Breaking News
Home / اخبار / مدر ٹریسا چیریٹی پر کریک ڈاؤن: کیا مودی حکومت این جی اوز سے خوفزدہ ہے؟

مدر ٹریسا چیریٹی پر کریک ڈاؤن: کیا مودی حکومت این جی اوز سے خوفزدہ ہے؟

گزشتہ برس 19 دسمبر کو بھارت کے قوم پرست وزیر اعظم نے ویٹی کن میں اکتوبر میں پوپ فرانسس سے ملاقات کا حوالہ دیا جب انہوں نے کیتھولک کے مذہبی رہنما کو اپنے ملک کے دورہ کی دعوت دی۔ نریندرا مودی نے اس ملاقات میں دورہ کے حوالے سے پوپ فرانسس کے الفاظ کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ” آپ نے مجھے سب سے بڑا تحفہ دیا ہے”۔ تاہم پوپ فرانسس سے ملاقات کے حوالے سے بات چیت کے ایک ہفتے بعد  نریندر مودی کی حکومت نے مشنریز آف چیریٹی (ایم او سی) کے بینک اکاؤنٹس کو منجمد کر دیا۔ اس چیریٹی کی بنیاد مدر ٹریسا نے رکھی تھی۔  مودی حکومت نے اس خیراتی ادارے کے لیے غیر ملکی فنڈنگ ​​لائسنس کی تجدید کرنے سے انکار کر دیا۔ اس تنظیم کے تحت ہزاروں ورکرز (ننز) کام کر رہی ہیں جو لاوارث بچوں کے لیے گھر، اسکول، کلینک اور اسپتال جیسے منصوبوں کی نگرانی کرتی ہیں۔

تاہم اس تمام صورتحال کی حیرت انگیزی یہیں پر ختم نہیں ہوتی ۔2016 میں پوپ فرانسس نے مدر ٹریسا کو سینٹ ہوڈ سے نواز تھا۔ اس کے علاوہ 1979 میں مدرٹریسا کو نوبیل انعام سے بھی نوازا گیا تھا ۔مدرٹریسا کے والدین البانی نژاد تھے ۔ مدرٹریسا 1950 میں بھارت آءیں اور کولکتہ میں مشنریز آف چیریٹی کی بنیاد رکھی ۔ جہاں انہوں نے اپنی زندگی کا زیادہ عرصہ بسر کیا اور 1997 میں وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ یہ چیریٹی مشرقی ریاست مغربی بنگال میں ہیڈ کوارٹر کے پاس دنیا بھر میں 3,000 سے زیادہ راہبائیں ہیں جو لاوارث بچوں کے لیے ہسپتال، کمیونٹی کچن، سکول، کوڑھیوں کی کالونیاں اور گھر چلاتی ہیں۔ ایم و سی پر پابندی کا واقعہ ہندو شدت پسند گروہوں کی جانب سے بلدیاتی انتخابات سے قبل مودی کے علاقے سمیت بھارت کے کچھ حصوں میں کرسمس کے اجتماعات میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے دو روز بعد منظر عام پر آیا۔مودی کی پارٹی سے جڑی شدت پسند ہندو تنظیموں نے بارہا ایم او سی پر غریب ہندوؤں اور قبائلی برادریوں کو پیسے، مفت تعلیم اور پناہ کی پیشکش کرکے خیرات کی آڑ میں تبدیلی مذہب کے پروگراموں کی قیادت کرنے کا الزام لگایا ہے۔

بھارتی میڈیا ویب سائٹ این ڈی ٹی وی کے مطابق بھارتی حکومت کا موقف ہے کہ اس اقدام کی وجہ آڈٹ رپورٹ میں بےضابطگیاں ہیں نہ کہ مذہب کی تبدیلی کا معاملہ۔ اس ماہ بھارتی میڈیا ویب سائٹ این ڈی ٹی وی کے مطابق، مدر ٹریسا کی مشنریز آف چیریٹی پر گجرات فریڈم آف ریلیجن ایکٹ 2003 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس مقد مے میں مبینہ طور پر ’ہندو مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے‘ اور وڈودرا شہر میں چلنے والے ایک شیلٹر ہوم میں ’مسیحی مذہب کی نوجوان لڑکیوں کی طرف راغب کرنے‘ کے الزامات بھی تھے۔واضح رہے کہ عیسائی بھارت کی 2۔1 ارب آبادی کا صرف دو فیصد ہیں۔اگرچہ  چیریٹی پر کام کرنے کی پابندی نہیں ہے تاہم بین الاقوامی فنڈنگ کی رکاوٹ سے اس کے بہت سارے منصوبے رک جائیں گے اور ایسے لوگ جو اس تنظیم کی پناہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں مشکلات کا شکار ہوجائیں گے۔ ایک عام اندازے کے مطابق اس پابندی سے 22000 افراد جن میں بے آسرا بچے، بیوائیں اور ادوایات حاصل کرنے والے مریض شامل ہیں متاثر ہوں گے۔

مودی بمقابلہ این جی اوز

بھارت بھر میں خصوصاﹰ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی ریاستوں میں مسیحی اجتماعات، گرجاگھروں اور تعلیمی اداروں پر حملوں میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ایک اعشاریہ تین ارب آبادی کے ملک بھارت میں دیگر اقلیتیں بھی اس وقت شدید دباؤ اور عدم تحفظ کے احساس کا شکار ہیں، تاہم  مسیحی جو مجموعی بھارتی آبادی  کا قریباﹰ دو فیصد بنتے ہیں، اپنی کم تعداد کی وجہ سے زیادہ خوف میں مبتلا ہیں۔بھارتی شہر کولکتہ کے سب سے بڑے پادری فادر ڈومینک گومز نے اسے کرسمس پر غریب افراد کیلئے بھیانک تحفہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے تنظیم سے فائدہ اٹھانے والوں سمیت مجموعی طور پر 22 ہزار سے زائد افراد متاثر ہوں گے۔یہ تنظیم ایک عرصے سے بھارتی حکومت کی آنکھوں میں کھٹک رہی تھی جسیا کہ نریندرا مودی کی آبائی ریاست گجرات  میں پولیس نے  اس کے ایک مرکز کے خلاف ان الزامات کی تفتیش شروع کی گئی تھی کہ ادارے میں نوجوان لڑکیوں کو بائبل پڑھنے اور مسیحی طریقے سے عبادت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ جبکہ مودی حکومت کی ایک رکن پارلیمنٹ نشکانت ڈوبے نے چیریٹی پر مذہبی تبدیلیوں کا الزام بھی عائد کیا۔

تاہم اس تنظیم کے علاوہ بھی حکومت کے غیر حکومتی تنظیموں یعنی این جی اوز کے ساتھ تعلقات خوشگوار نہیں ہیں۔ پارلیمنٹ میں ایک بڑی اکثریت کی حامل مودی حکومت تنقید کے خلاف سخت رویہ اپنانے کی شہرت رکھتی ہے  جبکہ سول سوسائٹی بھی بی جے پی کو بھارت کی ترقی کے خلاف سمجھتی ہے۔ نریندرا مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد 2014 میں انٹیلی جنس بیورو کی ایک رپورٹ کے مطابق این جی پر مودی سرکار کی پابندیوں سے ملک کی جی ڈی پی 3 فیصد تک متاثر ہو رہی ہے۔ بہت ساری این جی اوز جن کی تعدا ہزاروں میں ہے پر اکثرغیر شفافیت اور بدعنوانی کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ تاہم بہت ساری این جی اوز ایسی بھی ہیں جن پر صرف اس لیے پابندی عائد کی گئی ہے کہ وہ حکومت کی فاشسٹ پالیسز پر تنقید کرتی ہیں۔ ان میں سے بہت ساری تنظیمیں کسان احتجاج کی حامی تھی اور زرعی قوانین پر کھل کر تنقید کرتی تھیں اور ان قوانین کے خاتمے کے لیے مطالبہ کر رہی تھیں۔

واضح رہے کہ 2020 میں بھارت حکومت نے ‘ایف سی آر اے’ میں ترمیم کے بعد غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے غیر ملکی رقوم کے حصول پر پابندی عائد ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ یہ قانون مرکزی حکومت کو این جی اوز کی سرگرمیوں اور ان کے فنڈ کی جانچ پڑتال کی اجازت بھی دیتا ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے سابق ڈائریکٹر آکار پٹیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت کا یہ قدم کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) غیر سرکاری تنظیموں کے خلاف رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خود وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ایک ریلی میں کہا تھا کہ وہ این جی اوز کے دشمن ہیں اور نہیں چاہتے کہ وہ بھارت میں کام کریں۔ آکار پٹیل کے مطابق قانون میں مذکورہ ترمیم کے بعد این جی اوز کے کام کرنے میں بہت مشکلات آئیں گی۔ کیوں کہ ان کو خواہ وہ ملک میں کہیں سے بھی کام کر رہی ہوں، دہلی کے ایک بینک کے برانچ میں اکاؤنٹ کھولنا ہو گا۔

تعلیم کے شعبے میں کام کرنے والی ایک دوسری غیر سرکاری تنظیم الحفیظ ایجوکیشنل اکیڈمی کے چیئرمین کلیم الحفیظ نے کہا کہ اس قسم کی پابندیاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔ حکومت کا کام اتنا ہے کہ وہ یہ دیکھیں کہ رقم کہاں سے آ رہی اور یقینی بنائے کہ آئین اور قانون کے مطابق کام ہو۔کلیم الحفیظ کے بقول حکومت ایسی پابندیاں عائد کر کے ملک میں خوف کا ماحول پیدا کرنا چاہتی ہے۔ حکومت جانتی ہے کہ بین الاقوامی تنظیمیں سابقہ قانون کے تحت حکومت کی سرگرمیوں کا جائزہ لے سکتی تھیں۔ اس لیے حکومت وہ تمام دروازے بند کر دینا چاہتی ہے جس سے ان کے بقول حکومت کی زیادتیوں کا پول کھل جائے۔ کلیم الحفیظ کہتے ہیں کہ حکومت نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس سے سبھی واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے بھارت میں اپنا کام بند کر دیا۔ واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ نے بھی بھارت کی حکومت کی غیر ملکی عطیات کے حصول کے قانون میں ترمیم پر سخت ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا مقصد ان غیر سرکاری تنظیموں کو سزا دینے اور ان کی آواز دبانے کے مترادف ہے جو اپنی رپورٹس میں حکومت کے اقدامات پر نکتہ چینی کرتی ہیں۔

اتوار، 2 جنوری 2021

About خاکسار

Check Also

غزہ پر تل ابیب کے وحشیانہ جرائم کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، سربراہ انصار اللہ

یمن کی تحریک انصار اللہ کے سربراہ نے اس بات پر زور دیا کہ صیہونی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے