Breaking News
Home / اخبار / منجمد افغان فنڈز کو تقسیم کرنے کا صدارتی حکمنامہ اور افغانستان کی معاشی صورتحال

منجمد افغان فنڈز کو تقسیم کرنے کا صدارتی حکمنامہ اور افغانستان کی معاشی صورتحال

رزاق اللہ کے لیے ایسے وقت میں جب افغانستان بھوک اور افلاس سے لڑ رہا ہے افغان پیسے سے 9/11 حملے کے شکار خاندانوں کی مدد کرنا بذات خود بہت بڑا ظلم ہے۔ کابل کے اس دستکار کا پوچھنا تھا کہ افغانستان کو کس بات کی سزا دی جاری ہے؟ رزاق کا کہنا تھا کہ وہ بمشکل دن کے 100 افغان روپے ( ایک ڈالر) کماتے ہیں اور میں اپنے بچوں کو کھلانے کے لیے سادہ روٹی بھی نہیں کھلا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں باقی دنیا سے الگ کر دیا گیا ہے اور ہمیں ان جرائم کی سزا دی جارہی ہے جو ان سے کبھی سرزد ہوا ہی نہیں۔ 11 فروری کو امریکی صدر جو بائیڈن نےامریکہ نے افغانستان کےمنجمد اثاثوں کا نصف نائن الیون کےمتاثرین میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکہ 7 بلین ڈالرز میں سے 3.5 بلین ڈالرز افغانستان میں انسانی امداد کی مد میں خرچ کرے گا جبکہ 3.5 ملین ڈالرز نائن الیون متاثرین کو دیے جائیں گے۔اس حوالے سے امریکی صدر جو بائیڈن نے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے ہیں۔

تاہم اسی حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ اس رقم کو ایک عدالتی فیصلہ آنے تک مختص نہیں کیا جا سکتا۔ ترجمان امارت اسلامیہ محمد نعیم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکا کی نائن الیون متاثرین میں افغان عوام کی رقم کی تقسیم چوری ہے۔ امریکہ کے اس عمل سے نہ صرف افغانستان کا مرکزی بینک دیوالیہ ہوجائے گا بلکہ ملک معاشی تباہی سے بھی دوچارہوجائے گا۔ عالمی بینک کے مطابق ملک میں پہلے ہی گزشتہ برس کی نسبت دیہاڑی 18 فیصد کم ہو گئی ہے۔ سال کے وسط میں آئی ایل او نامی تنظیم نے 9 لاکھ کے قریب نوکریوں میں کمی کا عندیہ دیا جس کا مطلب ہے کہ نوکریوں میں 14 فیصد کمی۔

واضح رہے کہ ماضی میں طالبان نے تنبیہ کی تھی کہ افغانستان کے منجمد فنڈز کو واپس نہ کرنا ’مسائل‘ کا باعث بن سکتا ہے جس کے باعث نہ صرف اقتصادی طور پر افغانستان مزید متاثر ہوگا بلکہ بڑی تعداد میں لوگ پناہ لینے کے لیے ملک چھوڑنے کی کوشش کریں گے۔اگست 2021 میں طالبان کے کنٹرول میں آنے کے بعد سے ملک کی معاشی حالات مسلسل بگڑتی جا رہی ہے اور اقوام متحدہ نے خدشہ کا اظہار کیا کہ 2022 کے وسط تک ملک میں غربت کی شرح 97 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔قطر میں طاکبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان محمد نعیم نے اس فیصلے کے بعد ٹویٹ میں رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے مرکزی بینک کے فنڈز پر قبضہ کرنا چوری ہے اور ’انسانی اور اخلاقی انحطاط‘ کے سب سے نچلے درجے پر گرنے کی نشانی ہے۔

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے امریکہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے باعث امدادی تنظیموں کو بھی جنگ زدہ ملک میں لوگوں کی مدد کرنے مین دشواری کا سامنا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق افغانستان کی ایک بڑی آبادی قحط کے دہانے پر ہے۔ طالبان نے امریکہ کے اس فیصلے پر سخت رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ان کی دولت ہے اور امریکہ کو یہ اثاثے افغانستان کے حوالے کرنے چاہئیں۔ طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے ٹوئٹر پر سخت رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ افغان بینک کا زر مبادلہ کسی حکومت یا دھڑے کا نہیں بلکہ یہ افغان لوگوں کا حق ہے اور اس کو صرف مانیٹری پالیسی ، تجارت کو بہتر بنانے اور ملک کی معیشت کی بہتری کے لیے ہی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس رقم کا یکطرفہ طور پر استعمال ناانصافی ہے اور افغان عوام اس کو مکمل طور پر رد کرتے ہیں۔

ناصر خان جو کہ ننگرہار کے صوبے خوگیانی سے تعلق رکھتے ہیں وہ آٹھ سال قبل طالبان اور امریکی افواج کے مابین جنگ کی وجہ سے کابل بھاگ آئے تھے اور کابل میں تعمیراتی کاموں میں مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں کا کہنا تھا کہ انہیں اگست سے بے روزگاری کا سامنا ہے اور ان کے پاس کرنے کے لیے کوئی کام نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ رقم افغان لوگوں کی ہے اور اگر یہ ہمیں نہیں ملتی تو ہماری مشکلات جاری رہیں گی۔  2010 میں 9/11 میں ہلاک ہونے والے امریکی افراد کے 150 خاندانوں نے القاعدہ اور طالبان سمیت بہت سارے جنگجو دھڑوں کے خلاف مقدمہ دائر کر رکھا تھا۔ یہ خاندان القاعدہ اور طالبان کے خلاف یہ مقدمہ جیت گئی تھیں تاہم انہیں نقصان کی رقم ادا نہین کی گئی تھی۔

طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد اب یہ خاندان افغانستان کے منجمد اثاثوں کے حصول کا موقع حاصل کر چکے ہیں۔ طالبان کو افغانیوں نے نہیں چنا بلکہ طالبان تو امریکہ کے ساتھ جنگ کر کے واپس اقتدار میں آئے ہیں اور امریکہ دو دہائیوں سے طالبان کے خلاف برسرپیکار تھا مگر انہیں شکست نہیں دے سکا۔ تجزیہ نگار اور انسانی حقوق کے کارکنان اس بات پر خبردار کر رہے ہیں کہ افغانیوں کے لیے محض 5۔3 بلین ڈالر کسی کام کے نہیں۔ اس سے نہ تو ان کی معاشی حالت تبدیل ہوگی اور نہ ہی ملک کے حالات بدلیں گے۔ ٹھیک ہے 5۔3 بلین ڈالر کی امداد فیاضانہ ہے مگر یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ افغانیوں کا اصل حق 7 بلین ڈالر ہے جو کہ انہیں ملنا چاہیے۔ افغانیوں کا کہناہے کہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ ہم خوراک، تعلیم، ملازمتوں اور صحت کی سہولیات سے محروم ہوچکے ہیں اور اس جنگ نے ہمیں تباہ کر دیا ہے ۔ مگر ہمارا قصور کیا ہے؟ ہم کس چیز کی سزا بھگت رہے ہیں؟

About خاکسار

Check Also

رفح پر صہیونی حملوں کے ساتھ عراقی مقاومت کے اسرائیل پر حملوں میں شدت

رفح پر صہیونی فورسز کی جانب سے باقاعدہ حملوں کا اعلان ہوتے ہی عراقی مقاومت …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے