Breaking News
Home / اخبار / نیویارک میں انسانی لاشوں کو مٹی بنا دینے کی اجازت کیوں؟

نیویارک میں انسانی لاشوں کو مٹی بنا دینے کی اجازت کیوں؟

امریکہ کی بعض ریاستوں کی طرح اب نیو یارک میں بھی ’ہیومن کمپوسٹنگ‘ کی اجازت دے دی گئی ہے۔ یہ وہ عمل ہے جس میں مرنے کے بعد ایک انسان کی لاش کو مٹی میں تبدیل کیا جاتا ہے۔

لاش کو دفنانے یا جلانے کے مقابلے اس عمل کو ایک ماحول دوست متبادل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

اسے قدرتی ’آرگینک ریڈکشن‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں ایک لاش کو کنٹینر میں کئی ہفتوں تک بند رکھ کر ڈی کمپوز (گلایا) کیا جاتا ہے۔

سال 2019 میں واشنگٹن اسے قانونی حیثیت دینے والی پہلی ریاست تھی۔ اس کے بعد کولوراڈو، اوریگن، ورمانٹ اور کیلیفورنیا نے بھی اس کی اجازت دی تھی۔

ریاست نیو یارک کی ڈیموکریٹ گورنر کیتھی ہوکل کی منظوری کے بعد نیو یارک وہ چھٹی امریکی ریاست بنی جہاں اب ہیومن کمپوسٹنگ کی اجازت ہے۔

یہ عمل مخصوص جگہوں پر کیا جاتا ہے جو زمین کی سطح سے اوپر ہوں۔

ایک انسانی جسم کو کنٹینر میں ڈالنے کے دوران اس میں مخصوص اشیا جیسے لکڑی کے ٹکڑے، برسیم پودے اور گھاس ڈالی جاتی ہے۔ مائیکروبز کی موجودگی کی وجہ سے یہ لاش جلد ڈی کمپوز ہونے لگتی ہے۔

اس میں لگ بھگ ایک ماہ کا وقت لگتا ہے جس میں وبائی مرض کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اسے گرمائش کے مرحلے سے بھی گزارا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسے مٹی میں تبدیل کر کے لواحقین کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ اس مٹی کو پھر پھول، سبزیاں یا درخت اُگانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

امریکی کمپنی ری کمپوز کا دعویٰ ہے کہ اس کی سروسز سے لاش کو جلانے یا دفن کرنے کے مقابلے ایک ٹن کے لگ بھگ کاربن اخراج روکا جاسکتا ہے۔

خیال رہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ماحولیاتی تبدیلی کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے کیونکہ اس سے زمین کی گرمائش ہوتی ہے جسے سائنس کی زبان میں گرین ہاؤس ایفیکٹ کہتے ہیں۔

روایتی طور پر لاش کو دفن کرنے کے عمل میں تابوت بھی استعمال ہوتا ہے جس میں لکڑی، زمین اور دیگر قدرتی وسائل استعمال ہوتے ہیں۔

ہیومن کمپوسٹنگ کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ نہ صرف ماحول دوست متبادل ہے بلکہ وہ شہر جہاں قبرستانوں کے لیے زمین محدود ہے وہاں عملی طور پر بھی اس سے بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

ہیومن کمپوسٹنگ
واشنگٹن میں قائم کمپنی ریٹرن ہوم نے نیو یارک پوسٹ کو بتایا ہے کہ نیو یارک کی جانب سے منظوری ’ایک بڑا اقدام‘ ہے جس سے ملک بھر میں اس ماحول دوست متبادل تک رسائی حاصل ہو سکے گی۔

تاہم بعض ناقدین اس معاملے پر اخلاقی اعتبار سے سوال اٹھاتے ہیں کہ اس مٹی کا کیا ہو گا جو کمپوسٹنگ کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے۔

اطلاعات کے مطابق نیو یارک کے کیتھلک بشپ نے اس قانون کی مخالفت کی اور کہا کہ انسانی لاشوں کے ساتھ ’گھریلو فضلے جیسا برتاؤ نہیں ہونا چاہیے۔‘

اس عمل کے اخراجات بھی زیرِ بحث آچکے ہیں۔ ری کمپوز نامی کمپنی نے کہا ہے کہ وہ اس کے سات ہزار امریکی ڈالر مانگتے ہیں جو کہ دوسری کمپنیوں کے مقابلے بہت کم ہے۔ اس شعبے کی ابتدائی کمپنیوں میں سے ایک ری کمپوز سیئیٹل میں قائم ہے۔

نیشنل فیونرل ڈائریکٹرز ایسوسی ایشن کے مطابق امریکہ میں 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق ایک شخص کو دفن کرنے پر اوسطاً 7848 ڈالرز کا خرچ آتا ہے جبکہ لاش کو جلانے پر 6971 ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔

سویڈن بھر میں ہیومن کمپوسٹنگ کو قانونی حیثیت حاصل ہے اور یہ وہاں متبادل کے طور پر دیکھا جاتا ہے جبکہ برطانیہ میں قدرتی انداز میں دفن کرنے کی اجازت ہے جس میں ایک لاش کو تابوت کے بغیر یا بائیو ڈیگریڈ ایبل (ماحول دوست) تابوت کے ساتھ دفن کرنے کی اجازت ہے۔

About خاکسار

Check Also

صہیونیت مخالف طلباء تحریک، نیویارک یونیورسٹی میں اساتذہ کی ہڑتال

نیویارک یونیورسٹی کے 120 سے زائد اساتذہ نے پولیس کے ہاتھوں طلباء پر تشدد کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے