Breaking News
Home / اخبار / عراق اور شام پر امریکی حملے، بائیڈن کیا چاہتے ہیں؟

عراق اور شام پر امریکی حملے، بائیڈن کیا چاہتے ہیں؟

عراق اور شام میں مزاحمتی فورسز پر امریکی حملے بائیڈن حکومت کی خطے میں اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش ہے۔

  جمعے کو عالمی میڈیا نے شام اور عراق کی سرحد پر واقع مزاحمتی فورسز کے مقامات پر نامعلوم ذرائع سے حملوں کی خبر دی۔
اس دوران امریکی میڈیا اور اس سے وابستہ بعض بین الاقوامی ذرائع ابلاغ غیر معمولی کوریج دی۔

ان میں سے بعض ذرائع ابلاغ نے ان حملوں کو امریکہ کی طرف منسوب کیا اور دعویٰ کیا کہ امریکہ نے اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کے ٹھکانوں پر حملہ کیا اور بعض نے امریکی حملوں کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے اسے صیہونی حکومت سے منسوب کیا۔ لیکن جو کچھ بھی تھا، سب جانتے تھے کہ ہمیشہ کی طرح یہ شور و غل بھی خطے میں بدامنی کے اصل ذمہ داروں یعنی امریکہ یا صیہونی حکومت کا پیدا کردہ ہے۔

کچھ ہی لمحوں بعد مشرق وسطیٰ میں امریکی دہشت گرد فوج کی سینٹرل کمانڈ (CENTCOM) نے اعلان کیا کہ اس نے عراق اور شام کے 7 مقامات پر 85 سے زیادہ مرتبہ حملے کیے ہیں۔ سینٹ کام کے اس بیان کے بعد ہی امریکی حکام نے یکے بعد دیگرے اپنے ہوائی اور شور شرابے والے بیانات جاری کئے۔

اس سلسلے میں سب سے پہلے امریکہ کے صدر کی باری تھی۔ جو بائیڈن نے ان حملوں کو اردن میں امریکی اڈے پر حملوں کا ردعمل قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ حملے آنے والے دنوں میں بھی جاری رہیں گے۔

بائیڈن کے بعد دیگر امریکی حکام کی باری تھی لہذا وہ عراق اور شام میں ہونے والے حملوں کے مقابلے میں اپنے بیانات سے بہت زیادہ شور مچانے میں کامیاب رہے۔ اس طرح وزیر جنگ  لائیڈ آسٹن، وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی اور کئی دوسرے عہدیداروں نے میڈیا بیانات اور انٹرویوز کے ذریعے خوب شور مچایا۔

لیکن امریکی کنٹرولڈ میڈیا کے شور شرابے کے بر خلاف آزاد میڈیا سورسز نے امریکی حکام کے تمام منصوبوں کو ناکام بنانے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔ سب سے پہلے شام کے سرکاری میڈیا نے یہ انکشاف کیا کہ امریکیوں کی طرف سے نشانہ بنائے گئے تمام مقامات کو پہلے ہی خالی کر دیا گیا تھا!

تل ابیب میں سی این این کے نمائندے جیریمی ڈائمنڈ نے بھی ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ اس آپریشن میں 5 دن کی تاخیر کی وجہ سے کمانڈروں اور اہم ہتھیاروں کو اڈوں سے نکال لیا گیا تھا۔ نیز امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے سربراہ نے بھی کہا: آج کے حملے اس وقت تاخیر کے بعد ہوئے جب ہمارے دشمن تیار تھے۔

الجزیرہ ٹی وی چینل نے بھی اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ شام میں جن مقامات کو نشانہ بنایا گیا تھا ان میں سے اکثر کو پہلے ہی خالی کر دیا گیا تھا۔

لیکن رائے عامہ میں یہ سوال بڑی شدت کے ساتھ اٹھایا جارہا ہے کہ خالی جگہوں کو نشانہ بنانے پر امریکی میڈیا اور اس ملک کے حکام نے اتنا شور کیوں مچایا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ خطے میں گزشتہ چند مہینوں کے واقعات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کی ناکامیوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے  لہذا بائیڈن انتظامیہ چاہتی ہے کہ کسی طرح ملک کی رائے عامہ کے خطے میں امریکہ کی فوجی شکست اور تزویراتی رسوائی سے متعلق کڑے سوالات کا جواب دیا جائے جس کے لئے فیس سیونگ کے طور پر پہلے سے خالی ٹھکانوں پر حملے کرکے   عسکری بالا دستی کا بھرم رکھنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔

صیہونی رجیم کی حمایت کی امریکی پالیسی ناکام

طوفان الاقصیٰ آپریشن اور غزہ کی پٹی پر صیہونی حکومت کے حملوں کے بعد امریکہ اس رجیم کے جنگی جرائم کا ایک بڑا حامی رہا ہے۔ امریکہ نے ہی اسلحہ، گولہ بارود اور ہر قسم کی لاجسٹک اور فوجی امداد کے ذریعے صیہونی حکومت کو غزہ کی پٹی میں وحشت ناک جرائم کے ارتکاب میں مدد دی۔

لیکن ان حمایتوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا بلکہ اس کے برعکس دنیا بھر میں اور خود امریکہ کے اندر بھی امریکی  اقدامات کے خلاف عوامی بیزاری اور نفرت میں اضافہ ہوا۔

دوسری جانب صیہونی حکومت غزہ کی پٹی میں اپنے کوئی بھی مبینہ اہداف حاصل نہیں کرسکی۔ بلکہ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے لیے حماس کی شرائط کو قبول کرنے کی سرگوشیاں اب بھی سنائی دے رہی ہیں۔ آخر کار اس جنگ میں صیہونی حکومت کی حمایت سے امریکہ کے لیے جو کچھ بچا ہے وہ کلنگ کا ٹیکہ ہے جو اس عالمی بدمعاش کے ماتھے پر برسوں بلکہ شاید ہمیشہ کے لئے رہے گا۔

یمنی افواج کے مقابلے میں شکست

مشرق وسطیٰ کے علاقے میں حالیہ برسوں میں امریکہ کی سب سے بڑی شکست بحیرہ احمر میں یمنی افواج کے ساتھ محاذ آرائی میں دیکھی جا سکتی ہے جس نے صیہونی حکومت کے لیے اہم تجارتی راستہ بند کر دیا ہے اور مقبوضہ علاقوں پر حملوں کے ذریعے خطے میں امریکہ اور صیہونی حکومت پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے۔

وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ غزہ پر حملوں کے وقت صیہونی حکومت نے اس امکان کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا کہ یمنی افواج انہیں نشانہ بنائیں گی اور اہم آبنائے باب المندب کو بھی بند کیا جائے گا جو کہ اس رجیم کی معیشت کو بری طرح نقصان پہنچائے گا۔

 اس حوالے سے انگریزی اخبار گلوبز نے شپنگ کمپنیوں کو بھاری جانی و مالی نقصان اور مقبوضہ علاقوں میں ایلات بندرگاہ بند ہونے کے امکان کی خبر دی ہے۔ لہٰذا ان شرائط کے ساتھ مقبوضہ علاقوں سے سرمائے کے فرار کے باعث اسرائیل کی معیشت کی اہم شریان بند ہو جائے گی اور اس سے اس حکومت کی معیشت کمزور ہو جائے گی۔

ان نقصانات اور اقتصادی دباؤ کا  مقابلہ کرنے کے لئے امریکہ نے صیہونی حکومت کی درخواست پر برطانیہ کے ساتھ مل کر یمن پر دوبارہ حملہ کر دیا وہ بےی اس امید پر کہ وہ یمنی افواج کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کریں گے اور اسرائیلی بحری جہازوں پر حملوں کو روکیں گے۔ لیکن یمن کا مقابلہ کرنے میں امریکہ کو شدید ناکامی اس وقت پیش آئی جب یمنی افواج نے مقبوضہ علاقوں کی طرف جانے والے بحری جہازوں کے خلاف اپنے حملے مزید تیز کر دئے بلکہ  مقبوضہ علاقوں میں ایلات کی بندرگاہ پر بھی حملے کئے۔

دوسری جانب یمن کی قومی فوج کی جانب سے صیہونی حکومت کے جرائم کے خاتمے تک حملے جاری رکھنے پر تاکید کے ساتھ، عملی طور پر امریکہ کی ایک اور ناکامی کا مشاہدہ ممکن ہے، کیونکہ اس ملک کے حکام کے دعووں کے برعکس، امریکہ نے صیہونی رجیم کی حمایت کے ذریعے  نہ صرف خطے اور صیہونی حکومت کی سلامتی کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ خطے میں مزید تنازعات کو بھی جنم دیا ہے۔

عراق اور شام میں اسلامی مزاحمتی فورسز کے ہاتھوں شکست

غزہ کی جنگ میں صیہونی حکومت کے جرائم میں امریکہ کی شرکت اور لامحدود حمایت کے بعد عراق اور شام میں امریکی اڈوں پر مزاحمتی فورسز کے حملوں میں شدت آگئی ہے۔
امریکہ نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ ان حملوں کا جواب دے کر ان کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے، کئی بار محدود انداز میں فضائی اور ڈرون حملوں سے مزاحمتی فورسز کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں کے باوجود نہ صرف عراق اور شام میں امریکی ٹھکانوں کو نشانہ بنانے میں کمی نہیں آئی بلکہ عراق اور شام میں مزاحمتی قوتوں نے اپنے حملوں کی شدت اور تعداد میں اضافہ کیا اور ان حملوں میں سب سے اہم اردن اور شام کی سرحد پر واقع "ٹاور 22” پر حملہ ہے جس کے نتیجے میں تین امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔

خطے میں امریکی افواج پر حملوں کے حوالے سے پینٹاگون کے ترجمان نے 28 دسمبر کو بتایا تھا کہ عراق اور شام میں امریکی افواج کے خلاف مجموعی طور پر 140 حملے کیے گئے جن میں سے 57 عراق اور 83 شام میں ہوئے۔ اب تک امریکی فوج اپنی ہلاکتوں کو سنسر کرتی تھی لیکن اب بات اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ امریکہ جنگ کے آغاز کے بعد امریکی اڈوں پر مزاحمتی گروپوں کے حملوں کے نتیجے میں اپنے فوجیوں کے حملوں اور ہلاکتوں کی تصدیق کرتا ہے۔

اب عراق اور شام میں مزاحمتی قوتوں نے امریکی اڈوں کو نشانہ بنانے کے علاوہ عراق سے پہلی بار طویل فاصلے تک مار کرنے والے جدید کروز میزائل "ارقب” سے حیفہ میں ایک اہم ہدف کو نشانہ بنایا۔ اس سلسلے میں عراقی النجباء مزاحمتی فورس کے ترجمان نے حیفا پر حملے کو غاصب اسرائیل کے لیے واضح پیغام قرار دیا۔

عراق اور شام میں امریکی اڈوں اور اس کے زیر قبضہ علاقوں پر مزاحمتی حملے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکہ نے خطے میں اپنی دفاعی قوت کا دعویٰ حاصل نہیں کیا ہے اور اس وقت خود اور صیہونی حکومت دونوں ہی اس کے کٹر اتحادی کے طور پر مسلسل اور مہلک حملوں کا نشانہ ہیں۔ اور یہ مسئلہ امریکہ کی پالیسی اور خطے میں موجود ہونے کے دعوے کے بالکل خلاف ہے اور اسے امریکہ کی سٹریٹجک ناکامی سمجھا جاتا ہے۔

عالمی برادری کو ساتھ ملانے میں ناکامی کا سامنا

مقبوضہ علاقوں کی طرف جانے والے بحری جہازوں پر یمنی افواج کے حملوں کے بعد امریکی حکام نے یمن کی قومی فوج اور انصار اللہ فورسز کا مقابلہ کرنے کے لیے مختلف ممالک کے فوجی دستوں پر مشتمل ایک اتحاد تشکیل دینے کی کوشش کی۔ لیکن خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔

یہ اتحاد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے خطے کے اہم ممالک کو شامل کرنے میں ناکام رہا اور کچھ ممالک جو خود کو امریکہ کے اتحادی کہتے ہیں اس اتحاد سے دستبردار ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔ اٹلی اور اسپین  نے ابتدائی طور پر اعلان کیا تھا کہ وہ اس منصوبے میں حصہ لیں گے لیکن بعد میں الگ الگ بیانات جاری کرکے اپنا فیصلہ واپس لیا۔

آخر کار وہ اتحاد جس کے بارے میں ابتدائی طور پر 20 ممالک کے ساتھ یمن کے خلاف لڑنے کا دعویٰ کیا گیا تھا بالآخر 12 ممالک تک محدود ہو گیا جس نے سوائے بیان جاری کرنے کے کچھ نہیں کیا۔ اگرچہ امریکہ نے برطانیہ کے ساتھ مل کر یمن کے علاقوں پر محدود حملے کیے لیکن یہ حملے مقبوضہ علاقوں کی طرف جانے والے بحری جہازوں پر یمنی افواج کے حملوں کو نہ روک سکے اور آخر کار یمنیوں کے امریکہ اور صیہونی حکومت کا مقابلہ کرنے کے عزم میں اضافہ ہوا۔

نتیجہ

 خطے میں پے درپے ناکامیوں کے بعد عراق اور شام پر امریکہ کے گزشتہ رات کے حملوں کو بائیڈن حکومت کی ملکی رائے عامہ کے دباؤ سے بچنے کی ایک کوشش قرار دیا جا سکتا ہے۔

امریکہ نے ہمیشہ خود کو دنیا کی غیر متنازعہ طاقت کے طور پر پیش کیا ہے اور مختلف وجوہات کی بنا پر خطے میں اپنی موجودگی کا جواز پیش کیا ہے لیکن اب اس کی عسکری بالادستی سوالیہ نشان بنی ہے۔  اب نہ صرف خطے اور مشرق وسطیٰ کے لوگ بلکہ پوری دنیا کے لوگ بھی واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ اور بالخصوص اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف امریکی پالیسی مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔

خطے اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف امریکہ کی ناکامیوں کا دائرہ اتنا واضح اور عیاں ہے کہ اب امریکی حکام کے پاس اس شرمناک شکست کا اعتراف کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا ہے۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ  امریکی ایوان نمائندگان کے اسپیکر مائیک جانسن نے اپنی تقریر میں بائیڈن کی ایران کے حوالے سے پالیسی کو ناکام قرار دیا۔

لہذا یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ امریکہ کی پے در پے ناکامیوں کے بعد جوبائیڈن حکومت نے یہ حملے رائے عامہ کے دباؤ  اور عالمی سبکی سے بچنے کے لئے فیس سیونگ کے طور پر کئے ہیں۔ اگرچہ امریکہ کہ یہ پالیسی بھی خطے میں ہونے والی صورت حال کو زیادہ دیر تک امریکہ کے حق میں نہیں کر سکتی۔ کیونکہ اسلامی جمہوریہ ایران اور خطے کی خودمختار مزاحمتی تحریکیں اسے خطے سے نکال باہر کرنے کا عزم بالجزم کرچکی ہے اور رسوائی امریکہ کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے۔

About خاکسار

Check Also

صدر رئیسی قم پہنچ گئے، عوام کا شاندار استقبال

ایرانی صدر رئیسی ایران کے مختلف صوبوں کے دورے کے دوسرے مرحلے میں کچھ دیر …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے