Breaking News
Home / اخبار / بلڈوزر راج: بھارت کا اپنی مسلم اقلیتوں کےخلاف وحشیانہ طاقت کامظاہرہ

بلڈوزر راج: بھارت کا اپنی مسلم اقلیتوں کےخلاف وحشیانہ طاقت کامظاہرہ

ہندوستان کی حکمران جماعت، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نےپیغمبر اسلام (ص) کی توہین پر مبنی تبصروں کے نتیجے میں ،مسلم ممالک کے ساتھ ایک بڑی سفارتی ہلچل  کے بعد، اپنے ترجمانوں کو فوری طور پر معطل کر دیا۔

یہ ان نادر واقعات میں سے ایک تھا جس میں ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر کے خلاف تعزیری کارروائی کی گئی تھی۔ بہر حال، وزیر اعظم نریندر مودی کے دور حکومت میں روز مرہ کی عوامی گفتگو میں مسلم مخالف تعصب کو نہ صرف معمول بنایا گیا ہے، بلکہ یہ حکمراں جماعت کے لیے متحرک ہونے کا بنیادی محور بھی بن گیا ہے۔

اس کے باوجود، جب کہ حکومت نے دنیا کو ایک پشیمان چہرہ دکھایا، مسلمانوں کے بارے میں ان کی داخلی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ بی جے پی کے دو ارکان کے تضحیک آمیز تبصروں پر پچھلے ہفتے کئی شہروں میں پھوٹ پڑنے والے مظاہروں کی وحشیانہ روک تھام سے یہ بہت کچھ واضح تھا۔

مسلم مظاہرین پر پولیس کے جبر کے سب سے خوفناک مناظر ریاست اتر پردیش سے آئے۔ مظاہروں کو منظم کرنے کا الزام لگانے والوں کے گھروں کو مسمار کرنے کے لیے بلڈوزر کا استعمال کیا گیا۔ اس میں ایک مسلم کارکن آفرین فاطمہ کا گھر بھی شامل تھا جو شہریت ترمیمی قانون (CAA) کے خلاف مظاہروں کے دوران نمایاں ہو کر سامنے آئی تھیں۔

یہ پہلا موقع نہیں تھا جب اتر پردیش میں مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کرنے کے لیے بلڈوزر کا استعمال کیا گیا ہو، جہاں فوری سزا کا یہ ماورائے آئین طریقہ عام ہو چکا ہے۔ برسراقتدار وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اس سال کے شروع میں اپنی دوبارہ منتخب ہونے کی مہم میں بلڈوزر کو مرکزی علامت بنایا۔

مسلم سول سوسائٹی کے خلاف کثرت سے استعمال کیے جانے والے تمام کریک ڈاؤن طریقوں میں، بلڈوزر کے ذریعے مسمار کرنا شاید سب سے زیادہ سنگین ہے۔ اس میں کم سے کم قانونی عمل کا بھی دکھاوا بھی نہیں کیا جاتا۔ بعض اوقات، انہدام کے نوٹس ایکٹ سے صرف ایک دن پہلے دیے جاتے ہیں، جس سے جواب دہندہ کو قانونی چارہ جوئی کا موقع نہیں ملتا۔ ہندوستانی آئین کے تحت کوئی قانون یا ضابطہ فوجداری موجود نہیں ہے جو، مشتبہ ہونا تو ایک  طرف رہا، کسی مجرم کے گھر کو بھی مسمار کرنے کی اجازت دیتا ہو۔

لیکن گھروں کو مسمار کرنے کی لاقانونیت بھی اس کا جامع نکتہ ہے۔ مسلمانوں کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ آئین یا عدلیہ ان کے بچاؤ میں نہیں آئے گی چاہے ریاست ان کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرے۔ یہ ہندوستانی مسلمانوں کی ڈی فیکٹو ’نیم شہریت‘ میں تحلیل کا ایک اور سنگ میل ہے۔

یہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ صرف دو سال پہلے، ہندوستان نے CAA مخالف مظاہروں کے دوران آزادی کے بعد مسلمانوں کی سب سے بڑی ہلچل دیکھی۔ سڑکوں پر ہونے والے ان مظاہروں کے پیچھے ظاہری وجہ شہریت کے قانون کا پاس ہونا تھا جس کے بارےمسلمانوں کو خدشہ تھا کہ یہ ان کی قانونی شہریت  کو للکارنے کا  نوکر شاہانہ حربہ ہے۔ لیکن مظاہروں کی گہری جڑیں ان کے موجودہ، تسلیم شدہ شہریت کے حقوق کو کمزور کر دینے کی تشویش سے جڑی ہوئی تھیں، کہ ان کے شہری اور سیاسی حقوق کو بتدریج ختم کیا جا رہا ہے۔

ان مظاہروں کے منتظمین کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد یہ بات کافی حد تک واضح ہوگئی کہ مظاہرین اپنے اندازوں میں درست تھے۔ ان پر دہشت گردی کے الزامات محض حکومت کے خلاف پرامن طریقے سے بات کرنے پر لگائے گئے۔ ان میں سے کئی اب بھی جیل میں ہیں۔

سی اے اے مظاہروں کے منتظمین کے نیٹ ورک کو کچلنے سے مسلمانوں پر ریاستی جبر میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ سی اے اے کے مظاہروں کے بعد سے، مسلمان اس تحفظ پر شکوک و شبہات کا شکار ہو رہے ہیں جو انہیں آزادی اظہار اور اجتماع کے لیے فراہم کردہ قوانین کے ذریعے فراہم کیے گئے ہیں۔

ممتاز ہندوستانی "سچائی کی جانچ  کرنے والے”، آلٹ نیوز کے محمد زبیر، جو اکثر مسلم مخالف نفرت انگیز تقاریر کی ڈاکومنٹیشن  کرتے ہیں،کے خلاف متعدد مقدمات درج ہیں۔ وہ پہلے صحافی تھے جنہوں نے بدنام زمانہ نیوز کلپ شیئر کی جس میں بی جے پی کے ایک ترجمان نے پیغمبر اسلام کے بارے میں توہین آمیز تبصرہ کیا تھا۔ ان دھندلی ’سرخ لکیروں‘ نے مسلمانوں کے سیاسی اظہار پر خوفناک اثر ڈالا ہے۔

اتر پردیش میں، مسلمانوں میں ایک بڑھتا ہوا ،عملی احساس پیدا ہو رہا تھا کہ انہیں حکومت کے ساتھ ایک عارضی معاہدہ(modus vivendi) قائم کرنا چاہیے، اگر چندہی لوگوں نے اس میں ووٹ دیا ہو۔

جب ریاست نے مساجد سمیت مذہبی مقامات سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کا حکم دیا تو کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ اس کے بجائے، مسلمانوں نے اذان کے لیے استعمال ہونے والے لاؤڈ اسپیکرز کو ہٹانے اور مسجد کے احاطے میں نماز کو محدود کرنے میں مقامی انتظامیہ کے ساتھ تعاون کیا

         تاہم، یہ عملی نقطہ نظر بڑھتی ہوئی بے چینی کے ساتھ ساتھ موجود ہے۔ اپنی ٹیلی ویژن اسکرینوں پر مسلمانوں کو صرف معمول کی مسلم مخالف گفتگو کی شدت نظر آتی ہے۔ زیادہ تر نیوز چینلز روزانہ مباحثے منعقد کرتے ہیں جس میں ایک ‘ہندو فریق’ کو ‘مسلم فریق’ کے خلاف کھڑا کیا جاتا ہے، جس میں اینکر – لوگوں کے مبینہ ترجمان کے طور پر – ‘مسلم فریق’ کے خلاف کھڑا ہوتا ہے۔ ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے حال ہی میں اس قسم کی خبروں کی بحث کی شکل کا موازنہ بدنام زمانہ نسل کشی والے ریڈیو چینل ریڈیو روانڈا سے کیا ہے۔

دریں اثنا، ہندو دائیں بازو کے لاقانوینت پسند تشدد اور فرقہ وارانہ تحریک نے خود کو انتخابی چکروں سے الگ کر لیا ہے اور اب  وہ ایک مستقل رجحان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ حال ہی میں، نئی دہلی کے جہانگیر پوری میں تشدد پھوٹ پڑا، جب دائیں بازو کے ہندو گروپوں نے ایک مسلم علاقے میں جارحانہ مارچ کرتے ہوئے مسلم مخالف نعرے لگائے۔ اس کے نتیجے میں، ریاست نے بدامنی کی اجتماعی سزا کے طور پر ایک بار پھر جہانگیر پوری میں کئی مکانات مسمار کر دیے – جن میں سے اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

سیاسی گفتگو بھی ایک مبالغہ آمیزی پر مبنی( soap opera )ڈرامے سے مشابہت رکھتی ہے جس میں مسلمان  ہمیشہ ایک ولن کے طور پر ہوتا ہے۔ پیغمبر اسلام پر زبانی حملےکے شہ سرخیوں میں آنے سے پہلے، ملک کا سب سے بڑا سیاسی مسئلہ یہ تھا کہ کیا وارانسی شہر کی ڈیڑھ ہزار سال پرانی مسجد کو درحقیقت ہندوؤں کو ‘واپس’ کر دیا جائے ؟جیسا کہ یہ الزام لگایا گیا تھاکہ وہاں کبھی ہندو مندر کھڑا تھا جہاں اس مسجد کو تعمیر کیا گیا تھا۔

عام مسلمان ان اشتعال انگیزیوں کے سامنے زیادہ تر خاموش رہے: ٹیلی ویژن پر نفرت انگیز تقریر، دائیں بازو کے ہندو مظاہرے اور تشدد، اور وارانسی مسجد کی نوعیت کو تبدیل کرنے کی کوششیں۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بیانات نے مسلمانوں کے صبر کا بند توڑ دیا۔ یہ احساس تھا کہ یہ ان کی شناخت پر حملے کی خاص شکل ہے جسے وہ برداشت نہیں کریں گے۔

بی جے پی نے مسلمانوں کو بلڈوزر سے جواب دیا  – اورغیرمبہم پیغام، جس کی توثیق بلڈوزرسے کی جاتی ہے، کا دعویٰ یہ ہے کہ حکمراں بی جے پی مسلمانوں کو ایسے شہری ہی نہیں سمجھتی کہ جن سے مزاکرات کیے جا سکتے ہوں۔بلکہ وہ انہیں ایسا گروہ سمجھتی ہے  کہ جہاں اور جب ضروری تصور کیا جائے گا ، وحشیانہ طاقت کے زریعے ان پر حکومت کی جائیگی اور  اسی وحشت  اور درندگی کے ساتھ انہیں قابو میں  رکھا جائے گا۔

About خاکسار

Check Also

صہیونیت مخالف طلباء تحریک، نیویارک یونیورسٹی میں اساتذہ کی ہڑتال

نیویارک یونیورسٹی کے 120 سے زائد اساتذہ نے پولیس کے ہاتھوں طلباء پر تشدد کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے