Breaking News
Home / اخبار / بغیر پرچی والے وزیر اعظم

بغیر پرچی والے وزیر اعظم

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے پیروکار ان کی ایک خاص خوبی پر جان نثار کرتے ہیں اور وہ خوبی یہ ہے کہ وہ بغیر پرچی کے تقریر کرتے ہیں تاہم وہ خود اور ان کے حمایتی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کے اکثر بیانات ایسے اللے تللے پر مشتمل ہوتے ہیں کہ پاکستان کی نہ صرف دنیا میں بلکہ اپنی ہی عوام میں بے عزتی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی تقاریر پر تنازعات کا سلسلہ ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا نظر آ رہا۔ ابھی ان کے اکتوبر میں دیے گئے متنازع بیان پر ہونے والی تنقید کی بازگشت ختم ہوئی ہی تھی کہ اتوار کے دن اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم کے غیر معمولی اجلاس سے خطاب کے دوران وزیر اعظم عمران خان کی تقریر کا ایک اور اقتباس سوشل میڈیا پر زیر بحث اور زیر تنقید آ گیا۔یہ بیان تھا افغانستان میں خواتین کی تعلیم سے متلعق بین الاقوامی برادری کے تحفظات کے بارے میں جس میں وزیر اعظم عمران خان نے مشورہ دیا کہ پشتون کلچر میں دیہاتی اور شہری علاقوں کے فرق اور بچیوں کی تعلیم سے جڑی حساسیت کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ اس بیان پر افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بحث ہوئی اور سوشل میڈیا صارفین دو واضح حصوں میں بٹے نظر آئے۔

عمران خان فرماتے ہیں کہ افغان معیشت کا 75 فیصد انحصار بیرونی امداد پر تھا۔ کیا یہ بات امریکہ اور نیٹو کو قابض افواج قرار دینے والے طالبان کو معلوم نہیں تھی۔ تادم تحریر دنیا بھر میں سوائے پاکستان کے کوئی کابل انتظامیہ کے بارے میں گرم جوش نہیں۔ روس اور چین سے امید بندھی تھی، وہاں سے بھی تانگہ خالی آ گیا۔ دنیا افغانستان میں انسانی حقوق پر سوال اٹھاتی ہے تو عمران خان فرماتے ہیں کہ انسانی حقوق اور عورتوں کے مقام کے بارے میں ہر قوم کی اپنی روایات ہیں۔ عمران خان تو خیر انسانی حقوق کے یونیورسل معیارات سے کیا واقف ہوں گے، انہیں یہ جاننا چاہئے کہ اگر اقوام عالم ان بنیادی تصورات پر متفق نہیں تو انسانی المیہ، غذائی بحران اور انسانی ہمدردی کے تصورات پر اتفاق رائے کا مطالبہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے ماضی کی کئی بیانات نے ایسے ہی تنازعوں اور غلط فہمیوں کو جنم دیا ہے جن میں رواں سال ہی کئی مختلف بیانات شامل ہیں۔ اکتوبر میں وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے مڈل ایسٹ آئی کو انٹرویو کے دوران کالعدم تحریک طالبان کو پشتون تحریک کہنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے وزیراعظم پاکستان سے ‘پشتونوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے’ پر ان سے معافی کا مطالبہ بھی کیا۔ اس سے پچھلے ہی ماہ ستمبر میں امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم نے جب طالبان کے حقانی نیٹ ورک کے ارکان کو ‘افغانستان کا ایک پشتون قبیلہ’ قرار دیا تو اس پر بحث ہوئی کہ کیا حقانی کوئی قبیلہ ہے بھی یا نہیں۔ اپریل میں وزیر اعظم نے ایک لائیو ٹیلی وژن پروگرام میں ملک میں ریپ کے واقعات کی ایک وجہ ‘فحاشی’ کو قرار دیا تو یہ بیان بھی تنقید اور وضاحتی بیانات کے سلسلے سے گزرا۔

یاد رہے کہ آو آئی سی کے اجلاس سے قبل ایک ب یین الاقوامی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے  عمران خان نے خود کو دنیا کا مسیحا قرار دینے اور سب سے بڑا مصلح سمجھنے کی بدترین غلط فہمی کا المناک مظاہرہ کیا تھا۔ انہوں نے صرف قومی سیاسی لیڈروں کی ’بدعنوانی‘ کے تذکرے سے اپنی پاک بازی کا ثبوت دینے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ اعلان بھی کیا ہے کہ’ نائن الیون میں کوئی افغان شہری ملوث نہیں تھا۔ افغانستان پرامریکہ کی مسلط کردہ جنگ ایک جنونی عمل تھا۔ امریکہ نے نام نہاد جنگ کے نام پر بیس سال تک افغانستان پر قبضہ کئے رکھا۔ سمجھ نہیں آیا امریکی افغانستان میں کیا اہداف حاصل کرنا چاہتے تھے‘۔ امریکی حکمت عملی کے بارے میں ایسے دھماکہ خیز خیالات کا اظہار کرنے کے بعد جب عمران خان یہ کہتے ہیں کہ ’ افغانستان کے ایک کروڑ 40 لاکھ عوام امداد کے منتظر ہیں اور امریکہ کو اب افغان عوام کا ساتھ چھوڑنا نہیں چاہئے‘۔ سوچنا چاہئے کہ اپنی طویل جنگ کے بارے میں پاکستانی لیڈر کی چارج شیٹ سننے کے بعد امریکی قیادت کیوں کر اس بیان کے انسانی پہلو پر متوازن رویہ اختیار کرسکے گی۔

وزیر اعظم عمران خان کے بیان پر جہاں سوشل میڈیا پر عام صارفین کی جانب سے ردعمل سامنے آیا وہیں افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے اپنے ٹوئٹر اکاوئنٹ کے ذریعے بھی رد عمل سامنے آیا ہے۔ سابق افغان صدر نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ’یہ بیان افغانستان کے شہریوں کے درمیان تفرقے کا بیج بونے کی کوشش اور ان کی توہین ہے۔’ سابق افغان صدر حامد کرزئی کا کہنا تھا وہ پاکستان کی حکومت سے درخواست کریں گے کہ وہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور بین الاقوامی فورمز پر افغانستان کی ترجمانی سے گریز کریں اور صرف دونوں ممالک کے درمیان مثبت تعلقات کی بہتری پر توجہ دیں۔ حامد کرزئی نے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی تقریر کے اس حصے پر بھی اعتراض کیا جس میں دعوی کیا گیا تھا کہ افغانستان میں داعش سرگرم اور پاکستان کے لئے خطرہ ہے۔ بچیوں کی تعلیم کی آگاہی پھیلانے والی عالمی کارکن اور نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے والد ضیا الدین یوسفزئی نے بھی وزیر اعظم عمران خان کے بیان پر ردعمل میں اسے انتہائی مایوس کن قرار دیا۔

مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے ہینڈسم وزیر اعظم کو خود پتا نہیں ہوتا کہ وہ کیا بات کر رہے ہیں، کس فورم پر کر رہے ہیں اور ان کی بات کے اثرات کہاں تک جائیں گے۔ یہ نہ تو پہلی مرتبہ ہوا ہے اور نہ ہی یہ سلسلہ رکے گا۔ بغیر پرچی کے تقریروں والے وزیر اعظم کو اتنی رعایت دینا تو بنتی ہے۔

پیر، 20 دسمبر 2021

About خاکسار

Check Also

حماس نے صہیونی خفیہ ادارے تک کیسے رسائی حاصل کی، صہیونی اخبار کا تہلکہ خیز انکشاف

صہیونی اخبار کے مطابق حماس صہیونی خفیہ اہلکاروں اور جاسوسوں کے ٹیلی فون ٹیپ کرتی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے