Breaking News
Home / اخبار / کیا مذہبی منافرت بھارت کو بھیڑ کی حکمرانی کی طرف دھکیل رہی ہے؟

کیا مذہبی منافرت بھارت کو بھیڑ کی حکمرانی کی طرف دھکیل رہی ہے؟

کرسمس ڈے پر جنگل بیلز کی آواز کے ساتھ ہی ستم ظریفی بھی باآواز بلند بول رہی تھی۔ بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی نے کرسمس ڈے پر ایک سیاستدان کی طرح بیان دیتے ہوئے حضرت عیسیٰی علیہ السلام نے لوگوں میں مذہبی ہم آہنگی کی درخواست کرتے ہوئے تمام مذاہب کے احترام پر زور دیا۔ تاہم وزیر اعظم کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے بنیادی حامی یعنی دائیں بازو کے انتہا پسند ہندو گروہوں نے عسائیوں کے اس مقدس دن کو بھی پامال کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ ملک کے جنوبی حصے اور آگرہ کے شہر میں ہندو انتہا پسند گلیوں میں امڈ آئے اور کرسمس کی تقریبات کو تہس نہس کر دیا۔ یہ انتہا پسند ہندو چرچوں میں عبادت گاہوں میں داخل ہوگئے اور بہ زور قوت عبادتی تقریبات کو بند کروا دیا۔ بعض مقامات پر انتہاپسند جتھوں نے نہ صرف پاسٹرز پر تشدد کیا بلکہ عبادت کے لیے آنے والے افراد کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔ بھارت کے ایک قصبے میں انتہاپسند ہندوؤں نے سانتا کلاز کے خلاف مظاہرہ کیا اور ان کے خلاف نعرے بازی بھی کی اور بعد میں سانتا کلاز کے پتلے کو آگ لگا کر خاکستر کر دیا۔

 ریاست کرناٹکا کے ضلع منڈیا میں کرسمس کی تقریبات جاری تھیں کہ اسی دوران ہندو انتہا پسند گروپ کے کارندوں نے سکول پر دھاوا بول دیا۔ سکول انتظامیہ کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں اور کرسمس پارٹی کو بزور طاقت رکوا دیا۔ سکول انتظامیہ کے مطابق کرسمس کی تقریب طالب علموں کی جانب سے اپنے ساتھیوں کے لیے کیا گیا تھا، جسے زبردستی بند کروا کے بچوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔اسی طرح  بھارتی ریاست کرناٹکا میں ہندو انتہا پسندوں نے سکول میں ہونے والی کرسمس کی تقریب کو بزور طاقت رکوا دیا۔امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز سامنے کے مطابق ہندو انتہا پسند مسیحی کمیونٹی کو زبردستی ہندو مذہب اختیار کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ ہندو انتہا پسند عیسائیوں کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچاتے اور ان کو عبادت سے روکتے ہیں۔  نیو یارک ٹائمز کے مطابق موت کے خوف سے عیسائیوں نے خود کو ہندو ظاہر کرنا شروع کر دیا۔
کرسمس ڈے پر بھارت میں منافرت کے جو مناظر دیکھنے میں آئے وہ انتہائی افسوس ناک تھے مگر حیران کن ہرگز نہیں تھے ۔ مودی کی بی جے پی ہندو اکثریت کے اقتدار پر یقین رکھتی ہے اور بھارت کو صرف اور صرف ہندو قوم میں تبدیل کرنا چاہتی ہے جہاں صرف اور صرف ہندوہی طاقت اور اختیار رکھتے ہوں۔ نریندرا مودی جب سے اقتدار میں آئے ہیں یعنی 2014 اور دوبارہ 2019 میں تب سے ان کی جماعت کے عہدیدار ملک بھر میں ہندوؤں کو تشدد پر ابھار رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بی جے پی کے بہت سارے عہدیدار آر ایس ایس کے ساتھ گٹھ جوڑ بھی کر رہے ہیں اور مزید برآں آر ایس ایس کو بی جے پی کا نظریاتی راہبر بھی سمجھا جاتا ہے  اس لیے اب آر ایس ایس زیادہ دلیر اور خوفناک ہوگئی ہے۔ ان ہندو انتہا پسندوں کو شہہ دینے والے درحقیقت دوہری زبان رکھنے والے بی جے پی کے رہنما ہی ہیں جو ریکارڈ کی درستی کے لیے وقتا فوقتا ثقافتی دوستی اور مذہبی ہم آہنگی کے بھاشن دیتے ہیں مگر حقیقت میں اس کے برعکس ان انتہا پسندوں کو اکساتے ہیں۔

تاہم یہاں مسئلہ محض انتہا پسند ہندوؤں تک محدود نہیں ہے بلکہ ایک طرف بھارتی آئین کا آرٹیکل 25 آزادی رائے‘ اور مذہبی عقائد کے آزادانہ پرچار کا راگ الاپتا ہے تو دوسری طرف آرٹیکل48 گائے ذبح کرنے سے روکتا ہے جو اسلامی شعائر کی پامالی کے مترادف ہے‘ اس کے ساتھ ساتھ اگر ہم کوٹہ سسٹم کو دیکھیں تو زندگی کے ہر پہلو میں ہندومذہب کو ماننے والوں کو ترجیح دی جاتی ہے اور غیر ہندو قوموں کو پولیس‘ سول سروسز‘ فوج‘ تعلیم اور کھیل کے میدان میں بہت کم مواقع دیئے جاتے ہیں۔  مسلمان مخالف دشمنی کا سب سے بڑا مظہر بھارتی وزیراعظم مودی کی حالیہ الیکشن مہم تھی جس میں انہوں نے مذہب کے نام پرلوگوں کو اکسایا اور مسلم دشمنی کی بنیاد پر اقتدار میں آئے۔ مودی کے دور میں ہی بھارت کے اندر دھرم جگران سمیتی نے گھر واپسی مہم کا آغاز کیا جس کے تحت 2021 تک تمام غیر ہندو اقوام کو ہندو مذہب قبول کروانا ہے۔ بھارتی حکومت کی اس تمام تر صورتِ حال پر خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ دھرم جگران سمیتی بھی آر ایس ایس کا ایک نیاروپ ہے اور یہ کہ اس کے پیچھے نہ صرف بی جے پی کے رہنماؤں کا ہاتھ ہے بلکہ وہ اس کو ریاستی تحفظ بھی فراہم کررہے ہیں۔

یاد رہے کہ اترکھنڈ کے علاقے ہردیوار میں اس ہفتے کے اوائل میں ہندو مذہبی رہنماؤں کی ایک مذہبی تقریب ’دھرم سنسد کی ویڈیوز وائرل ہوئی تھیں جن میں وہ اشتعال انگیز تقاریر کر رہے تھے۔ ویڈیوز کے سامنے آنے کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔ یہ تقریب 17 سے 20 دسمبر کے درمیان ہندوؤں کے مقدس شہر ہری دوار میں ہوئی تھی۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں 2014 کے بعد سے اضافہ ہوا ہے، جب بی جے پی پہلی بار اقتدار میں آئی تھی۔ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر یا تشدد کی ویڈیوز باقاعدگی سے وائرل ہوتی رہتی ہیں۔ ناقدین الزام لگاتے ہیں کہ ایسا برسرِ اقتدار جماعت کے رہنماؤں کی اس حمایت کی وجہ سے ہے جو کھلے عام اور خاموش دونوں طریقوں سے اس طرح کے مجرموں کو حاصل ہے۔ اس تقریب میں گیری کو یہ کہتے ہوئے صاف دیکھا اور سنا جا سکتا ہے کہ ’میانمار کی طرح، ہماری پولیس، ہمارے سیاستدانوں، ہماری فوج اور ہر ہندو کو ہتھیار اٹھانے چاہیئں اور صفائی ابھیان (کلین اپ) کرنا چاہیے۔ کوئی اور آپشن نہیں بچا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق امسال جولائی سے ستمبر تک تقریبا 300 چرچوں کو پورے ملک میں نشانہ بنایا گیا ہے۔ گائے جو ہندوؤں کے لیے مقدس جانور ہے وہ بھی اس عمل میں اولین ہے۔ 2019 کی انسانی حقوق کی رپورٹ کے مطابق قریبا 44 افراد کو صرف گائے ذبح کرنے کے شبہ میں ہجوم نے پرتشدد طریقے سے ہلاک کر ڈالا تھا۔ اسی طرح مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تاہم اس سارے عمل میں جو بات اہم ہے وہ ریاست کی جانب سے ان انتہا پسندوں کا تحفظ ہے کیونکہ ہردیوار میں پولیس نے چار دن کے اندر اندر ایف آئی آر رجسٹر کر لی تھی مگر ابھی تک کوئی گرفتاری نہیں ہوئی۔ اسی طرح دہلی کے نواح گروگرام کی بات کی جائے تو وہاں انتہا پسند ہندو مسلمانوں کو جمع کی نماز ادا نہیں کرنے دے رہے اور کئی مرتبہ ان کی جمعہ کی نماز کو تہس نہس کر دیا۔ درحقیقت گروگرام میں ان انتہا پسند ہندوؤں کو وہاں کے وزیر اعلٰی کی حمایت حاصل ہے جو کہتے ہیں کہ عوامی جگہوں پر عبادت پر پابندی ہونی چاہیے۔

ہندو انتہا پسند سجمھتے ہیں کہ وہ اپنے ملک میں اپنے مذہب کا دفاع کررہے ہیں اور یہ ان کا حق ہے کیونکہ بھارت میں 80 فیصد ہندو بستے ہیں اور ان کے مذہب کو خطرہ ہے ۔ تاہم ایک حالیہ سروے کے مطابق بھارت میں ہندو مذہب کو ہرگز خطرہ نہیں ہے اور تبدیلی مذہب کے اکا دکا واقعات ہی پیش آتے ہیں۔ تاہم حالیہ واقعات سے لگتا ہے کہ بھارت جمہوریت سے بھیڑ کی حکومت کی طرف چل پڑا ہے۔

منگل ، 28 دسمبر 2021

About خاکسار

Check Also

صہیونیت مخالف طلباء تحریک، نیویارک یونیورسٹی میں اساتذہ کی ہڑتال

نیویارک یونیورسٹی کے 120 سے زائد اساتذہ نے پولیس کے ہاتھوں طلباء پر تشدد کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے