Breaking News
Home / اخبار / دائیں بازو کی جارحیت: امریکہ کے لیے داعش اور القاعدہ سےبھی بڑا خطرہ

دائیں بازو کی جارحیت: امریکہ کے لیے داعش اور القاعدہ سےبھی بڑا خطرہ

ایف بی آئی کے تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق  2018 میں امریکہ میں  قید کی زیادہ ترسزائیں ان جرائم میں دی گئیں جو دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتے حالانکہ مقبول عام تصور یہ   ہے کہ ملک کو القاعدہ اور داعش جیسے گروہوں سے زیادہ خطرہ ہے۔یہی اعدادوشمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ قانو ن  نافذ کرنے والے مقامی اور وفاقی  اداروں نے بین الاقوامی دہشت گرد  گروہوں سے مبینہ تعلق رکھنے والوں کی نسبت زیادہ تر ان مشتبہ لوگوں  کو گرفتار کیا جن کا تعلق انتہا پسند دائیں بازو سے بنتا ہے۔ یا پھرجیسا کہ ایف بی آئی نے اسے  اندرونی دہشت  گردی کے نام سے تعبیر کیا ہے۔

‘ اندرونی دہشت گردی ‘  ایک امتیازی  محاورہ  ہے ان  مجرموں کی  کی شناخت کے لیے جو نسلی وجوہا ت  کی بنا پر آمادہ  تشدد ہوتے ہیں۔یہ پہلا موقعہ ہےکہ ایف بی آئی نے انتہا پسند دائیں بازو کے تشدد کو ملک کے لیے غیر ملکی دہشت گر د گروہوں کی نسبت زیادہ بڑا خطرہ  قرار دیا ہے۔انتہا پسندی پر انٹی ڈیفے میشن لیگ (Anti- Defamation League)  کے  مرکزی دفتر کے مطابق، 2008 سے 2017 کے دوران،  انتہا پسندی سے متعلقہ  71 فی صد ہلاکتیں  سفید فام نسل پرستوں کے ہاتھوں ہوئی ہیں جبکہ  26      فی صد ہلاکتوں کی زمہ دار القاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیمیں ہیں ۔

, The story of America’s Most secretive Religion’  Inside Scientology’ کے مصنف جینیٹ ریٹ مین جو  9/11 کے بعد کے امریکہ میں  دائیں بازہ کے  ابھار پر  بھی ایک کتاب لکھ رہے ہیں نے کہا ہے کہ’سفید فام نسل پرستوں اور  انتہا پسند دائیں بازو  والوں نے ستمبر 2001 کے بعد اندرونی  انتہا پسندی کی کسی بھی قسم  کے مقابلے میں زیادہ لوگوں کو قتل کیا ہے۔2017  میں  انتہا پسندی سے متعلق   65 واقعات ہوئے ہیں جن میں 95 افراد قتل ہوئے ،  جبکہ اسلام سے تعلق رکھنےوالے انتہا پسندوں نے صرف سات حملے کیے جو کہ امریکہ میں ہونے والے حملوں کا دس فی صد ہیں یا اس سے کچھ ہی زیادہ  ۔اس کے مقابلے میں دوسرے بائیں بازو او دائیں بازو  کا تشدد ان حملوں  کا 80 فی صد سے زیادہ بنتا ہے۔

بہرحال  یہ دکھائی دیتا ہے  امریکی  قانون نافذ کرنے  والے اداروں نے حال ہی میں نتہائی دائیں  بازو کی تحریک کی جانب سے ہونےوالے تشدد کی جانب اپنی توجہ مبذول کر دی ہے۔“ یہ وہ تشدد ہے جس ر ہماری توجہ ہے” ایف بی آئی کے  ایک نامعلوم  سینئیر آفیسر  جس نے  یہ اعدادو شمار افشا کیے، نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا۔” اور بعض  اوقات یہ  تشددہی  ہوتا  ہے  جو کسی بھی دوسرے مخصوص نظریے کی نسبت  ایک  آدمی کو زیادہ  آمادہ بر  عمل کر لیتا ہے۔”ستمبر 2017 میں ایف بی آئی ڈائریکٹر  کرسٹوفر   – اے – رے نے سینیٹ کو بتایا کہ  وفاقی قانونی ادارہ اس وقت سفید نسل پرستوں  اور  کئی  دوسرے مقامی انتہا پسند گروپوں سے متعلقہ ایک ہزار سے زیادہ کیسز کی تحقیق کر  رہا ہے جو امریکہ میں حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔

” ہم بہت مصروف  ہیں  "رے نے یو ایس سینیٹ میں سینیٹ ہوم لینڈ سیکورٹی’ اورحکومتی معاملا ت کی کمیٹی’ کے ایک اہم  قانون ساز ممبر کو   بتایا ۔ایف بی آئی کے واشنگٹن پوسٹ کو دئیے  گئے اعدادوشمار کے مطابق  2017 میں تیس ایسے افراد   جو داعش اور القاعدہ کےلیے کام کرنے کے مرتکب تھے ان پر دہشت گردی  کا مقدمہ بنایا  گیا۔ایف بی   آئی کے اس ڈیٹا کے مطابق ، اسی سال ایف بی آئی نےکم از کم  ایک سو پچاس   ایسے مشتبہ افراد کو گرفتار کیاجن پر  مقامی دہشت گردی  کا الزام تھا۔ 2018 میں  مسلم تعلق  کے حامل دہشت گردی کے الزمات کا سامنا کرنے والوں کی تعداد نوتک گر گئی۔جبکہ دوسری جانب اسی سال مقامی  دہشت  گردی کے الزامات میں مشتبہ  120  افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ڈونالڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے وقت سے ٹرمپ کے حامی اور مخالفین  کے درمیان پر تشدد  تصادم ہو رہے ہیں۔جولائی 2017   میں  شارلٹس ول ورجنیا میں ‘نیو نازی گروپ نےجنوبی ریاستوں  کےامریکی  سول وار ہیروز کے مجسموں کی متنازعہ حیثیت کے بارے میں بائیں باز و کے مظاہرین کے ساتھ تصادم کیا ۔ اس  تصادم کا نتیجہ بائیں بازو کے مظاہرین میں سے ایک شخص کی ہلاکت کی صورت میں نکلا ۔

 وامدک ڈی۔وولکن  نے جو ایک مشہور ترک – امریکی ماہر نفسیات ہیں، ٹی آر – ٹی ورلڈ کو  گزشتہ اپریل  ایک تفصیلی انٹر ویو میں بتایا تمام سفید فام نسل پرست اور نیو نازی پورے امریکہ کو دوبارہ  ( ٹرمپ کے جیتنے کے بعد )سفید بنانا چاہتےہیں   ۔شارلٹ ول کے واقعے نے ماہرین کو  اس کے مضمرات  کے بارے خوف زدہ کر دیا۔   سی –جے  ورلیمین جو تصادم  اور دہشت گردی’ کے موضوع   کے لکھاری اور ایک تجزیہ کار ہیں  نے لکھا  دہشت گردی کی اگلی لہر ہمارےسامنے ہے، اور یہ وہ  لہر ہے جس میں  انتہا پسند قوم پرست  طےشدہ منصوبے   کےتحت  مسلمانوں پر  تشدد کریں گے”” ماضی میں ایک ٹرمپ پرست رجعت پسند  نے اکیلےہی کوبے  شہرکی ایک مسجد میں کینیڈین مسلمانوں کو زبح کردیا ، جبکہ منی سوٹا   میں   سفید قوم پرستوں نے ا یک مسجد پر اس وقت بم پھینکے جب بیس عبادت گزار مسجد کے اندر تھے  اور لندن میں بائیں بازو کے انتہا پسند پروپیگنڈے سے متاثر   ایک شخص   اپنی  وین چلاتے ہوئے فنس بری پارک مسجدکے اندر اس ارادے کے ساتھ لے گیا  کہ زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو مار سکے” ورلیمن نے بتایا ۔۔

About خاکسار

Check Also

امریکہ رو بزوال، امن معاہدہ بے سود ہے، سربراہ انصار اللہ

یمنی مقاومتی تنظیم کے سربراہ نے کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ کسی قسم کا …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے