Breaking News
Home / اخبار / عدت کیس فیصلہ :اخلاقی گراوٹ کا ایک نیا موڑ

عدت کیس فیصلہ :اخلاقی گراوٹ کا ایک نیا موڑ

تحریک انصاف کے رہنماؤں کے علاوہ بلاول بھٹو زرداری شاید واحد پاکستانی سیاست دان ہیں جنہوں نے عدت کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس فیصلے کی حمایت کرنا مشکل ہے‘ ۔ ٹی وی انٹرویو اور حیدرآباد میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’سیاست میں اتنا آگے نہیں جانا چاہیے‘ ۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین کے اس بیان کو افسوسناک سناٹے کے ماحول میں امید کی موہوم کرن سمجھنا چاہیے۔ انہوں نے بجا طور سے یہ واضح کیا ہے کہ ’خواتین کے حقوق کے لیے ماضی میں کی گئی کوششوں پر اس فیصلے کا منفی اثر پڑ سکتا ہے‘ ۔ البتہ ہفتہ کی سہ پہر اڈیالہ جیل میں قائم کی گئی عدالت میں ایک سول جج نے فیصلہ دیا کہ یکم جنوری 2018 کو عمران خان اور بشریٰ بی بی کے درمیان ہونے والا نکاح غیر قانونی تھا کیوں کہ اس وقت تک بشریٰ بی بی اور خاور مانیکا میں طلاق کے بعد عدت کی مدت پوری نہیں ہوئی تھی۔ یہ فیصلہ سناتے ہوئے معزز جج نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کو سات، سات سال قید کی سزا کا حکم دیا۔ اس طرح ملک کے ایک سول جج نے دو افراد کے نجی معاملہ میں غیر ضروری مداخلت کرتے ہوئے ایک ایسی خطرناک مثال قائم کی ہے جس سے ملکی سیاست میں ذاتی کردار کشی کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا ہے۔ اور ایک ملکی عدالت نے یہ ’الزام‘ اپنے سر لیا ہے جو اس سے بھی زیادہ افسوسناک اور پریشان کن امر ہے۔

ملک میں اس وقت چونکہ انتخابات کی مارا ماری ہے اور سیاسی حریف تحریک انصاف کی خالی کروائی گئی جگہ پر کرنے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے لیڈر ایک تو 8 فروری کے بعد اقتدار حاصل کرنے کے امیدوار ہیں اور اقتدار میں زیادہ سے زیادہ حصہ بٹورنا چاہتے ہیں۔ دوسرے عمران خان کے دور حکومت میں نواز شریف، ان کی صاحبزادی اور دیگر لیگی لیڈروں کے ساتھ نامناسب برتاؤ روا رکھا گیا تھا۔ انہیں ایک طرف عدالتوں سے سزائیں ہو رہی تھی تو دوسری طرف اقتدار میں ہونے کے باوجود تحریک انصاف کی قیادت نے ان سزاؤں پر جوش و خروش کا مظاہرہ کرنا ضروری خیال کیا تھا۔ جس سے اس تاثر کو تقویت ملی گویا عدالتوں سے ملنے والی سزائیں تحریک انصاف کی مرضی و منشا کی عکاسی کرتی ہیں۔

وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود عمران خان نے نواز شریف کی سزا پر تبصرے کرنے کے علاوہ جیل میں ملنے والی سہولتوں پر جن آرا کا اظہار کیا، وہ اب ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ اس پس منظر میں مسلم لیگ (ن) کے لیڈر اب عمران خان کے خلاف عدالتی فیصلوں پر خوشی و اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں اور قانونی طور سے انہیں مضبوط اور درست فیصلے بھی کہا گیا ہے۔ البتہ عدت کیس میں عدالتی فیصلہ کے بعد مسلم لیگ (ن) نے سرکاری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن اس اہم معاملہ پر پارٹی کی خاموشی کو تائید ہی سمجھا جائے گا۔ اس لحاظ سے نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کی خاموشی ملکی سیاست میں تصادم اور انتقامی رویوں کے حوالے سے تکلیف دہ حد تک افسوسناک ہے۔

اس ماحول میں بلاول بھٹو زرداری نے عدت کیس کے فیصلہ پر مختصر اظہار خیال کرتے ہوئے اس حوالے سے بیان بازی سے گریز کا عندیہ دیا ہے۔ انہوں نے اس سے پہلے بھی متعدد بار انتقامی سیاست سے گریز کا مشورہ دیا ہے۔ بظاہر پیپلز پارٹی کی قومی سطح پر بڑی کامیابی کا امکان نہیں ہے لیکن بلاول بھٹو زرداری کے بعض ہوشمندانہ بیانات انہیں ایک اہم اور ہونہار لیڈر کے طور پر سامنے لا رہے ہیں۔ امید کرنی چاہیے کہ پاکستانی قوم کے دیگر نوجوان لیڈر بھی ان سے سبق سیکھیں گے اور ملکی سیاست سے وہ خرابیاں دور کرنے کی کوشش کی جائے گی جو برسوں کی چپقلش اور اقتدار کی ہوس کی وجہ سے قومی مزاج کا حصہ بن چکی ہیں۔

عمران خان اور بشریٰ بی بی کی شادی دو بالغ افراد کے درمیان طے پانے والا معاہدہ تھا جو خفیہ طور سے طے نہیں پایا تھا بلکہ قریبی دوستوں و عزیزوں کی موجودگی میں یہ رسم طے ہوئی تھی۔ اس وقت عمران خان کی عمر 65 اور بشریٰ بی بی کی عمر 45 سال کے لگ بھگ تھی۔ بشریٰ بی بی کو طلاق ہو چکی تھی اور ان کے سابق شوہر نے کبھی اس شادی پر کسی قسم کے تحفظات کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس شادی پر انہیں کوئی اعتراض تھا۔ سوشل میڈیا پر جو ویڈیو دیکھی جا سکتی ہیں، ان میں وہ بشریٰ بی بی کی پاکبازی اور عمران خان کی بھلے مانسی کی تعریف و توصیف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ البتہ اب وہ انہیں ناجائز تعلقات میں ملوث دو بدکار لوگوں کے بارے میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی کاوش میں انہوں نے سول عدالت میں مقدمہ قائم کیا اور اب سول جج نے سزاؤں کا اعلان کیا ہے۔

البتہ اس مقدمہ کی کارروائی کے دوران میں یہ واضح نہیں ہوسکا کہ خاور مانیکا بشریٰ بی بی اور عمران خان کو سزا دلوانا چاہتے ہیں یا ناجائز طور سے اپنی بیوی ’ہتھیانے‘ والے شخص سے اپنی سابقہ بیوی واپس لینا چاہتے ہیں۔ انہیں بشریٰ بی بی کی عدت کا معاملہ گزشتہ سال ستمبر میں بدعنوانی کے الزامات میں گرفتار ہونے اور پھر ضمانت پر رہائی کے بعد اچانک یاد آیا۔ پھر انہوں نے عدت میں نکاح کا مقدمہ دائر کیا کیوں کہ ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے نومبر 2017 میں بشریٰ بی بی کو طلاق دی تھی، اس لیے یکم جنوری 2018 کو عمران خان کے ساتھ ان کا نکاح غیر شرعی تھا۔ ریکارڈ کے مطابق انہوں نے کبھی تنسیخ نکاح کا مقدمہ قائم نہیں کیا اور نہ ہی وہ بشریٰ بی بی سے نکاح ثانی کے امیدوار ہیں۔ انہوں نے مقدمہ کی کارروائی کے دوران میں اگرچہ ایک قانونی نکتہ کی نشاندہی کہ شریعت اور عائلی قوانین کے مطابق یہ نکاح عدت کی مقررہ مدت پوری ہونے سے پہلے ہی کر لیا گیا تھا۔ لیکن اپنا موقف ثابت کرنے کے لیے انہوں نے جو گواہ پیش کیے اور جو الزامات عائد کیے ان کا مقصد عمران خان اور بشریٰ بی بی کی کردار کشی کے سوا کچھ نہ تھا۔

اس شخص کے اپنے کردار کے بارے میں کیا کہا جائے جس نے لگ بھگ تیس سال تک اپنے عقد میں رہنے والی ایسی خاتون پر گھٹیا الزامات عائد کیے جو ان کے پانچ بچوں کی ماں بھی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ 2018 سے 2023 کے درمیان تقریباً 6 سال تک اس معاملہ میں مہر بلب رہے۔ جب عمران خان کو سیاسی وجوہ کی بنیاد پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے بھی عائلی قوانین کے تحت مقدمہ دائر کر کے اس میں اپنا حصہ ڈالنا ضروری سمجھا۔ بشریٰ بی بی نے عدالت میں واضح کیا تھا کہ خاور مانیکا نے انہیں مئی 2017 میں طلاق دے دی تھی۔ عدت کی مدت پوری کرنے کے بعد وہ اپنی والدہ کے گھر منتقل ہو گئیں۔ حیرت انگیز طور پر فاضل جج نے بشریٰ بی بی کے بیان کو قبول کرنے کی بجائے خاور مانیکا جیسے مشکوک کردار کے ایک شخص کا دعویٰ تسلیم کرنا ضروری سمجھا کہ اس نے بشریٰ بی بی کو کب طلاق دی تھی۔

حالانکہ عدالت کو خاور مانیکا سے یہ پوچھنا چاہیے تھا کہ وہ جس خاتون کو چھوڑ چکے ہیں، اس کے معاملات کے بارے میں انہیں کیوں پریشانی لاحق ہے۔ اور وہ خود کو پیش آنے والے جن مسائل کا ذکر کر رہے ہیں، بشریٰ بی بی کو سزا دلوانے سے، ان کا کیسے ازالہ ہو جائے گا؟ لیکن عدالت نے یہ سوال پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی بلکہ عمران خان کا ساتھ چھوڑنے والے ایک دوست اور نکاح کی رسم ادا کرنے والے ایک مفتی کا بیان سن کر رائے بنانے کا قصد کیا۔ یہ رویہ اصولی، قانونی اور اخلاقی لحاظ سے مشکوک اور پریشان کن ہے۔ طلاق اور نکاح کے معاملہ میں کسی بھی عدالت کو خاتون کے بیان کو اہمیت دینی چاہیے اور سابقہ شوہر کے ہاتھوں اس کی توہین کا اہتمام نہیں کرنا چاہیے تھا۔

اس کے علاوہ یہ فیصلہ اس لحاظ سے بھی پریشان کن ہے کہ اس میں ملک کے ایک سابق وزیر اعظم کو اخلاقی طور سے بے اعتبار ثابت کرنے کے علاوہ شہریوں کی ذاتی زندگی میں عدالتی مداخلت کی خطرناک مثال قائم کی گئی ہے۔ ملک میں خواتین کے حقوق کی صورت حال مستحسن نہیں ہے لیکن اگر عدالتیں ناقابل اعتبار گواہوں اور ناقص دعوے قبول کرتے ہوئے ایک سابق وزیر اعظم کی اہلیہ کو بے توقیر کر سکتی ہے تو ملک کی عام عورتوں کے حقوق کی حفاظت کا اہتمام کون کرے گا۔ کیا وجہ ہے کہ طلاق کے معاملہ میں ایک عورت کی گواہی کو قبول کر کے مقدمہ خارج کرنے کی بجائے پراسرار عجلت میں اس پر کارروائی مکمل کی گئی اور پھر غیرمعمولی سزائیں دے کر ایک افسوسناک مثال قائم کی گئی ہے۔ یہ پوری عدالتی کارروائی عمران خان کے خلاف ریاستی جبر کے ایک نمونے کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔

گزشتہ ہفتے ہی کے دوران میں عمران خان کو سائفر کیس اور توشہ خانہ ریفرنس میں بھی سزائیں دی گئی ہیں۔ ان فیصلوں پر بھی درجنوں قانونی سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں لیکن عدت کیس میں سزا سے قانونی ہی نہیں بلکہ بنیادی شرعی اور اخلاقی سوالات بھی سامنے آئے ہیں۔ ریاست ایک ’قانون شکنی‘ پر 6 سال تک خاموش رہتی ہے اور عمران خان سپریم کورٹ سے صداقت و امانت کا سرٹیفکیٹ حاصل کر کے ساڑھے تین سال ملک کے وزیر اعظم رہتے ہیں۔ لیکن جوں ہی اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف سامنے آتے ہیں تو ان کے خلاف قانونی گھیرا تنگ ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اس کشمکش میں کسی شخص کی ذاتی زندگی اور خانگی معاملات کو اچھالنا اور وجہ نزاع بنانا، اوچھا ہتھکنڈا ہے جس سے مستقبل کے لئے ایک افسوسناک مثال قائم کی گئی ہے۔ ریاستی اداروں اور سیاسی لیڈروں کے درمیان چپقلش کو کسی مناسب طریقے سے حل کر کے، مستقبل میں شفاف جمہوریت کے لیے راستہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن عدت کیس میں سنائے گئے فیصلہ سے ایسے کسی انتظام کے لیے حالات مزید مخدوش ہوجائیں گے۔

یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کا بیان اہم ہے اور دیگر سیاسی لیڈروں کی خاموشی افسوسناک وقوعہ ہے۔ یہ فیصلہ تبدیل بھی ہو جائے تب بھی سیاسی رویوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال اداروں کے علاوہ سیاسی لیڈروں کے تعلقات میں دراڑ ڈالتی رہے گی۔

About خاکسار

Check Also

صہیونیت مخالف طلباء تحریک، نیویارک یونیورسٹی میں اساتذہ کی ہڑتال

نیویارک یونیورسٹی کے 120 سے زائد اساتذہ نے پولیس کے ہاتھوں طلباء پر تشدد کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے