Breaking News
Home / اخبار / جو بائیڈن کو یروشلم میں امریکی قونصلیٹ دوبارہ کھولنے پر سمجھوتا کیوں نہیں کرنا چاہیے

جو بائیڈن کو یروشلم میں امریکی قونصلیٹ دوبارہ کھولنے پر سمجھوتا کیوں نہیں کرنا چاہیے

تقریبا سات ماہ کا عرصہ بیت چکا ہے جب امریکی سیکرٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے فلسطین اتھارٹی کے صدر محمود عباس کو مطلع کیا کہ واشنگٹن یروشلم میں اپنے قونصلیٹ کو دوبارہ کھولنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ تاہم جوبائیڈن انتظامیہ تاحال اپنا عہد پورا نہ کر سکی۔ ٹائمز آف اسرائیل کی ایک رپورٹ کے مطابق امرہکہ نے فلسطین میں سفارتی مشن کے دوبارہ آغاز کی کوششوں کو سرد خانے میں ڈال دیا ہے۔ یروشلم میں امریکی قونصلیٹ کئی دہائیوں سے مشرقی یروشلم، مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے فلسطینی عوام کی خدمت میں مصروف تھا۔ 2019 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے بند کر دیا اور سٹاف کو تل ابیب میں امریکی سفارت خانےمیں منتقل کر دیا۔

پائیڈن انتظامیہ کی جانب سے قونصلیٹ دوبارہ کھولنے میں ہچکچاہٹ درحقیقت اسرائیلی دباو کا نتیجہ ہے۔ ابھی تک ایسا لگ رہا ہے کہ امریکہ اسرائیل دباؤ کے نیچے دب گیا ہے اور تل ابیب کو اپنی خارجہ پالیسی میں عمل داری کی اجازت دے رہا ہے۔ امریکہ مضخکہ خیز انداز میں اپنے قونصیلٹ کو دوبارہ کھولنے کے لیے اسرائیلی اجازت طلب کررہا ہے اور متوقع طور پر اسرائیل اس کی اجازت نہیں دے رہا۔ اسرائیلی وزیر خارجہ یائر لاپِد نے نیوز کانفرنس کے دوران قونصل خانہ دوبارہ کھولنے کے سوال کے جواب میں کہا کہ ‘ہم سمجھتے ہیں کہ یہ برا خیال ہے، بیت المقدس صرف اور صرف اسرائیل کا خود مختار دارالحکومت ہے اس لیے ہم نہیں سمجھتے کہ یہ اچھا خیال ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘ہم جانتے ہیں کہ اس معاملے کے حوالے سے بائیڈن انتظامیہ مختلف انداز سے دیکھتی ہے لیکن چونکہ یہ اسرائیل میں ہو رہا ہے اس لیے ہمیں یقین ہے کہ وہ ہماری بات کو غور سے سنیں گے۔

فلسطینی لبریشن تنظیم کے سینئر عہدیدار وصل ابو یوسف کا کہنا تھا کہ قونصل خانہ کھولنے کے حوالے سے اسرائیل کا انکار متوقع تھا۔ انہوں نے کہا کہ ‘وہ کشیدہ حالات کو برقرار رکھنے کے لیے ہر سیاسی حل کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں’۔ امریکی سفارتخانے سے معاملے کے حوالے سے اب تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا، اسرائیل پورے بیت المقدس کو اس کا غیر منقسم دارالحکومت سمجھتا ہے لیکن اس حیثیت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اسرائیل نے 1967 میں مشرق وسطیٰ کی جنگ کے دوران شہر کے مشرقی علاقے، غزہ اور مغربی پٹی پر قبضہ کر لیا تھا۔

تاہم بائیڈن انتظامیہ کو سفارت خانہ دوبارہ کھونلے کے لیے اسرائیلی اجازت کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔ درحقیقت فلسطین کی جانب سے قونصلیٹ کے دوبارہ کھولنے کی درخواست درحقیقت امریکہ کی جانب سے فلسطینیوں کے حقوق کے ادراک اور فلسطینی حمایت کی جانب ایک قدم ہوگا۔ تاہم امریکہ کی جانب سے اسرائیل سے اجازت طلب کرنے کا مطلب اسرائیل کی اپارتھائیڈ پالیسز کو تسلیم کرنا اور اسرائیل کے غیر قانونی اقدامات کو تسلیم کرنا ہے۔ امریکہ کو اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ یروشلم میں امریکی قونصلیٹ فلسطین اسرائیل تنازعے سے قبل بھی موجود تھا۔ اس قونصلیٹ کا قیام 1844 میں عمل میں آیا جو کم از کم اسرائیل کے قیام سے ایک صدی قبل کی بات ہے ۔

بائیڈن انتظامیہ کے اقتدارمیں آنے کے بعد سے اس نے فلسطین اسرائیل تنازعے میں دلچسپی نہیں لی  اور فلسطینیوں کے مسائل اور ان کی تکالیف کو مکمل طور پر نظر انداز کیا ہے بلکہ اسرائیل کے مظالم پر مکمل طور پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ مزید برآں جو بائیڈن نے ترمپ انتظامیہ کی جانب سے فلسطینیوں کے ساتھ کی گئیں تمام زیادتیوں کو بھی نظر انداز کیا ہے جبکہ ایران، یورپ اور یمن کے حوالے سے کیے گئے ٹرمپ انتظامیہ کے اقدامات کو واپس کرنے کے لیے بائیڈن انتظامیہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ ٹرمپ کے اقدامات بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کی قرارداد اور جینیوا کنونشن سے مکمل متصادم تھے جو 1967 سے قبل کے علاقوں کو تسلیم کرتے ہیں جن میں مشرقی یروشلم اور مقبوضہ فلسطین بھی شامل ہیں۔

جب جو بائیڈن اقتدار میں آئے تھے تو انہوں نے دعوٰی کیا تھا کہ وہ انسانی حقوق کو امریکی پالیسی کا مرکز بنائیں گے اور یروشلم میں امریکی قونصلیٹ اس دعوے کا اصل امتحان ہے۔ اگر بائیڈن انتظامیہ قونصلیٹ کھولنے میں ناکام رہتی ہے تو اس کا مطلب ہو گا وہ اسرائیلی اقدامات کی حمایت کرتی ہے۔ بلکہ اس طرح تل ابیب مزید شیر ہوجائے گا اور دیگر سفارتی مشنز کو بھی فلسطینی علاقوں میں کام کرنے سے روکے گا۔ اس لیے اس معاملے پر امریکہ کو سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے۔

اتوار، 26 دسمبر 2021

About خاکسار

Check Also

صدر رئیسی قم پہنچ گئے، عوام کا شاندار استقبال

ایرانی صدر رئیسی ایران کے مختلف صوبوں کے دورے کے دوسرے مرحلے میں کچھ دیر …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے