میں آ جاتے اور کئی مرتبہ انہیں جان بوجھ کر نشانہ بنایا جاتا، حتٰی کہ بعض مرتبہ انہیں بے دردی سے قتل کردیا جاتا۔ کئی انتہائی خطر ناک معاملات میں طالبان ان پر یہ الزام لگاتے کے کہ وہ مسلمانوں کو عیسائی بنانےکی کوشش کر رہے ہیں۔جب ان سے سوال کیا جاتا تو طالبان کہتےامداد غیر قانونی ہے، کیونکہ یہ جارحیت کرنے والوں  کی طرف سے آئی ہے جنھوں نے ہم پر کٹھ پتلی حکومت مسلط کر رکھی ہے۔ لہٰذا ،اس طرح  حکومتی اوبین الاقوامی،دونوں طرح کی امداد پرر وک لگا دی جاتی۔

2006 میں ڈاکٹروں کی یونین نے، ایک  مقامی ڈاکٹر کو موٹر سائیکل  دیا۔ جب ایک  مقامی طالبان کمانڈر کو اس کے بارے میں پتہ چلا تو اس نے اور اس کے ساتھیوں نے اسے کلینک جاتے ہوئے راستے میں مار دینے کا منصوبہ بنایا۔بعد ازاں طالبان رہنماؤں  نے اپنی سوچ بدل لی۔ انہوں فیصلہ کیا کہ کہ ڈاکٹر کے دروازے پر دستک دے کر اس سے موٹر سائیکل مانگا جائے۔ جب طالبان نےایساکی تو ڈاکٹر نے بغیر کوئی سوال کیے، موٹر سائیکل خاموشی سے طالبان کے حوالے کر دیا۔ایک  دوسرے واقعہ میں، ایک امام مسجد کو امریکی فوج نے مسجد کی مرمت و آرائش کے لیے رقم کی پیش کش کی ۔ امام نے مقامی طالبان گروپ سے رقم لینے کی اجازت طلب کی اور ان کی اجازت سے رقم وصول کر  لی۔بہر حال،جب دوسرے طالبان گروپ کو اس کے بارے میں علم ہوا تو انہوں نے اصرار کیا کہ رقم انکے حوالے کی جائے۔

امام نے شروع میں تو رقم کی وصولی سے ہی انکار کردیا ۔ا س پر جنگجو غصے میں آگئے اور انہوں نے تشدد سے امام کو قریب المرگ کردیا۔بعد ازاں امام نے اس رقم سےہاتھ اٹھا لیےاور طالبان گروپ اس علاقے سے چلے گئے۔ یہ کوئی واحد واقعہ نہیں  ، اس جیسے کئی واقعات رونما ہوئے ۔ طالبان وصول کرنے والوں  سے امداد لے کر اسے پھینک دیتے اور بعض کیسز میں انہوں نے ایسے افراد کو لوگوں کے سامنے جلا دیا۔مقامی آبادیوں کو امداد دینے میں ناکامی کے دور رس اثرات مرتب ہوئے ۔اس نے سابقہ حکومت  اور  جدوجہد  کرنے والی اقلیتوں کے درمیان گہری دراڑ پیدا کی۔ اندار ضلع میں ، مثال کے طور پر ،مقامی آبادی اور حکومت کے درمیان، بہت معمولی سا تعلق تھا۔

ایک سو اسی درجےکا گھماؤ

اگست 2021 میں  حکومت ہاتھ میں  آنے کے بعد، طالبان کا دل و دماغ،امداد کے بارے میں بدلتا نظر آیا۔ جنوری میں ، مثال کےطور پر، طالبان اس حد تک چلے گئے کہ ان کی حکومت نے،امداد پر باہمی تال میل کی خاطر، بین الاقوامی نمائندوں کے ساتھ ایک  مشترکہ  باڈی بنانے کی تجویز پیش کی ۔ اس آبادی سے تعریف  حاصل  کرنے کی خاطر، جس کی بہبود  کو انہوں نے اٹھارہ سال تک خاطر میں نہ لایا ، امدادکا استعمال بہت ضروری ہے۔جہاں تک ان اقلیتوں کا تعلق ہے، جو بالآخر امداد وصول  کرنے کے قابل ہو گئی ہیں، انہوں نے ماضی کو بہت جلد بھلا  دیا۔طالبان محبوب بن چکے ہیں۔

کیا طالبان اس طرح اچھا نام کما  سکتے ہیں؟موجودہ طالبان حکومت غالباً اس وقت تک تعریف وتوصیف  حاصل  کرتی رہے گی جب تک طاقت ان کے ہاتھ میں رہتی ہے اور  وہ اندار جیسی محروم اقلیتوں کو برائے نام رقم امداد کے نام پر دیتے رہیں گے۔یہ صورتحال  اس وقت بدل  سکتی ہے جب طالبان سے الگ ہونے والے دھڑے نئی ملیشیا بنا کر حکومت کے خلاف گوریلا جنگ شروع نہیں  کر دیتے۔ اب تک ،بہرحال  طالبان ایک  اچھے لڑکے کا کردار ادا  کرتے ہوئے خوشی محسوس کررہے ہیں۔تبدیلی آنے تک، یہ افغانستان کے ضرورت مند لوگوں کے دل د دماغ میں امداد کےزریعے اپنا مقام قائم رکھیں گے۔

جمعرات، 31 مارچ 2022

About خاکسار

Check Also

ہم امریکیوں کی نقل بھی نہیں کرسکتے

حیرت اس بات کی ہے ان غیر مسلم اور لبرل ممالک میں غاصب صیہونیوں کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے