Breaking News
Home / اخبار / پاکستان میں سازشی تھیوریوں کا کردار

پاکستان میں سازشی تھیوریوں کا کردار

بالآخر فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر نے دھواں دھار پریس کانفرنس کر ڈالی۔ پچھلے ایک ماہ کے دوران ملکی سیاست میں ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے بعض حلقوں کی جانب سے فوج پر گند اچھالا جا رہا تھا لیکن فوج نے خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ ممکن ہے۔ فوجی قیادت نے سوچا ہو کہ اس بارے میں اٹھائی جانے والی انگلیاں وقت کے ساتھ خود بخود غیر موثر ہو جائیں گی لیکن ایسا نہیں ہوا اسے فوج کی کمزوری تصور کیا گیا اور ایک طے شدہ پلان کے تحت حوصلہ افزائی کی گئی نہ صرف سوشل میڈیا پر فوج کے خلاف مہم چلائی گئی بلکہ کل تک فوج کے گیت گانے والی سیاسی جماعت کے جلسوں میں قابل اعتراض نعرے لگائے گئے تو پھر فوج نے بحیثیت ریاستی ادارہ اس صورت حال کا نوٹس لے لیا۔ اب تک ایسے متعدد افراد دھر لئے گئے ہیں جو سوشل میڈیا میں نا قابل برداشت مہم چلا رہے تھے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار بہت کم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بیان جاری کرنے کا شوق نہیں اس لئے جب وہ ضروری سمجھتے ہیں۔ صحافیوں کو بلا لیتے ہیں۔ پاکستان کے دشمنوں نے بھی ریٹائرڈ جرنیلوں کی جعلی وڈیوز بنا کر مارکیٹ میں فلوٹ کی ہیں۔ اس طرح پاکستان کی فوج کو بدنام کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے۔ اس وقت سیاسی مارکیٹ میں فوج کے کردار کے حوالے سے کئی افواہیں گردش کر رہی ہیں چونکہ کسی جانب سے اس کی تردید یا تصدیق نہیں ہو رہی تھی اس لئے ایک کنفیوژن کی فضا میں میجر جنرل بابر افتخار کی پریس کانفرنس سے فوج کے بارے اٹھائے جانے والے بعض سوالات کا جواب مل گیا اور کچھ کی تو بولتی بند ہو گئی ہے۔ 27 مارچ 2022 ء کے جلسہ عام میں عمران خان نے جو ایک پاکستانی سفارت کار خط لہرایا تھا جس میں ان کو آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنے پر سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکی دی گئی تھی۔ اس خط تک کسی کی کوئی رسائی نہیں تھی۔ اب تو یہ خط ”ڈی کلاسیفائی“ کر دیا گیا ہے اور واضح کر دیا گیا ہے کہ کوئی سازش نہیں تھی۔

تاہم تحریک انصاف کے حامی عناصر آئی ایس پی آر کے بیان کو عمران خان کے اس دعوے کی تائید قرار دے رہے ہیں کہ ان کی حکومت امریکی سازش کے تحت ختم کی گئی ہے۔ اس طرح اس بحث کو ایک نیا موڑ دیا جا رہا ہے کہ کیا کسی دوسرے ملک کے معاملات میں مداخلت سازش کی بنیاد پر ہی کی جاتی ہے یا کسی نام نہاد مداخلت کو سازش ہی سمجھنا چاہیے کیوں کہ دونوں کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے۔ اور اس طرح کے ہتھکنڈوں سے کسی ملک کی سیاسی حکومت کو کمزور کر کے کوئی ہمدرد حکومت قائم کرنا مقصود ہوتا ہے۔

یہ طرز گفتگو حجت یا دلیل برائے دلیل کی حد تک تو درست تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ اس دلیل کے حق میں قومی سلامتی کمیٹی کے اس اجلاس کے اعلامیہ کا حوالہ بھی دیا جاسکتا ہے جس کا ذکر کرتے ہوئے میجر جنرل بابر افتخار نے سازش کے نظریہ کو مسترد کیا ہے۔ البتہ سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جس میں پاک فوج کی اعلیٰ قیادت بھی شریک تھی، جو اعلامیہ جاری ہوا تھا اس میں کہا گیا تھا کہ اجلاس میں پاکستان کے ’اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت‘ کو مسترد کرتے ہوئے امریکہ کو احتجاجی مراسلہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ کہتے ہیں کہ اس قسم کے احتجاجی مراسلے متعدد سفارتی معاملات پر بھیجے جاتے ہیں اور اسے ملکی معاملات میں براہ راست مداخلت یا سازش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیوں کہ ان کے بقول افواج پاکستان ملک کے خلاف کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گی۔

 جس سفارتی مراسلہ کے بارے میں یہ ساری گفتگو کر کے سازش یا بیرونی مداخلت کا پہاڑ کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس کی حقیقت کا چند لوگوں کے سوا کسی کو علم نہیں ہے۔ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ موجودہ حکومت یہ مراسلہ عام ملاحظے کے لئے شائع کرنے کا فیصلہ کر لے تو بھی یہ واضح نہیں ہو گا کہ سفیر اسد مجید اور امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ ڈونلڈ لو کے درمیان ہونے والی ملاقات میں درحقیقت کیا بات چیت ہوئی تھی۔ اسد مجید کے مراسلہ میں کس حد تک ڈونلڈ لو کے کہے ہوئے الفاظ درست تناظر میں درج کیے گئے تھے اور کہاں تک انہوں نے اپنی رائے یا تجزیہ کو مراسلہ کے متن میں شامل کیا تھا۔ جب تک اس مراسلہ کا مناسب تجزیہ نہ کیا جائے اور سفیر اسد مجید حلفاً ان باتوں کی تائید نہ کریں جو عمران خان نے اس مراسلہ کے حوالے سے پھیلا کر عوامی مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے، اس وقت تک ان دعوؤں کو سیاسی بیان بازی اور مہم جوئی سے زیادہ اہمیت نہیں دی جا سکتی۔ اس معاملہ میں امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اور عالمی سطح پر پاکستانی سفیروں کا بھروسا و اعتبار داؤ پر لگا ہے، اس لئے کسی بھی ذمہ دار شخص کو ایک حکومتی اہلکار و محکمہ کے درمیان ہونے والی حساس مواصلت کو سیاسی داؤ پیچ کا حصہ نہیں بنانا چاہیے۔ عمران خان اور تحریک انصاف نے اس مراسلہ کی بنیاد پر سازش کا جو خوفناک تصور پیش کیا ہے وہ زمینی حقائق سے تیار ہونے والی تصویر کا پرتو نہیں ہے۔

سفیر اسد مجید کا مراسلہ ملنے کے بعد وزارت خارجہ یا وزیر اعظم ہاؤس کی طرف سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ نہ ہی امریکہ سے احتجاج کیا گیا۔ بلکہ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بھی 27 مارچ کے جلسہ میں سازشی مکتوب کا اعلان کرنے کے بعد طلب کیا گیا تھا۔ اس وقت پاکستانی میڈیا اور ماہرین کی طرف سے اس خط کی حقیقت اور متعلقہ اداروں میں اس پر بحث کے حوالے سے سوالات اٹھائے جا چکے تھے۔ ان میں سب سے اہم یہی سوال تھا کہ حکومت نے کسی غیرملکی دھمکی کے بعد فوری طور سے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس کیوں طلب نہیں کیا؟ اگر اس صورت حال پر عمران خان یا ان کے حامیوں کے طرز استدلال میں بات کی جائے تو پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا عمران خان کی حکومت کے کچھ عناصر بھی اس ’غیر ملکی سازش‘ کا حصہ تھے کہ اس پر رد عمل دینے میں تین ہفتے انتظار کیا گیا حالانکہ حکومت کو خطرہ لاحق تھا اور قومی اسمبلی میں اکثریت وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد پر متحد ہو چکی تھی؟

ملکی معاملات میں کسی دوسرے ملک مداخلت یا اس تاثر کے بعد کہ حکومت کو قومی مفاد داؤ پر لگتا دکھائی دے رہے تھا تو وزارت خارجہ نے کیوں امریکی سفیر کو طلب کر کے اس اہم معاملہ پر بات نہیں کی اور حکومت کا احتجاج رجسٹر نہیں کروایا؟ بلکہ اس معاملہ کو اب عمران خان جس طرح قومی آزادی و خود مختاری کا معاملہ بنا کر پیش کر رہے ہیں تو انہیں یہ جواب بھی دینا چاہیے کہ وہ بطور وزیر اعظم اسے اپنی ذات پر حملہ ہی کیوں سمجھتے رہے اور اسے قومی مفاد کے برعکس کارروائی سمجھ کر متعلقہ ملک کے سفیر کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دینے کا اقدام کیوں نہیں کیا گیا۔واضح رہے کہ اب توامریکا میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی نے کہا ہے کہ عمران خان کی خارجہ پالیسی میں ایسی کوئی چیز نہیں تھی کہ امریکا اتنا خفا ہوگیا ہو کہ وہ سازش کرے۔انہوں نے کہا کہ سازش اور مداخلت میں فرق ہوتا ہے، سفارتی مراسلوں میں سخت زبان استعمال ہوجاتی ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ سازش ہورہی ہے۔

About خاکسار

Check Also

حماس نے صہیونی خفیہ ادارے تک کیسے رسائی حاصل کی، صہیونی اخبار کا تہلکہ خیز انکشاف

صہیونی اخبار کے مطابق حماس صہیونی خفیہ اہلکاروں اور جاسوسوں کے ٹیلی فون ٹیپ کرتی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے