Breaking News
Home / اخبار / قومی سلامتی کے نام پر زہنی صحت اورنفسیات

قومی سلامتی کے نام پر زہنی صحت اورنفسیات

ایک خاتون زہنی صحت  کے لیے مدد حاصل کرنےخاطر، برطانیہ کے قومی ادارہ صحت (NHS) میں آئی۔ اسے خوفناک  بلاد کار کا نشانہ  بنایا گیا تھا، اور  زہنی  صحت کے ماہرین کی ٹیم اس کا اثر اس پر دیکھ سکتی ہے۔ خاتون نے اسلام قبول کرلیا   اور علاج کے دوران وہ سکارف پہنتی۔ اب یہاں  سے کلینیکل ٹیم کی بحث میں، خاتون کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے علاوہ، ایک  نیا موضوع داخل ہوتا ہے: ممکنہ انتہا پسندی  کا  خوف۔اکیسویں صدی میں، ایک نئی صنعت نے بہت زیادہ نشوونما  حاصل کی  ،  جسے ہم” قبل از جرم مداخلت ” کی صنعت کہتے ہیں۔ اس میں ایسےافراد ی شناخت  کی جاتی ہے جن سے جرم کا ارتکاب کرنے سے قبل ہی ممکنہ جرم کا خطرہ ظاہر ہوتا ہے۔

یہ صنعت،روزمرہ کی زندگی میں پیش خبر پولیس(Predictive Police) کے طور پر کام کرتے ہوئے،  پولیس کے کام کو بطور ادارہ مزید وسعت دیتی  ہے ۔ عوام کے لیے ڈیوٹی انجام دینے کے نام پر، حکومتیں نگرانی کے کام کو عمومی  بناتی ہیں اور عوامی صحت کی حکمت عملی کے لبادےمیں، انتہا پسندوں کی منیجمنٹ  اور گرفتاری کا کام کرتی ہیں۔یہ بات یاد رکھنا  بہت اہم ہے ،کہ، پرتشدد انتہا پسندی (CVE, Countering violent extremism)کے خلاف عمل کا آغاز سب سے پہلے, وسیع پیمانے پر، مسلمان اقلیتوں کو قومی سلامتی  کا معاملہ قراردیتے ہوئے،  ایک نسل پرستانہ کاروبارکے طور پر ہوا۔اس وقت سےاب تک سی-وی-ای نے،اپنی پیچیدگی اور وسعت کے لحاظ سے، خصوصی طور پر، زہنی صحت کے حوالے سے پیش رفت کی ہے۔

آج  کے دور میں، انتہا پسندی  کے خلاف جنگ میں ذہنی صحت ایک  کلیدی  اہمیت  کی حامل ہے۔ اچھا رہن سہن دو بالکل  متضاد کیفیات  کو  جنم دے سکتا ہے: یہ مبینہ انتہا پسندی  اور شدت پسندی کے لیے غیر محفوظ بھی ہوسکتا ہے اور اس  کے برعکس اس سے بچنے میں بھی مدد گار ہو سکتاہے۔ گزشتہ بیس سالوں سے مغرب میں چلی آنے والی بحث،جو غیر محفوظ اقلیتوں ،خصوصاً مسلمانوں کی سلامتی کے بارے میں ہے ، اچانک  قومی سلامتی کا سوال بن کر سامنے آگئی۔جیسا کہ نام نہاد دہشت گردی کےخلاف جنگ، عالمی مسئلہ بن گئی ہے۔

سیکورٹی اور زہنی صحت کا تعلق

زہنی صحت اور سیکورٹی کے درمیان ملاپ امریکہ اور یورپی یونین کے منصوبوں میں پایا جاتا ہے۔ یورپ میں، بالخصوص برطانیہ میں ہونےوالی کاروائیوں نےاس بات کو واضح کیا ہے کہ کیسے انتہا پسندی کے خلاف  پالیسیاں اپنے آپ کو زہنی صحت کی سروسز میں  ظاہر کرتی ہیں۔ حفاظتی حکمت عملی کو، تمام عوامی اداروں  جیسا کہ ہسپتال ہیں ، کی  زمہ داری بنا  دیا گیا ہے۔  ان کا کام ہےکہ ایسے افراد کو شناخت  کریں اور ان کےبارے میں ؑاطلاع  دیں جو انتہا   پسندی کی طرف جا سکتے  ہیں۔ انگلینڈ  نے انتہا پسندی کے خطرے  سےبچنے  کےلیے 22+(Extremism Risk Guidance ) شائع کی ، جس سے ایسے عوامل کی شناخت میں  مدد ملےگی جو انتہا پسندی کا باعث بن سکتے ہیں۔

اس سوچ کی کی نشوونما، غیر معمولی طور پر قومی سطح پر سامنے لائے گئے Vulnerability Support Hubs (VSH) میں نظر ٓاتی ہے، جوپولیس کے کام اور ذہنی صحت کے درمیان تعلق کو بے مثال طریقے سے واضح کرتی ہے۔  اگر ہم سمجھ سکیں کہ  نسل پرستی کیسے تدارک کرنے والے قوانین کےزریعے عمل میں لائی جاتی ہے-جس میں مثال کےطور پر،  آبادکاروں کے خلاف بات کرنا ، فلسطینی قبضہ کے بارے گفتگو – شامل ہیں تو ان VHSکی اخلاقی  حیثیت کے بارے میں اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ کتنے شاندار ہیں۔ سخت  قسم کی دوہری سچائیاں اس طرح ہمیں  نظر آئیں گی: ایک جانب سیکورٹی کے معنوں میں زہنی صحت کو  نظر میں رکھنا  اور دوسری جانب، نفسیاتی علم کی قومی سیکورٹی  میں در اندازی۔

زہنی صحت، نسل  پرستی کو کلر  بلائنڈ  کر دیتی ہے

زہنی صحت کی طرف تبدیلی دوسماجی حقائق سےتعلق رکھتی ہے: طویل عرصے سے آ رہےاسلامو فوبیا  کے الزامات کے نتیجے میں سی-وی – ای کی یہ خواہش کہ وہ نسل پرست نہ دکھائی دے، اور انتہائی  دائیں بازو اوریورپ میں  نسل پسند قوم پرست  سیاست کے بارے میں بڑھتی ہوئی فکر مندی۔ ان حالات  اور ان فکر مندیوں کےنتیجے میں یہ زہنی صحت کا خطبہ سی-وی-ای کے لیے کئی قابل بھروسہ کارنامے سر انجام دیتا ہے۔ پہلے تو یہ سیاسی  سوچ کو ، زہنی  صورتحال کی شکل میں سامنے لاتا ہے۔ مفروضہ طور پر،ہر وہ شخص جو نفسیاتی طور پر کسی نظریاتی  وائرس کا  شکار بننے کے لیے غیر محفوظ  ہے، انتہا پسندی کا شکار ہو سکتاہے۔ نفسیات کی بات کر کے سی-وی-ای،کلر بلائنڈ ہو جاتی ہےاور خطرے کے کی تما م مبینہ اشکال  کے خلاف ایک حفاظتی مقام پر آ جاتی ہے۔

دوسرے، یہ ریاست کو اجازت دیتا ہےکہ وہ نسل پرست مخالف اور فاشزم مخالف ایکٹوازم کو اپنے سیکورٹی آپریٹس میں شامل کرلےمفروضہ طور پر، مسلمانوں کو اب تسلی مل جانی چاہیے کہ سی-وی-ای کی حکمت عملی اب سفیدفام اکثریت  میں سے ایسے نفسیاتی غیر محفوظ عناصر کو شناخت  کرنے میں  لگی ہے جو بائیں بازو کی انتہا پسند سوچ اختیا  رکر سکتے ہیں۔حالانکہ، دائیں بازو کے برطانوی انتہا پسند افراد کی نسبت، مسلمان انتہا پسند،مبینہ اسلام پسندی کی وجہ سے، وی-ایچ-ایس کو بھیجے جانے کے بائیس گنا زیادہ امکانا ت رکھتے ہیں۔ان پیش رفتوں کو، نہ  تونسل  کےموضوع پر ہونے والی وسیع بحثوں سے اور نہ ہی ریاستی پالیسیوں کے زریعے زہنی صحت کی سہولیات سے الگ کیا جاسکتاہے۔زہنی صحت پرریاستی بیانیے کے بارےمیں تنقیدی سوچ  رکھنے  کی ضرورت ہے کیونکہ اس کا تعلق قومی سلامتی سے ہے، اور ساتھ ہی جیسا کہ ان  تعلیمی ماہرین اور  زہنی صحت کے پیشے  سے تعلق رکھنے والوں  کی تعداد آئے روز بڑھتی جارہی ہے جو اس موضوع کواپنا کیریر بنا  رہےہیں۔

About خاکسار

Check Also

تہران ٹائمز کی رپورٹ؛ ایران کی دور اندیش قیادت نے ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کر دیا

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی بصیرت نے اسلامی جمہوریہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے