Breaking News
Home / اخبار / فرانس، عوامی مظاہروں کا دائرہ دوسرے ہمسایہ ممالک تک پھیلنے لگا، یورپی ممالک خوفزدہ

فرانس، عوامی مظاہروں کا دائرہ دوسرے ہمسایہ ممالک تک پھیلنے لگا، یورپی ممالک خوفزدہ

رانس میں جاری مظاہرے سرحدوں سے باہر نکلتے ہوئے بلیجئم اور سوئیٹزرلینڈ میں بھی شروع ہونے کے بعد جرمنی اور دیگر یورپی ممالک کے حکمران خوف و ہراس کا شکار ہوگئے ہیں۔ یوکرائن کے بعد یورپ کو سب سے زیادہ بحران اور اجتماعی مشکلات کا سامنا ہے۔

؛ فرانس میں 17 سالہ مہاجر نوجوان کے قتل کے بعد ملک گیر مظاہرے شروع ہوگئے۔ مظاہرے کی اصل وجہ پولیس کی نسل پرستی اور اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک تھا۔ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے اس مذہب، قوم اور نسل کی بنیاد پر ہونے والی نا انصافی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔

کئی سالوں سے عوام ان حالات کے خلاف اعتراض کررہے تھے۔ حالیہ واقعے کے بعد پولیس کی جانب سے سخت پہرے اور رکاوٹوں کے باوجود بڑی تعداد میں لوگ احتجاج کرنے لگے۔ 4000 سے زائد افراد گرفتار ہونے  کے باوجود ایک ہفتے تک لوگوں نے سڑکوں اور خیابانوں پر قبضہ کئے رکھا۔

احتجاجی مظاہرے تشدد آمیز شکل اختیار کرنے سے 5600 گاڑیاں جل گئیں۔ ہزاروں عمارتوں کو آگ لگادی گئی۔ 18000 شاپنگ مال اور ریسٹورنٹس میں توڑ پھوڑ کیا گیا۔ مجموعی طور پر ایک ارب یورو کا نقصان ہوا۔

پولیس اور سیکورٹی فورسز بھی حملوں سے محفوظ نہیں رہیں۔ 250 پولیس اسٹیشنوں پر حملہ کیا گیا اور 700 پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس کی جانب سے جنگی اسلحے استعمال کیے گئے۔ مظاہروں میں شدت آنے کے بعد حکومت سوشل میڈیا پر پابندی لگانے پر مجبور ہوگئی۔

حالات کنٹرول سے باہر ہونے  کے بعد حکومت نے والدین کو بچوں کے جرائم کی سزا دینے کی دھمکی دینے لگی اور وزارت قانون نے مظاہروں میں شریک بچوں کے والدین کو قید اور 30 ہزار یورو جرمانے کی سزا کا اعلان کیا۔

اگرچہ فرانسیسی صدر میکرون نے حالات پر قابو پانے اور معمول پر آنے کا دعوی کیا ہے لیکن ہمسایہ یورپی ممالک تشویش کا شکار ہیں کہ فرانس کے مظاہرے ان ملکوں میں بھی پھیل نہ جائیں۔ جرمن چانسلر اولاف شولٹز کا تازہ بیان اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔ جرمن چانسلر نے فرانس کے بعد بیلجئم اور سوئیٹزرلینڈ میں بھی مظاہرے شروع ہونے پر کہا کہ جرمنی فرانس کی صورتحال کو قریب سے مانیٹر کررہا ہے۔

فرانسیسی صدر میکرون نے اپنا جرمنی کا دورہ فرانس کے بحران کی وجہ سے ملتوی کردیا تھا۔ یہ دورہ 2000 میں سابق ژاک شیراک کے بعد کسی فرانسیسی صدر کا پہلا دورہ تھا۔ جرمن چانسلر نے دورہ ملتوی ہونے کے بعد کہا کہ فرانس جرمنی کا ہمسایہ اور دوست ملک ہے۔ دونوں ممالک یورپی یونین کے روشن مستقبل کا ضامن ہیں۔

جرمنی میں حال ہی میں سیکورٹی اداروں نے 7 دہشت گردوں کو گرفتار کرنے کا دعوی کیا ہے جو داعش جیسے حملے کرنے کی تیاری کررہے تھے۔ ان حالات میں جرمنی کے حکمرانوں کی تشویش بجا ہے۔ رائیٹرز کے مطابق گرفتار شدگان کا تعلق ترکمانستان، تاجیکستان اور کرغزستان سے ہے۔

فرانس جیسے مظاہرے شروع ہونے کے بارے میں جرمنی کی تشویش کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یوکرائن میں جنگ شروع ہونے کے بعد ملک میں گیس کی سپلائی متاثر ہوئی ہے جوکہ 55 فیصد روس سے درامد کیا جاتا ہے۔ گیس بحران کی وجہ سے جرمنی سمیت یورپی ممالک کو سخت صنعتی مشکلات کا سامنا ہے۔ گذشتہ سال جرمنی کی توانائی کی بڑی کمپنی آئی جی میٹل کی اپیل پر ہڑتال کی گئی جس میں پہلے روز ہی دو ہزار افراد نے شرکت کی۔ جنوبی صوبے بایرن میں الیکٹرونک اور آٹوموبائل مصنوعات سے تعلق رکھنے والے ہزاروں ملازمین نے اس تحریک میں حصہ لیا تھا۔
علاوہ ازین مغربی جرمنی کے کارخانوں کے ملازمین نے بھی ہڑتال میں شرکت کی تھی۔ اس کے کچھ عرصے بعد ہوائی کمپنی یوروونگز کے پائلٹس نے تین روزہ ہڑتال کی جس سے لفتھانسا کمپنی کی آدھا سے زائد پروازیں معطل ہوگئی تھیں۔ دو ہفتوں سے کم وقت میں یہ ہڑتال کا دوسرا واقعہ تھا جس کے نتیجے میں دس ہزار مسافروں کو دوسری پرواز یا ریلوے کے ذریعے سفر کرنا پڑا۔

ان تجربات کی روشنی جرمن حکام کا فرانس کے مظاہروں کے بارے میں تشویش کا اظہار کرنا معقول لگتا ہے مخصوصا جب یہ مظاہرے بیلجئم اور سوئیٹزرلینڈ کی سرحدوں میں داخل ہوگئے تو جرمنی کی پریشانی بھی فطری ہے۔

بیلجئم میں فرانس کے مظاہرے سرایت کرگئے اور دارالحکومت برسلز میں 30 جون کو لوگوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ البتہ فرانس کی نسبت یہ مظاہرے کافی حد تک پرامن تھے۔ پولیس نے برسلز میں 63 افراد کو گرفتار کیا۔

سوئیٹزرلینڈ سے موصولہ اطلاعات کے مطابق لوزان میں مظاہرین نے مختلف مقامات پر احتجاج کیا۔ احتجاج میں اشتعال انگیزی کی وجہ سے پولیس نے کئی افراد کو گرفتار کیا۔

سوئیس پولیس کے مطابق مظاہرین نے شاپنگ مال اور پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا جس کے بعد گرفتاری عمل میں آئی۔ مظاہرین نے پولیس کی طرف آتش گیر مواد پھینکا۔

 مقامی ذرائع کے مطابق گرفتار ہونے والوں کی عمر 15 سے 17 سال کے درمیان ہے۔ گرفتار شدگان پرتگال، سربیا، بوسنیا، جارجیا اور صومالیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ گرفتار شدگان میں 24 سالہ سوئیس جوان بھی شامل ہے۔

اگرچہ عمومی طور پر فرانس میں پولیس کا رویہ دیگر ممالک کی نسبت زیادہ شدید اور نامناسب رہا ہے لیکن یورپی ممالک کے درمیان اس حوالے سے زیادہ فرق نہیں ہے۔ گذشتہ سال لندن، پیرس، برلن، میڈرڈ اور روم میں اس طرح کے مظاہروں میں ان ممالک کی پولیس کا سلوک اور نامناسب رویہ سب کے سامنے ہے۔

 یوکرائن کی جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران، مہنگائی، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ، صنعتوں کی بندش، ایٹمی جنگ کا خطرہ اور اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک وہ امور ہیں جن کی وجہ سے یورپ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ اسی وجہ سے یورپی ممالک ہمیشہ الرٹ رہتے ہیں کہ بیلجئم اور سویٹزرلینڈ کی طرح فرانس کے مظاہرے ان ملکوں میں بھی شروع نہ ہوجائیں۔

صدر میکرون کی جانب سے طاقت کے بل بوتے پر احتجاج کو دبانے کے بعد یورپی نوجوان کے اندر احتجاج کی آگ نہیں بجھے گی بلکہ خاکستر کے نیچے پنہاں ہوگئی ہے جوکہ کسی بھی وقت دوبارہ بھڑک سکتی ہے اور پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

About yahya

Check Also

صدر رئیسی قم پہنچ گئے، عوام کا شاندار استقبال

ایرانی صدر رئیسی ایران کے مختلف صوبوں کے دورے کے دوسرے مرحلے میں کچھ دیر …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے