Breaking News
Home / اخبار / پاک ایران تعلقات تناؤ کے پیچھے کون سے قوتیں کارفرما ہیں؟

پاک ایران تعلقات تناؤ کے پیچھے کون سے قوتیں کارفرما ہیں؟

منگل کی شب پاکستان کے اندر ایک ہدف پر ایران کا ’میزائل اور ڈرون‘ حملہ اس خطے اور دونوں ملکوں کے تعلقات میں بے چینی کا باعث بنا ہے۔جہاں ایک طرف پاکستان کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے اسے ’اشتعال انگیز کارروائی‘ قرار دیا جس نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو نقصان پہنچایا وہیں ان کے ایرانی منصب حسین امیر عبد اللہیان نے واضح کیا کہ ’ہم آپ کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کا احترام کرتے ہیں تاہم ہم اپنی قومی سلامتی پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔‘ایرانی وزیر خارجہ کے مطابق ایران نے پاکستان میں ’ایرانی دہشتگرد گروہ‘ جیش العدل کو نشانہ بنایا جبکہ پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا کہ اس سرحد پار کارروائی میں ’دو معصوم بچوں کی ہلاکت ہوئی۔‘

ماضی میں کیا ہوتا رہا ہے؟

ایران نے ماضی میں پنجگور اور کیچ کے مختلف علاقوں کو نشانہ بنایا لیکن انداز، شدت اور وقت بالکل مختلف تھے۔ بعض صورتوں میں تو میڈیا کو اس کی اطلاع بھی نہیں دی گئی۔ کیونکہ ایران کے خدشات جیش العدل اور جند اللہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ہیں جو ایران میں دہشت گردکارروائیوں میں ملوث رہے ہیں اور ایسا کئی مرتبہ ہوا ہے کہ ایرانی انقلابی سپاہ نے بلوچستان کے ان علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی ہے تاہم پاکستان کو اس پر کبھی اعتراض نہیں رہا۔

کیونکہ پاکستان اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ جنداللہ اور جیش العدل علاقائی توازن کے لیے خطرہ ہیں۔اسی طرح سیستان اور بلوچستان میں ایران مخالف گروہوں کے حملوں میں ایرانی فورسز کو بہت نقصان پہنچا جن میں بڑی تعداد میں ایرانی فوجی ہلاک یا زخمی ہوئے۔ 2008 کے دوران سیستان اور بلوچستان کے جنوب میں انھی حملوں میں سے ایک میں ایران کے طاقتور فوجی دستے پاسدارانِ انقلاب (آئی آر جی سی) کے ایک سینیئر کمانڈر کی ہلاکت ہوئی جس کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم جند اللہ نے قبول کی۔

جون 2007 میں صوبہ سیستان اور بلوچستان میں ایران پاکستان سرحد پر واقع سراوان پولیس سٹیشن میں متعدد ایرانی فوجیوں کو یرغمال بنایا گیا۔ ایرانی حکام نے پاکستان سے ’تعاون‘ کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اس کے مخالف گروہوں کی قیادت کو حوالے کیا جائے جنھوں نے اس کے بقول پاکستان میں پناہ لے رکھی ہے۔ یرغمال بنائے گئے ایرانی فوجیوں کے بارے میں بعد میں یہ اطلاع سامنے آئی تھی کہ انھیں ہلاک کر دیا گیا۔

  ایرانی حکام نے بعض معاملات میں کھل کر کہا کہ اگر پاکستان ایسی کارروائی کی صلاحیت نہیں رکھتا تو ایران خود ان کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے۔ ان تمام معاملات میں دونوں ممالک نے مشترکہ سرحدی کمیٹیوں کے قیام کی بات کی لیکن ان کی تفصیلات یا ان کی سرگرمیوں کے بارے میں کبھی کوئی سرکاری رپورٹ شائع نہیں کی گئی۔

ان مسائل کے باوجود ایران اور پاکستان ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔ ان میں بعض باتوں پر اختلاف رائے موجود ہے۔ مثلاً کابل یا اسلام آباد کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات جس کے باعث ایران سے پاکستان گیس کی فراہمی کے لیے ’امن پائپ لائن‘ تعطل کا شکار رہی۔

واضح رہے کہ دونوں ممالک کے مابین توانائی اور دیگر تجارتی شعبوں میں ایک بڑا تعاون دیکھنے میں ملتا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین اس وقت 2 ارب ڈالر سے زائد کی تجارت ہے جس کو گزشتہ برس ایران کے وزیرخارجہ امیر عبداللہ النہیان نے اپنے تین روزہ دورہ پاکستان کے دور 5 ارب یورو تک بڑھانے کا عندیہ دیا تھا۔ ایران اور سعودی عرب کے مابین تعلقات میں بہتری کے بعد دونوں ممالک کے مابین عرب دباؤ کی وجہ سے جو معمولی دوری تھی وہ بھی کسی حد تک دور ہوگئی تھی اور پاکستان اور ایران
تاریخ میں پہلے مرتبہ اس قدر قریب دیکھے جارہے تھے۔

واضح رہے کہ پاکستان اور ایران کے ایجنڈے میں 6 سرحدی بازاروں کی تعمیر شامل ہے جنمیں سے 2 بازار پیشین- مند اور ریمدان- گبد اپنے کام  کا آغاز کر چکے ہیں۔  سرحدی بازاروں کے علاوہ  پولان- گبد ٹرانسمیشن لائن کے ذریعے پاکستان کو بجلی کی فراہمی‌بھی شروع کی جا چکی ہے۔

کیا تعلقات میں خرابی کے پیچھے دیگر عوام شامل ہیں؟

اس تمام تر صورتحال میں سوال یہ ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو ان دونوں ممالک کے مابین تعلقات کی خرابی کی وجہ بن رہے ہیں؟ ایک بات تو طے ہے کہ اس خطے میں موجود دہشت گرد تنظیموں کو بعض دیگر طاقتیں فنڈ کر رہی ہیں۔ جیش العدل اور جنداللہ جیسے گروہوں کو بعض مغربی ممالک ایک طویل عرصے تک  ایران کے خلاف بطور پراکسی استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم دونوں ممالک کی ناکامی ہے کہ وہ اس حوالے سے کوئی بھی قابل عمل انٹلی جنس بیسڈ نیٹ ورک قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ دوسری جانب بی ایل اے اور دیگر بلوچ علاحدگی پسند تنظیمیں بارڈر کے چور دروازوں کا فائدہ اٹھا کر ایران کے بلوچستان حصے میں محفوظ پناہ گاہیں بنا کر بیٹھ چکی ہیں۔ اور ان تنطیموں کو بھی واضح طور پر ایسے ممالک کی مدد حاصل ہے جو خطے میں امن نہیں چاہتے اور نہ ہی پاکستان ایران تعلقات میں بہتری کے خواہاں ہیں۔

کیا بین الاقوامی قوتیں فلسطین پر سے توجہ ہٹانا چاہتی ہیں؟

اس وقت پوری دنیا کی نگاہیں فلسطین میں اسرائیلی قتل عام سے ہٹ کر پاک ایران کشیدگی پر مرکوز ہو چکی ہیں اور اس حوالے سے ایران کے خلاف امریکی بیان بھی کافی غور طلب ہے ۔ امریکہ اور اس کے بغل بچے اسرائیل کا غزہ مین قتل عام پوری دنیا کی توجہ حاصل کر چکا ہے جس کے خلاف پاکستان اور ایران کا مؤقف یکساں اور واضح ہے۔

ایسا لگ رہا ہے کہ اسرائیل کے خلاف جاری بین الاقوامی مہم اور عالمی عدالت میں جاری نسل کشی کے مقدمے سے توجہ ہٹانے کے لیے امریکہ نے اپنی کٹھ پتلیوں کے ذریعے خطے کو ایک نئی صورتحال میں دھکیل دیا ہے ۔ جس سے اسے دو مقاصد حاصل ہوں گے ایک تو ایران اور پاکستان کا اسرائیل کے خلاف اتحاد ختم ہوجائے گا اور دوسرا دنیا کی نظریں اسرائیلی نسل کشی سے ہٹ کر موجودہ صورتحال پر مرکوز ہو جائیں گی۔

پاکستان اور ایران کو کیا کرنا چاہیے؟

اس تمام تر صورتحال میں دونوں ممالک کو سفارتی سطح پر اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔ کیونکہ دونوں ممالک کے مابین کشیدگی نہ صرف خطے کو عدم توازن کی طرف دھکیلے گی بلکہ اسرائیل کے لیے بھی سود مند ہوگی جو امریکی مقاصد ہیں۔ پاکستان اور ایران کو بارڈر سیکورٹی فورسز اور اس کی نگرانی کے عمل کو بہتر کر کے دہشت گردوں کی در اندازی کو روکنا ہوگا اور ایک مشترکہ انٹلی جینس بیسڈ نیٹ ورک کے ذریعے مستقبل میں پراکسی دہشت گردوں کا رستہ روکنا ہوگا۔

About خاکسار

Check Also

امریکہ رو بزوال، امن معاہدہ بے سود ہے، سربراہ انصار اللہ

یمنی مقاومتی تنظیم کے سربراہ نے کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ کسی قسم کا …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے