Breaking News
Home / اخبار / اسرائیلی جیلوں میں وقار وحرمت کی جدوجہد کی کہانی

اسرائیلی جیلوں میں وقار وحرمت کی جدوجہد کی کہانی

4 جنوری 2022 کو فلسطینی قیدی ہشام ابو حواش نے اسرائیلی جیل میں 140 روز بھوک ہڑتال کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ان کی انتظامی قید کو ختم کیا جائے۔ انتظامی قید کے تحت اسرائیلی فوج کسی بھی فلسطینی کو بغیر کسی الزام کے اور عدالتی ٹرائل کے خفیہ معلومت کے حصول کے لیے گرفتار کر سکتی ہے۔ ابو حواش کے وکیل جواد بولوس کا کہنا تھا کہ تل ابیب کی جانب سے انہیں 26 فروری کو رہا کرنے کی یقین دہانی کے بعد وہ بھوک ہڑتال کے خاتمے پر تیار ہوئے ہیں۔ یہ بھوک ہڑتالیں اسرائیلی مظالم اور نا انصافی کو اجاگر کرنے کا اہم ذریعہ بن گئی ہیں۔ ان بھوک ہڑتالوں کی وجہ سے عوام یہ سوال کرنے کی جراءت کرتی ہے کہ قیدیوں کو ان حالات میں کیوں رکھا جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی ختم کرنے پر تل جاتے ہیں۔

یہ بھوک ہڑتالیں بین الاقوامی دنیا اور عالی انصاف کے اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی توجہ بھی اپنی طرف کھینچتی ہیں اور فلسطینی اپنی قربانی دے کر اسرائیلی مظالم کو اجاگر کرتے ہیں۔ روایتی میڈیا میں ان بھوک ہڑتالوں کی کوریج نہ ہونے کے برابر ہے مگر سوشل میڈیا اس حوالے سے حمایت کا ایک منبع بن چکا ہے۔ کارکن سوشل میڈیا کے ذریعے آن لائن مہم شروع کرتے ہیں جیسا کہ ہم نے ابو حواش کے معاملے میں دیکھا کہ کس طرح ان کا کیس ہیش ٹیگ بن گیا اور سوشل میڈیا پر ٹرینڈنگ رہا۔ ابوحواش نے اسرائیل حکام کو اپنے لیے رعایت پر مجبور کیا تاہم اس کی قیمت انہیں صحت کی صورت میں چکانا پڑی۔

جیسا کہ اکثر کیسز میں ہوتا ہے کہ بھوک ہڑتال جسم پر برے اثرات ڈالتی ہے اور یہ اثرات کسی کی زندگی پر برے اثرات کا سبب بن جاتے ہیں۔ بسا اوقات بھوک ہڑتال انسانی جسم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتی ہے ۔ بھوک ہڑتال موت کا سبب بن جاتی ہے مگر یہی مزاحمت کا ایک اہم ترین ہتھیار ہے جو اسرائیلی غاصبوں کو جھکا دیتا ہے۔ اسرائیل جیل میں شہید ہونے والوں سے اس قدر خوفزدہ ہوتا ہے کہ انہیں زبردستی کھانے پلانے کی کوشش کرتا ہے۔ 1969 کے اوائل میں اسرائیل نے بھوک ہڑتال کے خاتمے کے لیے زبردستی کھلانے کا عمل شروع کیا اور قیدیوں کی ناک کے ذریعے پلاسٹک کی نالیاں استعمال کی گئیں تاکہ ان کے معدوں میں خوراک اتاری جاسکے۔ 11 جولائی 1970 کو ایک قیدی عبدالقدیر ابو ال فہیم کی اسکلان جیل میں موت کے بعد جیل کے باہر مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔

ابو ال فہیم بھوک ہڑتال کے تیسرے دن میں تھے اور انہیں زبردستی خوراک دینے کی ضرورت نہیں تھی مگر اسرائیلی افواج نے زبردستی کھلانے کا کام ان کی زندگیاں بچانے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ان کی مزاحمت کو توڑنے کے لیے یہ عمل کیا گیا تھا۔ ابو ال فہیم پہلا فلسطینی قیدی تھا جو اسرائیلی جیل میں شہید ہوا۔ بھوک ہڑتال کرنے والے ان نتائج سے آگاہ ہوتے ہیں اس لیے وہ اس ذلت کی جگہ موت کو گلے لگانے کے لیے ہر وقت تیار ہوتے ہیں۔ وہ اس ذلت کی زندگی پر موت کو ترجیح دیتے ہیں۔ موت کی یہی آرزو انہیں قوت دیتی ہے کہ وہ بھوک ہڑتال کی حد تک جا کر اپنے مطالبات کو منوائیں یا پھر موت کو گلے لگالیں۔ابو حواشی ان ہزاروں فلسطینی قیدیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے 1968 کے اوائل میں بھوک ہڑتال کا عمل شروع کیا۔ 28 اپریل 1970 کو  نیو ترزا جیل میں فلسطینی خواتین قیدیوں نے 9 دن کی بھوک ہڑتال کا عمل شروع کیا۔

ان خواتین نے بہت سارے مطالبات رکھے تھے جن میں صفائی کی اشیا تک رسائی بھی شامل تھی۔ ان خواتین کو قید تنہائی میں رکھا جاتا اور ذلت آمیز سلوک کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ انہوں نے صفائی کی اشیاء تک رسائی حاصل کر لی تھی مگر ان کی یہ کامیابی زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکی۔ اگرچہ بھوک ہڑتال بڑی فتوحات حاصل کرنی کی ضمانت نہیں ہیں تاہم یہ احتجاج قیدیوں کی حالت کے بارے میں لوگوں میں شعور بیدار کرنے کی اہم کوشش ہیں۔ اور اس سے دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی اسرائیلی مظالم کی بھنک ملتی ہے۔ 1968 سے اب تک فلسطینی بھوک ہڑتالیوں نے بہت سارے مطالبات حاصل کیے ہیں۔ آج جیل میں ہر ایک چیز کے پیچھے مزاحمت کی ایک کہانی ہے۔

ایک بھوک ہڑتال محض خوراک کو مسترد کردینا نہیں ہے ۔ یہ ایک طاقتوار حقیقت پسندانہ ذریعہ ہے جس سے حقیقت پسندانہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ بھوک ہڑتال درحقیقت طاقت اور ظلم کے نظام کو چیلنج کرنے کا نام ہے جس میں فلسطینی قیدی اپنی زندگیوں اور جانوں پر سے اسرائیلی غاصبوں کا کنٹرول ختم کر دیتے ہیں۔ اور اس طریقہ کار کے تحت لاچار فلسطینی اپنے جسموں کو ہی ہتھیار بنا لیتے ہیں۔

بھوک ہڑتال فلسطینی اسیروں کا ایسا ہتھیار ہے جس نے پوری دنیا کو ایک مرتبہ پھر امتحان میں ڈال دیا ہے۔خصوصاً طاقت کے نشے میں دھت غیر قانونی جارح ریاست اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا کو کہ فلسطینی بھوک ہڑتالی اسیران کے انتفاضہ کے سبب پوری دنیا امریکا اور اسرائیل کے اصلی اور مکروہ چہرے کو دیکھ رہی ہے۔دنیا یہ دیکھ رہی ہے کہ کس طرح پوری دنیا میں انسانی حقوق کے نام پر واویلا کرنے والا امریکا ،اسرائیل کے اندر انسانی حقوق کی پائمالی پر نہ صرف خاموش بلکہ انسانی حقوق کو تاراج کرنے میں بھرپور طور پر شامل بھی ہے۔

 ہزاروں فلسطینی قیدیوں کو مختلف بیس اسرائیلی جیلوں میں قید کیا گیا ہے جہاں پر رہنے کی جگہ انسانی زندگی کے قابل نہیں ہے۔اسرائیلی جیلیں کیڑوں،لال بیگوں ،چوہوں اور بچھوئوں سمیت کئی خطر ناک کیڑوں سے بھری پڑی ہیں جب کہ یہی خطرناک کیڑے فلسطینی قیدیوں کے استراحت کے لیے استعمال کیے جانے والے سامان اور دیگر اشیاء میں پائے جاتے ہیں اور فلسطینیوں کے لیے سخت اذیت کا باعث بنتے ہیں،جب کہ النقبہ کے مقام پر موجود ایک اسرائیلی جیل میں خطرناک سانپ بھی موجود ہیں جو قیدیوں کے لیے خطرناک ہیں۔اسرائیلی حکام جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں سے بیس بیس گھنٹے لگاتار تفتیش کرتے رہتے ہیں اور ان کو سونے بھی نہیں دیا جاتا یا پھر جب ان کا دل چاہتا ہے فلسطینی قیدیوں کو نیند سے بیدار کر کے تفتیش کرنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ عمل بیس بیس گھنٹوں تک جاری رہتا ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کے ساتھ انسانی سلوک نہیں کیا جا رہا اس لیے میں یہ کہتا ہوں کہ اسرائیل جیلیں غیر انسانی ہیں اور انسانیت کی سطح سے گری ہوئی ہیں۔

آزادی ہر انسان کا حق ہے اور یہی حق فلسطینی قیدی حاصل کرنے کے لیے جد وجہد کر رہے ہیں۔ اسرائیل اب زیادہ دیر تک بین الاقوامی تحفظ میں نہیں رہ پائے گ جیلوں میں ایک مشترکہ عمل کی عدم موجودگی کے سبب، انفرادی بھوک ہڑتالیں قیدیوں کے ہاتھ آخری ہتھیار رہ جاتی ہیں  تاہم یہی انفرادی مزاحمت انصاف اور آزادی کی جدوجہد میں تمام فلسطینیوں کے لیے استعارے کی حیثیت اختیار کررہی ہے۔

اتوار، 16 جنوری 2022

About خاکسار

Check Also

ایران کی جانب سے متعدد امریکی شہریوں اور اداروں پر پابندی عائد

ایران کی وزارت خارجہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور خطے میں امریکی دہشت …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے