Breaking News
Home / اخبار / گوادر ریلی: ریاست کو جاگ جانا چاہیے

گوادر ریلی: ریاست کو جاگ جانا چاہیے

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں ’حق دو تحریک‘ کے قائد مولانا ہدایت الرحمان کے خلاف مقدمے کے بعد جمعے کو ایک احتجاجی ریلی میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی ہے۔بلوچستان کے سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار انور ساجدی کا کہنا تھا کہ ’لوگوں کی بہت بڑی تعداد میں شرکت کے حوالے سے اسے اگر گوادر میں سمندر کے ساتھ انسانوں کے سمندر سے تشیبہ دی جائے تو بے جانہ ہوگا۔ خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد نہ صرف اس ریلی میں شرکت کے لیے نکلی بلکہ جب دھرنے پر بیٹھے مرد ریلی کے لیے روانہ ہوئے تو ان کی جگہ خالی نہیں ہوئی بلکہ خواتین نے اسے سنبھال لیا۔ اطلاعات کے مطابق شہر میں پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے اور گذشتہ شب یہ خدشہ پایا جا رہا تھا کہ مولانا ہدایت الرحمان کو گرفتار کر لیا جائے گا مگر تاحال یہ نہیں ہوا۔ خیال رہے کہ گوادر میں یہ دھرنا گذشتہ 26 روز سے جاری ہے جو 15 نومبر کو پورٹ روڈ سے شروع ہوا اور ان کے مطالبات میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور غیر قانونی فشنگ کی روک تھام شامل ہیں۔

گوادر تحریک کے شرکاء سمندر میں غیر قانونی ٹرالنگ روکنے، مکران میں چیک پوسٹوں کے خاتمے اور گوادر کو پینے کے پانی کی فراہمی سمیت دیگر مطالبات کے حق میں احتجاج کر رہے ہیں۔ لوگوں کی شرکت کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لوگ نہ صرف حکومت اور اس کی پالیسیوں سے ناراض ہیں بلکہ سیاسی جماعتوں سے بھی ناراض دکھائی دیتے ہیں۔ مبصرین کے مطابق جہاں اس تحریک میں لوگوں کی شرکت زیادہ ہے وہیں اس کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ خواتین بھی شرکت کے حوالے سے مردوں سے پیچھے نہیں۔ گوادر کے سینیئر صحافی بہرام بلوچ کا کہنا ہے کہ رات کو بھی اپنے گھروں سے نکل کرگوادر کی خواتین نے نہ صرف شہر بلکہ بلوچستان بھر میں تاریخ رقم کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی بھاری نفری جب دھرنے کے قریب آئی تو دھرنے کے شرکا کی تعداد میں کوئی کمی آنے کی بجائے کئی گنا اضافہ ہوا۔

 یہ اس تحریک کی چوتھی ریلی ہے۔ اس سے پہلے کفن پوش ریلی، بچوں کی ریلی اور خواتین کی بھی ریلیاں نکالی گئی ہیں۔ یہ ریلی جاوید کمپلیکس سے شروع ہوئی اور گوادر میرین ڈرائیو سے گزرتی ہوئی شہید لالا حمید چوک پر دھرنے کی مقام پر واپس دھرنے میں تبدیل ہوئی۔ انسانی حقوق کے دن یہ پورے ملک میں ہونے والی سب سے بڑی ریلی ہونے کے باوجود مین اسٹریم میڈیا میں نہیں چلائی جاسکی۔ گوادر عوامی تحریک “بلوچستان کو حق دو تحریک” کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ریاست سے کہا کہ یہ انسانوں کا سمندر آج اپنے بنیادی حقوق مانگ رہا ہے، یہ لوگ عزت چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں روزگار کمانے کا بنیادی حق دیا جائے۔ انھوں نے کہا “ہماری مائیں اور بہنیں آج ریاستی مظالم کے خلاف نکلی ہیں، ہمارے مرد پچھلے 26 دنوں سے کھلے آسمان تلے دھرنے پر بیھٹے ہیں۔ کیا ہم دہشت گرد ہیں؟”۔

شمس الدین بلوچ ایک ماہی گیر ہیں وہ بھی مجبور ہوکر احتجاج کرنے نکلے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ظلم کب تک چلے گا؟ کب تک لوگوں کو اٹھاکر لاپتہ کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا؟ سمندری ڈاکوؤں کے خلاف وہ احتجاج کر رہے ہیں۔ اسی طرح احتجاجی ریلی میں شرکت کرنے کے لیے عبدلغنی زامرانی ضلع کیچ بلیدہ سے آئے ہوئے ہیں۔ وہ بھی اسی لیے اس احتجاجی ریلی میں شرکت کرنے کے لیے آئے ہیں کیونکہ وہ اپنے لیے آئینی و قانونی انسانی حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں “ہم بھی انسان ہیں۔ آج یہ ایک ریلی نہیں تھی بلکہ نام نہاد ترقی کے خلاف ایک ریفرنڈم تھا جس ترقی کے آڑ میں ہم پر کتنا ظلم کیا جارہا ہے۔ ہمیں بنیادی انسانی حقوق چاہیئں” وہ کہتے ہیں کہ ریاست کو اس یہ پیغام ملنا چاہیے کہ وہ مزید انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرے ورنہ یہ ریفرنڈم کسی اور ریفرنڈم میں نہ بدل جائے۔

گودار میں جاری عوامی تحریک کا دھرنہ اب بھی جاری ہے بلکہ اب یہ پورے بلوچستان میں پھیلتا جارہا ہے۔ ریاستی میڈیا اب بھی اس سے نظر انداز کیے ہوئے ہے۔حکومت بلوچستان مطالبات کو آئینی و قانونی تو قرار دیتی ہے لیکن اب تک عمل در آمد نہیں کرسکی اور بجائے عمل در آمد کرنے کے فورسز اور پانچ ہزار پانچ سو پولیس گوادر میں لاکر عوام کو اشتعال دینا چاہتی ہے جو یقیناً اس پرامن تحریک کو مشتعل کرنے کے مترادف ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست اس حوالے سے کبوتر کی طرح بند آنکھیں کھولے اور مظاہرین کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے۔ اگر عوام کا لاوا پھٹ پڑا تو پھر صورتحال نہ تو ریاست کے ہاتھ میں رہے گی اور نہ ہی ریاستی اداروں کے ہاتھ میں۔ اس سے قبل پاکستان 1971 میں یہ سب کچھ بھگت چکا ہے۔ اگر تاریخ سے سبق نہ سیکھا گیاتو پاکستان کو خدانخواستہ ایک اور سقوط کا سامنا ہوسکتا ہے۔

اتوار، 12 دسمبر 2021

About خاکسار

Check Also

صدر رئیسی قم پہنچ گئے، عوام کا شاندار استقبال

ایرانی صدر رئیسی ایران کے مختلف صوبوں کے دورے کے دوسرے مرحلے میں کچھ دیر …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے