Breaking News
Home / اخبار / احتجاجی سیاست کے موسم کی واپسی

احتجاجی سیاست کے موسم کی واپسی

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے مئی کے آخری ہفتے میں اسلام آباد میں لانگ مارچ کی کال دیدی۔ کہتے ہیں کہ صرف پی ٹی آئی کارکنوں کو نہیں تمام پاکستانیوں کو کال دے رہا ہوں۔تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے فارغ ہونیوالے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے حکومت کیخلاف مئی کے آخری ہفتے میں لانگ مارچ اور اسلام آباد آنے کا اعلان کردیا۔ عمران خان نے کہا کہ صرف تحریک انصاف کو نہیں تمام پاکستانیوں کو کہتا ہوں کہ چاند رات کو جھنڈے لے کر نکلیں اور پوری دنیاکو بتادیں کہ پاکستانی ایک زندہ قوم ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ہمارا اگلہ لائحہ عمل پوری تیاری ہوگی اسلام آباد مارچ کی، میرا ایمان ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب بڑا مجمع جمع ہوگا، عوام کا سمندر اسلام آئے گا اور بتائے گا کہ آئندہ کبھی کوئی بیرون ملک ہمارے اوپر کرپٹ ٹولے کو مسلط نہیں کرسکے گا، پاکستان کا فیصلہ پاکستانی عوام کریں گے۔

تحریک  انصاف نے گذشتہ دس سالوں میں پرانا نظام بدلنے کے نام پر احتساب کے جھوٹے نعرے کو مزید تقویت دی اور تبدیلی کے نام پر سیاست کے مثبت رجحانات اور تبدیلی کے ارتقائی عمل جوکہ مشکل سے شروع ہوا تھا، اسٹیٹس کو کے اصل نقاب پوش قوتوں کا مہرہ بن کر پیچھے کی طرف مڑنا شروع کیا لیکن اس کو نام تبدیلی کا دیا۔ اس مقصد کیلئے ان کو کھلا اور صاف میدان فراہم کیا گیا لیکن اس کے باوجود وہ سیاست اور حکمرانی میں بری طرح ناکام ہوا۔ مگر اس کے نتیجہ میں جو منفی ذہنیت اور سیاسی آلودگی پیدا کی گئی، وہ اب ریاست وسیاست کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ پی ٹی آئی نے اب ایک پارٹی یا تنظیم کے بجائے ایک جھتے کا روپ دھار لیا ہے اور گوریلا سیاست شروع کر دی ہے۔ اب اس نے یہ روش اپنائی ہے کہ جہاں پر سیاسی مخالف یا مخالفین کو سیاست کے میدان سے ہٹ کر نجی، سماجی یا مذہبی سرگرمی میں حصہ لینے کا یا موجودگی کا امکان ہو، وہاں اپنے جھتے بھیج کر اس پر حملہ آور ہوا جائے۔

اگر 1990ء کی دہائی میں نواز شریف ‘ڈیکٹیشن نہیں لونگا’ والی تقریر نہ کرتا، بعد میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں آصف زرداری اور ان کے اتحادی اٹھارویں آئینی ترمیم پاس کرنے پر بضد نہ ہوتے، اس کے بعد اگر نواز شریف اس کو برقرار رکھنے اور ایک ادارے کو منہ مانگا بجٹ دینے سے انکار نہ کرتا، تو اول نہ تحریک انصاف بنتی اور نہ بعد میں دھرنے ہوتے اور نہ اس کے نتیجہ میں عمران خان وزیراعظم بنتا۔ عمران خان نے اداروں کے خلاف بلاواسطہ مہم جوئی تب شروع کی جب ان کے ہاتھ سے حکومت چلی گئی لیکن ان اداروں کی سیاست میں مداخلت کے بارے میں عمران ایک لفظ بھی نہیں بولتا کیونکہ اس مداخلت کے نتیجہ میں تو وہ حکومت میں آیا تھا، اب ان کا اعتراض ان کے حق میں مداخلت جاری نہ رکھنے پر ہے۔

عمران خان کا 2014ء کے دھرنے میں یہ نعرہ تھا کہ 2013ء کے عام انتخابات میں منظم دھاندلی ہوئی جس کی بدولت نواز شریف وفاق اور پنجاب میں اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے۔ اس وقت عمران خان کا بنیادی بیانیہ ‘عام انتخابات میں دھاندلی’ تھا۔ ان دنوں دھاندلی پر مبنی بیانیہ ان کا بنیادی موقف تھا۔ نواز شریف کے لئے اس قسم کا دھرنا نیا تھا جہاں امپائر عمران خان کے ساتھ تھے اور عمران خان کو میڈیا کی بھی زبردست حمایت حاصل تھی اور نوجوان نیا پاکستان بنانے کے لیے بہت پرجوش تھے جو پوری مہم کا بظاہر حتمی مقصد تھا۔ حالانکہ بعد میں یہ صرف ایک خیالی نعرہ ثابت ہوا۔ اے پی ایس کے واقعہ اور پانامہ کے بعد نواز شریف سیاسی طور پرقدرے کمزور دکھائی دیے جس کی جھلک ان کے سیاسی اقدامات سے عیاں تھی۔

عمران خان نے اپنی حکومت کے پونے چار سال بدترین معاشی بحران کا ذمہ دار پچھلی حکومت کو ٹھہراتے ہوئے گزارے۔ وہ بار بار اس بیانے کو استمال کرتے تھے کہ ہمیں پچھلی حکومت سے مکمل طور پر تباہ معیشت ملی ہے۔ تقریباً ہر معاملے پر یہی جواب سننے کو ملتا تھا۔ اپریل 2022ء میں جب امپائر غیر جانبدار ہو گئے تو عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کیا گیا جس پر عمران خان بیرونی سازش کا واویلا کرتے ہوئے اپنے کارکنان کو دھرنے کے لئے کال دے رہے ہیں۔

لیکن اس بار صورتحال بالکل مختلف ہے۔ اس بار امپائر غیر جانبدار ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ انہیں پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹیم کے ذریعے نیوٹرل ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ دوسری اہم بات یہ کہ شہباز حکومت کو متحدہ سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔ تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہ اب مسلم لیگ (نواز) جانتی ہے کہ اس دھرنے سے کیسے نمٹا جائے کیونکہ اب ان کے پاس سابقہ تجربہ موجود ہے۔ آخر میں اس بار عمران خان یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ وہ کبھی حکومت میں نہیں رہے اور نہ ہی وہ کسی کرپشن میں ملوث ہیں کیونکہ ان کی حکومت کے بہت سا رے کرپشن کے سکینڈلز آنے والے ہیں۔ غیر ملکی فنڈنگ کیس تو بس ایک نمونہ ہے، ابھی آ گے دیکھیے ہوتا ہے کیا!

About خاکسار

Check Also

ایران کی جانب سے متعدد امریکی شہریوں اور اداروں پر پابندی عائد

ایران کی وزارت خارجہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور خطے میں امریکی دہشت …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے