Breaking News
Home / اخبار / شیعہ آسان نشانہ کیوں؟

شیعہ آسان نشانہ کیوں؟

صوبائی دارالحکومت پشاور کے معروف قصہ خوانی بازار کی گلی کوچہ رسالدار میں شیعہ مسلک کی مرکزی جامع مسجد میں نماز جمعہ کے دوران ہونے والے حملے میں کم از کم 56 افراد شہید جبکہ درجنوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ترجمان لیڈی ریڈنگ ہسپتال محمد عاصم نے دھماکے میں56 شہادتوں کی تصدیق کی ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ 194 زخمیوں کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔اس سے قبل بتایا گیا تھا کہ 10 زخمیوں کی حالت نازک ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق جس وقت حملہ کیا گیا اس وقت مسجد میں نمازیوں کی بڑی تعداد موجود تھی جبکہ حملہ آور نے دھماکہ کرنے سے قبل فائرنگ بھی کی۔

پاکستانی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ اس حملے کا مقصد پاکستان کا دورہ کرنے والی آسٹریلوی ٹیم کے دورے کو سبوتاژ کرنا تھا مگر سوال یہ ہے کہ اس طرح کے کے مقاصد کے حصول کے لیے شیعہ ہی آسان نشانہ کیوں ہیں؟ یاد رہے کہ مائنورٹی رائٹس گروپ انٹرنیشنل نامی تنظیم نے پاکستان میں شیعہ کو نشانہ بنانے پر پاکستان کو اقلیتوں کے لیے خطرناک ملک قرار دے دیا تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ پاکستانی حکومت تحریک طالبان جیسے دہشت گرد گروہوں اور دیگر شدت پسند گروہوں کے خلاف برسرپیکار ہے مگر سوال یہ ہے کہ ان تمام کارروائیوں کا محور پاکستانی شیعہ ہی کیوں ہیں اور ریاست پاکستانی شیعوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام کیوں ہے؟

یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا نشانہ بنا اور اگر مسلکی لحاظ سے دیکھا جائے تو کوئی مسلک اس دہشتگردی سے نہیں بچ سکا، مکتب دیوبند اور اہلسنت بریلوی کے کئی جید علمائے کرام اور پیروکار بھی دہشتگردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ مگر تناسب کی بات کی جائے تو جہاں اہل تشیع مکتب فکر کے 90 فیصد لوگ دہشتگردی کا شکار ہوئے ہیں تو دوسرے مکاتب فکر کے 10 فیصد عوام و خواص متاثر ہوئے۔ دہشتگردوں کا مذہب بھی ہے، آئیڈیالوجی بھی اور مسلک بھی۔ پاکستان میں اہل تشیع مکتب فکر کے پیروکاروں کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نشانہ بنایا گیا اور بنایا جا رہا ہے۔ جس کا مقصد عالمی سطح پر اس مکتب فکر کے پیروکاروں کا امریکہ، اسرائیل اور اسلام کا لبادہ اوڑھے بعض نام نہاد عرب مسلم ممالک کی اسلام اور مسلمانوں کیخلاف کی جانے والی سازشوں کے سامنے ڈٹ جانا ہے، کیونکہ استعماری قوتوں کو معلوم ہے کہ یہی مکتب فکر اسلام کا صف اول میں دفاع کرسکتا ہے، ہر مسلک کے پیروکار کی مدد و نصرت کرسکتا ہے اور اسلامی معاشرہ کو پروان چڑھا سکتا ہے۔

شیعہ مکتب کے لیے جو سب سے زیادہ تشویشناک بات ھے وہ ریاست کا شیعہ قتل عام پر خاموش رہنا اور کوئی ٹھوس حل نا نکالنا ھے کہ اس دہشتگردی ٹارگٹ کلنگ کو روکا جا سکے بلکہ ھم دیکھتے ہیں کہ ریاست ایسی تکفیری کالعدم مذھبی انتہا پسند تنظیموں کے خلاف کاروائی کرنے کی بجائے انہیں تحفظ فراہم کرتی ھے جبکہ جنکی نسل کشی کی جا رہی ھے انہیں بطور چارہ بناکر شکار کے آگے چھوڑ دیا جاتا ھے۔ اگر ھم صرف کوئیٹہ کے ہزارہ شیعہ کی بات کریں تو ابتک کے اعداد و شمار کے مطابق تقریبا 1500 شیعہ قتل کیے گئے تین لاکھ شیعہ اس دہشتگردی ٹارگٹ کلنگ سے متاثر ھوئے ہیں جن میں ایک لاکھ کے قریب شیعہ پاکستان چھوڑنے پر مجبور ھوئے اور دو لاکھ شیعہ کوئیٹہ سے ہجرت کرکے پاکستان کے دوسرے صوبوں میں سکونت اختیار کرنے پر مجبور ہیں اسکے علاوہ کراچی میں ہزاروں خاندان متاثر ھوئے جن میں سے بیشتر لوگ کراچی سے باہر یا بیرون ملک چلے گئے یہی حال پشاور کا ھے جہاں سب سے زیادہ سرکاری اہلکار شیعہ نسل کشی کا شکار بنے اور بم دھماکوں کی تو پوری ایک تاریخ موجود ھے

مختلف امام بارگاہوں مساجد پر بم بلاسٹ ھوں یا ٹارگٹ کلنگ یا شیعہ آبادیوں پر حملے شیعہ فرقہ تقریبا 40 ہزار سے زائد افراد کھو چکا ھے ان بم دھماکوں ٹارگٹ کلنگ اور حملوں کی ذمہ داری بھی مختلف کالعدم دہشتگرد تکفیری تنظیموں کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہیں مگر انکے خلاف ریاست کی کاروائی سوائے دکھاوا کرنے کے کچھ نہیں تھی آج تک ھم یہ دیکھنے سے قاصر ہیں کہ شیعہ  قتل عام میں ملوث کسی دہشتگرد کو سزا ملی ھو یا شیعہ نسل کشی کو نظریاتی طور پر ابھارنے والے کسی رہنما کو سزا دی گئی ھو یہ میرا اپنا زاتی خیال ھے ھو سکتا ھے میں غلط ھوں مگر حالات و واقعات مجھے یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ شیعہ قتل عام کشی بھی درحقیقت ایک ریاستی دہشتگردی ھے مگر ھم اسے براہ راست ریاستی دہشتگردی نہیں کہہ سکتے البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ھے کہ شیعہ نسل کشی میں ریاست بالواسطہ یا بلاواسطہ ضرور ملوث ھے۔

About خاکسار

Check Also

صہیونیت مخالف طلباء تحریک، نیویارک یونیورسٹی میں اساتذہ کی ہڑتال

نیویارک یونیورسٹی کے 120 سے زائد اساتذہ نے پولیس کے ہاتھوں طلباء پر تشدد کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے