Breaking News
Home / اخبار / دوسری عالمی جنگ میں تباہی کے بعد جاپان دوبارہ اپنی فوجی صلاحیت میں غیر معمولی اضافہ کیوں چاہتا ہے؟

دوسری عالمی جنگ میں تباہی کے بعد جاپان دوبارہ اپنی فوجی صلاحیت میں غیر معمولی اضافہ کیوں چاہتا ہے؟

دوسری عالمی جنگ کے بعد جنگ مخالف آئین اپنانے کے بعد سے یہ جاپان کی سکیورٹی حکمت عملی میں سب سے بڑی تبدیلی ہے۔
وزیر اعظم فومیو کشیدا کی حکومت نے جمعے کو اعلان کیا کہ ان کا ملک اگلے پانچ سال میں اپنے فوجی اخراجات کو دوگنا کر دے گا، دشمن کے فوجی اڈوں پر حملہ کرنے کے لیے ضروری دفاعی سامان سے خود کو لیس کرے گا اور سائبر جنگ کے لیے اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرے گا۔

ان اقدامات کی وضاحت کے لیے جو جواز پیش کیے گئے، ان میں چین اور شمالی کوریا کی جانب سے لاحق خطرے کا حوالہ دیا گیا۔

فومیو کشیدا نے کہا کہ ’بدقسمتی سے، ہمارے ملک کے آس پاس ایسے ممالک ہیں جو ایٹمی صلاحیت میں اضافہ، تیزی سے فوجی طاقت جمع کرنے اور یکطرفہ طور پر طاقت کے ذریعے جمود کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

جاپانی وزیراعظم نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کے ملک کے دفاعی بجٹ کو سنہ 2027 تک جی ڈی پی کا دو فیصد تک بڑھا دیا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ ’اگلے پانچ سال میں، اپنی دفاعی صلاحیتوں کو بنیادی طور پر مضبوط کرنے کے لیے ہم 43 ٹریلین ین (314 ارب امریکی ڈالر) کے دفاعی ترقیاتی پروگرام پر عمل درآمد کریں گے۔‘

یہ رقم چلی جیسے ملک کے سالانہ جی ڈی پی کے برابر ہے۔

اس کے علاوہ ٹوکیو طویل فاصلے تک مار کرنے والے امریکی میزائل بھی حاصل کرے گا۔

جاپانی کابینہ کی طرف سے منظور شدہ قومی سلامتی کی حکمت عملی کی دستاویز میں چین کو ’جاپان میں امن اور استحکام کو یقینی بنانے کے لیے سب سے بڑا سٹریٹجک چیلنج قرار دیا گیا ہے۔‘

متن میں کہا گیا ہے کہ بیجنگ نے تائیوان پر کنٹرول قائم کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کو مسترد نہیں کیا۔

جاپان میں چینی سفارت خانے نے اس بیان کے بعد ٹوکیو پر اپنی فوجی سرگرمیوں کے بارے میں جھوٹے دعوے کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

سنہ 2013 میں منظور شدہ قومی سلامتی کی ایک دستاویز میں چین اور روس کو جاپان کے سٹریٹجک شراکت دار قرار دیا گیا تھا تاہم اس بار بیجنگ پر الزامات کے علاوہ ماسکو کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یوکرین پر روسی حملہ ’ان قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے جو طاقت کے استعمال سے روکتے ہیں۔‘

جاپان میں شمالی کوریا کی میزائل صلاحیت کے بارے میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔

پیانگ یانگ نے پچھلے تین ماہ میں 50 سے زیادہ میزائل داغے ہیں، جن میں اکتوبر میں جاپان پر ایک بیلسٹک میزائل بھی شامل ہے، جو کہ پانچ سال میں پہلی بار ایسا ہوا۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد سے جاپان کی فوجی صلاحیتوں کو جان بوجھ کر محدود رکھا گیا۔

اس ملک کا آئین جسے 1947 میں نافذ کیا گیا، اس کے آرٹیکل 9 میں کہا گیا کہ ’جاپانی عوام جنگ اور بین الاقوامی تنازعات کو حل کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کو قوم کے خود مختار حق کے طور پر ہمیشہ کے لیے ترک کرتے ہیں۔‘

اس سلسلے میں ایک بڑی تبدیلی سنہ 2014 میں اس وقت ہوئی جب شنزو آبے کی حکومت نے ملک کے دفاع سے متعلق آئینی اصول کی از سر نو تشریح کو فروغ دیا۔

آبے کی کابینہ نے آرٹیکل 9 کی دوبارہ تشریح کی منظوری دی جس میں کہا گیا کہ جاپانی سیلف ڈیفنس فورسز – اگر جاپان کی سلامتی اور بقا کے لیے ضروری ہو تو طاقت کا استعمال کر سکتی ہیں۔

کونسل آن فارن ریلیشنز (واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک) میں ایشیا پیسیفک سٹڈیز کی سینیئر محقق شیلا اسمتھ نے اس سال جولائی میں بی بی سی منڈو کو وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’ بہت احتیاط سے یہ ترمیم کی گئی تھی۔‘

پھر سنہ 2015 میں، اس دوبارہ تشریح کی بنیاد پر ایک نیا قانون تیار کیا گیا۔

اس طرح سیلف ڈیفنس فورسز نے یہ صلاحیت حاصل کر لی کہ اگر جاپان کی سلامتی کے لیے ضروری ہو تو دوسرے ممالک کی حمایت میں طاقت کا استعمال کر سکے۔

حکمران لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی)، جس سے آبے شنزو تعلق رکھتے تھے اور اب کشیدا کی قیادت میں ہے، برسوں سے آئینی متن میں کچھ تبدیلیاں کرنے کی تجویز دے رہی تھی تاکہ اسے علاقائی سلامتی کے زیادہ مشکل ماحول میں ڈھال لیا جائے۔

اگرچہ تفصیلات پر کوئی اتفاق رائے نہیں تاہم مختلف سروے یہ بتاتے ہیں کہ ملک کی رائے عامہ کی اکثریت اب ملک کی فوجی صلاحیتوں میں کسی نہ کسی طرح کی توسیع کی حمایت کرتی ہے۔

About خاکسار

Check Also

برطانیہ، فرانس اور جرمنی سے نمٹنا باقی ہے، جنرل قاآنی

"وعدہ صادق آپریشن” میں ایرانی حملوں کو روکنے کی کوشش کرنے پر القدس فورس کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے