Breaking News
Home / اخبار / تاتاریوں کو کریمیا سے جبرا بے دخل کیوں کیا گیا ہے؟

تاتاریوں کو کریمیا سے جبرا بے دخل کیوں کیا گیا ہے؟

 مارچ  2014میںجزیرہ نما کریمیا روس میں شامل کرنے کے فورا” بعدماسکو نے  اس خطے میں رہنے والی  ترک مسلم اقلیت جنہیں تاتارکہا جاتا ہے،کےخلاف کریک ڈاؤ ن شروع  کر دیا ۔ورپی یونین نے مقبوضہ علاقے میں تارتار یوں کی غیر قانونی حراستوں پر فکر مندی کا اظہار کیا جبکہ روس کی اس  اقلیت کے خلاف جارحیت کوئی نیا مظہر نہیں بلکہ سامراجی روس  ( زار شا ہی کے وقت کا روس )  نے ان کے خلاف ہمیشہ ہی مخاصمانہ رویہ روا رکھا ہے ۔ماضی میں جب  ملکہ کیتھرین ثانی نے1783 میں کریمیا کی’خان شاہی کو زیر کیا  تو اس اقلیت کو منظم  استحصال کا نشانہ بنایا گیا۔ایک  صدی بعد اس  بربریت اس وقت شدت آ گئی جب  جوزف سٹالن  سابقہ  سوویت یونین  کا حکمران تھا۔

تارتار ہمیشہ ہی استحصال  کا شکار ہونے والوں میں رہے ہیں۔رضا  شیو کیف کریمیا فنڈ کے سربراہ جو کہ مجلس کا اقتصادی شعبہ ہے  کا کہنا ہے کہ "آج  بھی روس وہی کچھ کر رہا ہے لیک آہستگی ور زیادہ   ضرر رساں طریقے سے مجلسکریمیا کے تارتاروں کا    خود مختار حکمران ادارہ ہے جو سوویت یونین کے زوال کے بعد قائم کیا گیا  تھا۔اس  نے یوکرین کی قومی سیاست میں فعال کردار ادا کیا ہے لیکن  2014 میں روس کے جزیرہ نما کریمیہ پر قبضے اور اس کا کنٹرول ہاتھ میں لینے کے بعد اسے غیر قانونی قرار دے دیا گیا ۔شیوکیف  ،نے  2015، میں یہ اطلاع ملنے کے بعد کہ اگر وہ رکا رہا تو اسے گرفتار کر لیا جائے گا،  کریمیا سے راہ فرار اختیار کی۔ ٹی –آر – ٹی ورلڈ کے ساتھ اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں اس نے بیان کیا کہ کریمیا  میں اس کے  خلاف درجنوں خود ساختہ عدالتی مقدمات قائم کیے گئے  تھے جن  میں سے کئی کا آج تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔

” ممتاز کریمیائی تاتار رہنماؤں کو غیر قانونی حراست میں رکھا گیا جنھوں نےعدالت میں  مجرمانہ مقدمات کا سامنا کیا۔ ”  شیوکیف  نے بتایا ۔ اس کی بھنوؤں کی گہری لکیریں  اس  کی مایوسی کا پتہ دے رہی تھٰیں۔”مجھے اب بھی  وہ دن یاد ہے جب  سمفروپول میں مجلس کے ہیڈ کوارٹر کا محاصرہ کیا  گیا تھا اور درجنوں  نشے میں دھت،نقاب پوش روس نواز بندوق برداروں نے تلاشی لی تھی جنھوں نے یوکرینی جھنڈوں کی جگہ روسی جھنڈے  لگا دیے تھے ۔شیوکیف نے یاد کرتے ہوئے کہا۔کئی فعال   لوگ تاتاروں کے خلاف روس کے آہنی ہاتھ کے استعمال کے خلاف ہیں تار تار ایک ایسی کمیونٹی ہیں  جنھوں نے جزیرہ نما کریمیا کے روس میں شامل  کرنے کےخلاف ہمیشہ جدوجہد کی ہے۔ ماسکو کی جانب  سے مسلسل بڑھتی ہوئی گرفتاریوں اورماسکو کی مسلط کی ہوئی خوف کی فضا کی وجہ سے کئی تا تار کریمیا چھوڑ  کر  یوکرین کے مختلف شہروں میں پناہ لےچکے ہیں۔

غیر یقینی کی اس کیفیت میں کئی لوگوں کو سٹالن کا عہد یا د آتا ہے جب ان کے آباؤاجداد کو باقاعدہ منظم  پروگرام کے تحت وسیع پیمانے پر ،  ازبکستان سے لے کر قازقاستان تک وسط ایشیا کے مختلف ممالک میں جلا وطن کیا گیا تھا۔ کریمیا کی ہر تار تار فیملی کے پاس ایک کہانی ہے جو انہیں اپنی بے ترتیب تاریخ کے ساتھ جوڑتی ہے۔” روس نےسیایسی اجتماعات ، میڈیا  نشریات اور حکومتی کو بند کرنے کے لیے ہمیشہ   انتہا پسندی اور دہشت گردی کا کارڈ استعمال کیا ہے۔شیوکیف نےکہا2014 سے کریمیائی تار تار غیر معمولی دباؤ کا شکار ہیں اور ترکی کےعلاوہ  سبھی مسلم اکثریتی  ممالک اس بارے خاموش ہیں۔

انتہا پسندی کا الزام لگاتےہوئے ماسکو نے کئی اسلامی کتابوں پر پابندی لگا دی ہے،اور تاریخ کی ایسی نصابی کتب متعارف کرائی  ہیں جو اس اقلیت کے خلاف نفرت پیدا کرتی ہیں۔ ہم تصور نہیں کر سکتے کہ  جنگ اتنی طویل ہو جائے گی۔ وہ  بچے جو پہلے ہی  پانچ سال کے ہو چکے ہیں روسی زہنیت کے ساتھ پروان چڑھیں گے۔ وہ کریملین کے پروپیگنڈے کےخلاف مذاحمت نہیں کر سکتے۔”   شیوکیف نے کہا۔بہر حال ،کریمیا پرروسی  قبضے کےبعد اقلیت کو آخری کنارے تک  دھکیل دیا گیا ہے۔  دہشت گردی پر مبنی   بے بنیاد عدالتی کاروائیاں  ہماری شناخت کو خطرےمیں ڈال رہی ہیں۔” اس  نسلی گروہ نے چودھویں صدی کے وسط میں اسلام قبول کیا ۔ بہرحال  ترکی بولنے والی اس آبادی پر 1783 میں روسی توسیع پسندی کےدوران غلبہ پالیا گیا۔ کئی اپنی مذ ہبی شناخت کی بنا پر اتما نے ترکی میں پناہ لی۔

” کریمیا کے تار تار دہشت گرد نہیں ہیں”۔چالیس سالہ اسماگیلوف نے کہا  جو یوکرینی امہ کے مسلمانوں کی مذہبی انتظامیہ کے  ایک مفتی ہیں   اور یوکرین کے روحانی رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔” وہ بےیقینی اور مستقبل کے بارے میں کنفیوژن  کا زندو وجود ہیں” مفتی نے کہا۔” کریمیا  میں صورتحال  تکلیف دہ ہے کیونکہ مسلمان بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔روس کریمیا کو  ایک ملٹری  بیس بنانے کی  جستجومیں کھلے عام   جبر کی پالیسی پر عمل پیر ا ہے۔وہ   وسیع پیمانے پر ایسے اقدامات کر رہا ہے کہ جو لوگ اس سے مطمئن نہیں وہ کریمیا چھوڑ جائیں گے۔ ہم کریمیا کےمسلمانوں سے انٹرنیٹ کے زریعے رابطہ رکھے ہوئے ہیں۔براہ راست  ٹیلیفونک رابطہ نہیں کیونکہ یہ غیر محفوظ ہے۔لوگ ہمیں بتاتے ہیں کہ ان کے کیا مسائل ہیں۔ اور ہم جہاں تک ہو سکے ان کی مدد کرتےہیں”۔ اسماگیلوف نے مایوسی بھری آواز میں کہا۔

روس  میں شامل کیے جانے کے بعد حتٰی کہ تار تاروں کی جانب  روسی آبادی  کےرویے میں بھی فرق آ گیا ہے۔ اس کا تجربہ سوزانہ اسماگیلوف  کو ہوا   جبکہ وہ کریمیا  کے دیہاتوں کا دورہ کر رہی تھیں تا کہ 1944 کی  وطن بدری کے بعد اورال ، تاشقند اور قزاقستان سے ہجر ت کر کےآنے والے لوگوں کو تعلیم دے سکیں۔” میرے تمام رشتہ دار جو اس علاقے میں رہتے ہیں اسلامی تعلیمات  پر عمل کرنے میں مشکل محسوس کرتےہیں۔ روس کےجزیرہ نما خطے پر قبضے کے بعد روسی آبادی اور ہمسائے  جارح ہو گئے ہیں ”  اسماگیلوف نے کہا جو اپنے رشتہ داروں کے بارے میں خوفزدہ تھی۔ ایک چالیس سالہ ، چھ  بچوں کی ماں  اسماعیلووا کےچہرے کےخدوخال نرم ہیں جو اس کے نیلے رنگ کے سکارف  میں سے چمکتے ہیں ۔وہ کیف کے اسلامی ثقافتی مرکز کی فعال ممبر اور  مسلمان عورتوں کی تنظیم کی بانی ہیں جس کا  نام مریم ہے۔

"سوویت کے زمانے میں حکام کی جانب سے بہت زیادہ دباؤ کا سامنا رہا ہے۔ اور جب ہمیں مختلف  وسط ایشیائی شہروں کی جانب ملک بدر کر دیا گیا تو  تارتارکو اسلامی تاریخ بھول گئے ۔ اگرچہ و ہ اپنی روایا ت پر کاربند رہے، اسلا م نے ہمیں دوبارہ  متحد ہونے میں  مدد د ی اور ہمیں ہماری شناخت دی۔”خاتو ن نےکہا۔اگر چہ مغرب میں  پائےجانے والے نسلی اور مسلم دشمن بیانیے کو روس بھی استعمال کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے اور تار تار شناخت کو سٹالنسٹ روس کی طرح اب بھی خطرہ ہے تاہم کئی لوگ اب بھی پر امید ہیں جن میں  اسماعیلووا بھی شامل ہیں۔” اس مذہبی جبر نے ہمیں مذید مضبوط اور متحد بنایا ہے” اسلامووا  نے اپنے چہرے پر گہری مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے کہا ۔  ” اور میں جانتی ہوں کہ ایک دن ہم اپنی  مادر وطن لوٹ جائیں گےاور کریمیا  یوکرین کو واپس ہو جائیگا۔

جمعتہ المبارک، 11 مارچ 2022

About خاکسار

Check Also

بیلجئم، فلسطین کے حق میں طلباء کا مظاہرہ، یونیورسٹی کا اسرائیل سے تعاون پر نظرثانی کا اعلان

صہیونی مظالم کا شکار فلسطینیوں کے حق میں طلباء مظاہروں کا دائرہ بیلجئم تک پھیل …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے