Breaking News
Home / اخبار / تحریک طالبان مذاکرات اور خدشات

تحریک طالبان مذاکرات اور خدشات

افغان طالبان کےترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے پاکستان اورکالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کے درمیان کابل میں دو دن قبل مذاکرات مکمل ہوگئے ہیں۔ جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہدکا کہنا تھا کہ پاکستان اور ٹی ٹی پی میں دو دن قبل مذاکرات مکمل ہوئے ہیں، ہوسکتا ہےکہ اس بار مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچ جائیں۔ ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی میں مذاکرات کےلیے ہمارا کردار ثالث کا ہے، مذاکرات ناکام ہوئے تو کسی کو افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کرنے دیں گے۔

دوسری جانب بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری کی زیرِ صدارت پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک حالیہ اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے مسئلے کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا جائے اور اس بارے میں جو بھی پالیسی اور مقصد متعین کیا جائے اسے تمام سٹیک ہولڈرز کی متفقہ حمایت حاصل ہو۔ اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ پیپلز پارٹی اس مقصدکیلئے باقی تمام سیاسی جماعتوں سے رابطہ پیدا کرے گی۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ پی پی پی کی طرف سے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے اور نہ ہی پی پی پی واحد حلقہ ہے جس کی طرف سے اس قسم کے خدشات ظاہر کیے گئے ہیں‘ پاکستان میں دیگر حلقوں خصوصاً سول سوسائٹی اور میڈیا کی طرف سے بھی حکومت اور ٹی ٹی پی کے مابین مذاکرات پر پوری شفافیت اور آئین کی پاسداری کا مطالبہ کیا جا چکا ہے۔ اس کی ایک وجہ ماضی میں کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ پاکستانی حکام کی بات چیت اور اس کے نتیجے میں ہونے والے معاہدوں کا تجربہ ہے‘ جو بدقسمتی سے زیادہ خوشگوار نہیں رہا۔

2004ء میں نیک محمد کے ساتھ معاہدے کے بعد اس تنظیم کے ساتھ حکومت پاکستان نے درجن بھر جنگ بندی اور قیام امن کے معاہدے کیے تھے‘ لیکن ہر معاہدے کے بعد ٹی ٹی پی نے پہلے سے زیادہ توانا ہو کر نہ صرف سکیورٹی فورسز اور حساس اداروں بلکہ بے گناہ شہریوں اور سیاسی مخالفین کو بھی اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔ اب تک ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا جو سبق حاصل ہوا ہے‘ اس کے مطابق ٹی ٹی پی نے ہر معاہدے کو حکومتِ پاکستان سے زیادہ سے زیادہ رعایات حاصل کرنے اور اپنی تنظیم کو مضبوط بنانے کیلئے استعمال کیا۔

مذاکرات کے موجودہ سلسلے کے بارے میں بھی اس قسم کے خدشات اس لیے ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ ان میں ٹی ٹی پی نے اپنے موقف میں ذرہ برابر لچک دکھائے بغیر اہم اہداف حاصل کر لیے ہیں۔ سب سے اہم کامیابی یہ ہے کہ ایک کالعدم تنظیم ہوتے ہوئے اور پاکستان کے آئین اور سیاسی نظام کو تسلیم نہ کرتے ہوئے بھی اس نے حکومت پاکستان کے ساتھ برابر کا فریق ہونے کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔ اس کے علاوہ اس نے اپنے اہم اور سرکردہ رہنمائوں‘ جو دہشتگردی اور مختلف جرائم کے الزام میںجیلوں میں بند تھے‘ کو رہا کرا لیا ہے۔ ٹی ٹی پی نے افغان طالبان کی وساطت سے مذاکرات کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے‘ اس میں یہی سب سے بڑا مطالبہ تھا۔ اس کے بدلے میں پاکستان نے کیا حاصل کیا؟ جنگ بندی‘ جسے ٹی ٹی پی یقینی طور پر اپنی صف بندی کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کرے گی۔

گزشتہ کئی ماہ سے جاری ان مذاکرات میں سول اور عسکری حکام کے علاوہ پچاس رکنی جرگے کی شرکت کے باوجود ٹی ٹی پی نے اپنے موقف میں کوئی لچک پیدا نہیں کی اور وہ بدستور اپنے مطالبات یعنی کے پی میں فاٹا کے انضمام کو ختم کرکے شمالی قبائلی علاقہ جات کی سابقہ حیثیت کی بحالی اور ان علاقوں میں اپنی مرضی کا سیاسی‘ سماجی اور قانونی نظام نافذ کرنے پر مصر ہے۔ ٹی ٹی پی کے یہ مطالبات نہ صرف ملک کے آئین کے منافی اور ریاست پاکستان کی سالمیت کے خلاف ہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف مہم میں ہماری فوج اور پولیس کے علاوہ عام شہریوں نے جان و مال کی جو قربانیاں پیش کی ہیں‘ ان سے بھی صریح انحراف کے مترادف ہیں۔

مزید برآں ان مذاکرات میں سابقہ قبائلی علاقوں کے منتخب نمائندوں کو یکسر نظر انداز کیا گیا۔ جن سے کئی سوالات جنم لے رہے ہے۔ کیونکہ اس وقت سابقہ قبائلی علاقوں کے حقیقی نمائندے ایم این ایز، سینٹرز اور ایم پی ایز ہیں۔ جن کا اصل کام قانون سازی کرنا ہے۔ لیکن ان مذاکرات میں عوام کے حقیقی نمائندوں کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ تحریک طالبان پاکستان کا اہم مطالبہ ہے، کہ 2018 کے اس قانون کو ختم کر دیں جس کے تحت سابقہ ​​قبائلی علاقوں کو بندوبستی خیبرپختونخوا میں شامل کیا گیا تھا۔ فاٹا کو برطانوی راج سے ایف سی آر جیسے ظالمانہ نظام کے تحت چلایا جا رہا تھا۔ جس کا خاتمہ 2018 میں ہو گیا تھا۔ یہ وہی مطالبہ ہے۔ جو تحریک طالبان پاکستان کے روحانی پیشوا مولانا فضل الرحمان بھی کر رہے ہیں۔ ایک طرف شریعت کے دعویدار تو دوسری طرف عوام کو ان کی بنیادی حقوق سے محروم کرنا کون سی خدمت ہے۔

کیا سابقہ قبائلی علاقوں کے بارے میں اتنے اہم فیصلے میں علاقے کے حقیقی منتخب نمائندوں کی نظر اندازی سے کوئی حل ممکن ہے؟ ٹی ٹی پی یہ بھی چاہتی ہے کہ پاکستانی فوجیوں کو سابقہ قبائلی علاقوں سے نکالا جائے، ٹی ٹی پی کے تمام جنگجوؤں کو حکومتی حراست سے رہا کیا جائے اور ان کے خلاف تمام قانونی مقدمات کو منسوخ کیا جائے۔ ان تمام مطالبات کا تعلق قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے متعلق ہے۔ ویسے قیام پاکستان کے تحت قبائل سے معاہدہ کیا گیا تھا کہ ان علاقوں میں فوج کی مداخلت نہیں ہوگی۔ ایف سی فرنٹیئر کور قبائلی علاقوں کی نگرانی کرے گی۔

تاہم تحریک طالبان پاکستان کے رہنما مختلف مقامات میں ملوث ہیں۔ جیسے آرمی پبلک اسکول پشاور، باچا خان یونیورسٹی حملہ کیس۔ ان جیسے دہشتگردی کے مقدمات کا خاتمہ کیسے ممکن ہو گا؟ یہ مذاکرات ایسے دور میں ہو رہے ہے۔ جب پاکستان سیاسی عدم استحکام سے دو چار ہے۔ جب ملک میں مزاحمتی تحریک زوروں پر ہے۔ لیکن لہذا ان حالات میں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات کے نہ صرف مثبت نتائج مشکل ہیں بلکہ عوام کو قابل قبول نہیں ہوں گے۔

About خاکسار

Check Also

رفح پر صہیونی حملوں کے ساتھ عراقی مقاومت کے اسرائیل پر حملوں میں شدت

رفح پر صہیونی فورسز کی جانب سے باقاعدہ حملوں کا اعلان ہوتے ہی عراقی مقاومت …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے