Breaking News
Home / اخبار / بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جرائم کے خلاف پاکستان بین الاقوامی قوانین کو کس طرح استعمال کر سکتا ہے؟ شفقنا خصوصی

بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جرائم کے خلاف پاکستان بین الاقوامی قوانین کو کس طرح استعمال کر سکتا ہے؟ شفقنا خصوصی

جب بھی کسی ملک کو کسی بین الاقوامی مسئلے کا سامنا ہوتا ہے تو اس کے لیے وہ دو طریقوں میں سے ایک اختیار کر سکتا ہے، آرام سے بیٹھ جائے اور اس مسئلے کو ایک غیر متوقع رفتار سے ابھرنے دے یا پھر آگے بڑھ کر اس کے حل کی کوشش کرے۔پہلا رستہ ناخوشگوار نتائج کا حامل ہوسکتا ہے جب کہ دوسرے میں اگرچہ شروع میں بہت سخت محنت چاہیے ہوتی ہے تاہم یہ طویل عرصے کے لیے سود مند ثابت ہوتا ہے۔ میں نے یہ صورتحال وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب پر واضح کی تھی جب میری ستمبر 2020 میں ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ میں نے انہیں بین الاقوامی قانون سازی کے متعلق بتایا تھا۔

میں نے انہیں رائے دی تھی کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی مدد لیں اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کےجنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عالمی قانون کا سہارا لیں۔ اگرچہ مجھے اس بات کا یقین نہیں ہے کہ پاکستان نے میری رائے پر غور کیا ہے یانہیں تاہم بھارت کے لیے ایک قانونی سونامی ضرور اٹھ کھڑا ہوا ہے اور اس سونامی کی ابتدا برطانیہ سے ہوئی ہے۔ جس سے لگتا ہے کہ دنیا آہستہ آہستہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر جاگنا شروع ہوگئی ہے۔ 20 جنوری کو لندن میں ایک نجی لا فرم، سٹوک وائیٹ انٹرنیشنل نے میٹروپولیٹن پولیس کو درخواست دی ہے، جس میں انڈیا کی فوج کے سربراہ سمیت دیگر فوجی اور نیم فوجی حکام کے خلاف انڈیا کے زیرِ اتتظام کشمیر میں مبینہ جنگی جرائم، ریپ، عدالت سے ماورا قتل اور تشدد کے دیگر واقعات کی وجہ سے برطانوی قانون جینیوا کنوینشنز ایکٹ 1957 کے تحت مقدمہ چلانے کا کہا ہے۔

سٹوک وائیٹ لا فرم نے اپنی شکایت میں الزام عائد کیا ہے کہ انڈین فوج کے سربراہ جنرل نروانے اور وزیر داخلہ امِت شاہ کی سربراہی میں انڈین سکیورٹی فورسز انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور عام شہریوں پر تشدد کر رہی ہے، اغوا کر رہی ہے اور انھیں ماورائے عدالت قتل کر رہی ہے۔سٹوک وائیٹ انٹرنیشنل کے انویسٹیگیشن یونٹ کی جاری کردہ انڈیا کے زیرِ انتظام جموں اور کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں رپورٹ پر انڈیا کی وزارتِ خارجہ، وزارت دفاع اور وفاقی وزارت داخلہ نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ جنیوا کنونشنز ایکٹ 1957 برطانیہ کی پارلیمنٹ کا ایک قانون ہے جس میں جنیوا کنونشنز کی دفعات کو برطانوی قانون میں شامل کیا گیا ہے۔ جنیوا کنونشنز ایکٹ کے تحت دنیا کے کسی بھی حصے میں کیے گئے جنگی جُرم، ریپ اور تشدد کے دیگر واقعات میں ملوث افراد کے خلاف ماہرین کے مطابق برطانیہ میں مقدمہ چلانے کی گنجائش موجود تو ہے لیکن اس میں ’سخت چیلنجز‘ درپیش ہیں۔

یہ ایک بہت بڑی بین الاقوامی پیش رفت ہے ، جو کہ بین الاقوامی قوانین کا ایک طے شدہ اصول ہے اور ہر ملک اس کا پابند ہے کہ جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم، نسل کشی اور تشدد میں ملوث افراد کو سزا دیں اور انہیں قانون کے کٹہرے میں لائیں۔ اگرچہ سٹوک وہائیٹ کی رپورٹ کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے تاہم بھارت کے خلاف پہلا قانونی میزائل فائر ہوچکا ہے اب یہ دیکھنا ہے کہ پاکستانی حکومت اور کشمیری تارکین وطن اس کی بنیاد پر اس کام کو کیسے آگے لے کر چلتے ہیں۔

بین الاقوامی قوانین کے دائرہ کار کا ارتقاء

بین الاقوامی جرائم کے احتساب کے مایوس کن ریکارڈ کے باجود  بین الاقوامی قانون کا دائرہ کار بین الاقوامی جرائم کے انصاف کے نظام کو چالو رکھنے کا طریقہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔   بین الاقوامی قانون کا دائرہ کار سالہا سال کی تبدیلیوں سے ارتقا پا گیا ہے ۔ چلی کے آمر جنرل آگسٹو پنوشے کو انسانیت کے خلاف جرائم پر 1998 میں برطانیہ نے گرفتار کیا اور کی گرفتاری کے وارنٹس سپین نے جاری کیے تھے۔ قانونی جنگ کے بعد برطانوی عدالتوں نے پنوشے کے ریاست کے سابقہ سربراہ ہونے کی وجہ سے معافی کی درخواست کو رد کر دیا اور انہیں سپین واپس بھجوا کر مقدمہ جاری رکھنے کی استدعا کی۔ اگرچہ پنوشے کی خرابی صحت کی وجہ سے یہ مقدمہ نہ چل سکا تاہم ان کی ڈیڑھ سالہ قید بین الاقوامی قوانین کے دائرہ کار میں نقطہ تبدیلی تھا۔

اس کے بعد سے لاطینی امریکہ کے بہت سارے ممالک نے بین الاقوامی جرائم پر تحقیقات کھلوائیں۔ پیرو کے سابق صدر البرٹو فیوجی موری کی 2007 میں چلی سے پیرو کو حوالگی بین االاقوامی قوانین کے دائرہ کار کی ایک کامیاب مثال ہے۔  برطانیہ کی قانونی فرم کی جانب سے بھارتی فوجی چیف کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ اس وقت سامنے آیا ہے جب جینو سائڈ واچ نے بھارت میں نسل کشی کی نشاندہی کی ہے۔

پاکستان کے لیے لائحہ عمل

جب بھارت کے خلاف بین الاقوامی قوانین کے دائرہ کار کی بات آتی ہے تو پاکستان کے پاس صرف چند آپشن بچتے ہیں۔ اول پاکستان کو ایک کانفرنس کا انعقاد کرنا چاہیے جس کا عنوان” بین الاقوامی قوانین کےد ائرہ کار کے تحت بھارت کو قابل احتساب ٹھہرایا جائے” ہونا چاہیے تاکہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کو دنیا بھر میں اجاگر کیا جاسکے۔ اس کانفرنس کے لیے دنیا بھر کے ممالک، مفکرین، بین الاقوامی قوانین کے ماہرین، این جی اوز، بین الاقوامی میڈیا تنظیموں اور اثرورسوخ رکھنے والے افراد کو دعوت دی جائے۔ بھارتی جرائم کے شکار افراد کو ثبوت کے طور پر اس کانفرنس میں پیش کیا جانا چاہیے۔ اور اس کانفرنس کی بنیاد پر پاکستان کو یہ معاملہ اقوام متحدہ میں لے جانا چاہیے۔

دوسرا، پاکستان کو ریاست سے جڑے یا ریاست کی جانب سے مدد فراہم کیے جانے والے افراد کو شناخت کرنا چاہیے جو کہ بھارتی درخواست پر بین الاقوامی جرائم کا ارتکاب کررہے ہیں۔ ان تمام افراد کے ثبوت بھارتی حکام کے خلاف بین الاقوامی قوانین کے دائرہ کار میں پیش کیے جانے چاہییں۔ تیسرا، پاکستان کو مناسب دائرہ کار کو جاننا چاہیے تاکہ وہاں جرائم کے خلاف درخواست دی جاسکے، گرفتاری کے وارنٹ جاری کروائے جا سکیں اور مجرمانہ حملوں کے ذمہ داران کو گرفتار کیا جاسکے۔ اور آخر میں پاکستان کو بین الاقوامی قوانین کے ماہر وکلاءکی خدمات حاصل کرنی چاہیے تاکہ ہو بین الاقوامی دائرہ کار میں مناسب اندا زمیں اپنا کیس پیش کر سکے۔ اور اب یہ مناسب وقت ہے کہ پاکستان اس پر عمل کرے۔

پیر، 24 جنوری 2022

About خاکسار

Check Also

برطانیہ، فرانس اور جرمنی سے نمٹنا باقی ہے، جنرل قاآنی

"وعدہ صادق آپریشن” میں ایرانی حملوں کو روکنے کی کوشش کرنے پر القدس فورس کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے