Breaking News
Home / اخبار / میکرون اور مراکش کے درمیان تعلقات پست ترین سطح پر کیوں آگئے ہیں؟

میکرون اور مراکش کے درمیان تعلقات پست ترین سطح پر کیوں آگئے ہیں؟

ابھی حال ہی میں یہ اطلاع ملی تھی کہ ویگنر کے کرائے کے سپاہی برکینا فاسو کی حکومت کے لیے کام کر رہے تھے، جو مغربی افریقہ میں ایک فرانسیسی زیر اثر ملک ہے جو شاذ و نادر ہی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنتا ہے، یقیناً مرکزی دھارے کے انگریزی زبان کے پریس میں تو بالکل نہیں۔ اس  خبرنے مغرب کو خوفزدہ کرنا شروع کر دیا ہے، گھانا کی حکومت کا توذکر ہی کیاجو انہیں ایک ممکنہ خطرہ سمجھتی ہےاور جیسا کہ لندن اور واشنگٹن کو ایسا لگتا ہے کہ فرانس اپنی سابقہ ​​کالونیوں میں اپنا اثر و رسوخ کھو رہا ہے اور یہ کہ  لامحالہ روس اس کی جگہ لےلے گا۔

ان کا فکر مند ہونا درست ہے۔ مالی کے زوال اور برکینا فاسو میں روسی امداد کی طرف منتقلی کے ساتھ، آہستہ آہستہ، یہ پہلے سے ہی ہو رہا ہے۔ تمام نظریں اب اس مغربی افریقی ریاست پر ہیں کہ آیا یہ ہر ممکنہ طریقہ  اختیار کرتے ہوئے ایلیسی(فرانسیسی پریزیڈنسی) کے ساتھ تعلقات توڑ دے گی، حالانکہ بہت سے لوگ یہ استدلال کریں گے کہ اگرچہ یہ رسمی طور پر نہیں ہوا ہے،لیکن بہت سے طریقوں سے یہ ہو چکا ہے۔ اس نے اپنے پڑوسی مالی کی درسی کتاب کی طرح کی پیروی کی جس کی فوجی جنتا نے پہلے دن سے میکرون کے ساتھ جھڑپیں کیں۔ فرانسیسی میڈیا پر حزب اختلاف کے بارے میں رپورٹنگ کرنے پر پابندی لگا دی گئی تھی (جسے فوجی یاجنٹا حکومتوں کی طرف سے ہمیشہ ‘دہشت گرد’ کہا جاتا ہے)، اس کے بعد فرانسیسی فوج کو نکال دیا گیا۔

مالی کے معاملے میں، پہلے یہ فرانسیسی فوجی تھے، پھر میڈیا، پھر این جی اوز۔ برکینا فاسو کے معاملے میں، این جی اوز اور فرانسیسی دستے اب بھی بہت کم تعداد میں موجود ہیں لیکن موجودہ جنتا کی طرف سے حالیہ عصبیت کو دیکھتے ہوئے جنہوں نے صرف چند ماہ قبل ہی اقتدار پر قبضہ کیا تھا اور ان کے افسران کا یقین ہے کہ یہ فرانسیسی ہی ہیں جو سابقہ لیڈروں کی حمایت کر رہے ہیں۔ اب یہ صرف وقت کی بات ہے اس سے پہلے کہ اواگاڈوگو میں اشرافیہ مالی کی مثال پر عمل کرے۔

پیرس کوسونے کے 50 فیصد ذخائر؟

جب ایسا ہوگا، تو برکینا فاسو کو ایک بار پھر CNN اور BBC پر نمایاں کیا جائے گا ،  افریقہ کے بارے میں ایک نئی کہانی کے طور پر کہ کیسےبعد از نوآبادیاتی عہد میں  افریقہ فوجی طرزحکمرانی سے آگے نہیں بڑھ پا رہا۔ اس کے باوجود اس فرانسیسی افریقی بغل  بچہ ریاست نے ابھی حال ہی میں شہ سرخیوں میں جگہ بنائی جب نئے اطالوی وزیر اعظم کا ایک ویڈیو کلپ وائرل ہوا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ فرانسیسیوں نے اس کے سونے کے ذخائر کا 50 فیصد "لیا” اور اس کے نتیجے میں ایسے  تارکین وطن پیدا کرنے والے ملک کو غلام بنا لیاجونتیجتا”، بالآخر کشتیوں میں بیٹھ کر اٹلی میں  پناہ کی تلاش کرتے ہیں۔

درحقیقت، وزیر اعظم جارجیا میلونی کے دلائل بڑی حد تک غلط تھے۔ فرانس اصل میں برکینا فاسو کا کوئی بھی سونا اپنے پاس نہیں رکھتا ہے، لیکن وہ اسکی معیشت پر کچھ کنٹرول رکھتا ہے – اور بہت سے دوسرے مغربی افریقی فرانکوفون ممالک کی طرح – فرانسیسی قائم کردہ کرنسی، جسے آج بڑی حد تک نوآبادیاتی یادگارکے طور پر سمجھا جاتا ہے کے ذریعےان ممالک کے گلے میں رسی ڈالے رکھتا ہے۔

میلونی کا بیان غلط ہے، لیکن اس کی دلیل بہترہے۔ اگر یہ ممالک فرانس کے طوق اور ایلیسی کے ساتھ اس کے نوآبادیاتی تعلقات کو توڑ سکتے ہیں، تو ان کے پاس سیاسی اور اقتصادی طور پر ترقی کرنے کا بہتر موقع ہو سکتا ہے۔

اگر برکینا فاسو اپنے ملک سے فرانسیسی فوجیوں کو نکالنے کے لیے اگلا قدم اٹھاتا ہے اور حمایت کے لیے روس کی طرف مزید دیکھتا ہے، تو اس بات کا حقیقی خطرہ ہے کہ دیگر فرانکوفون افریقی ریاستیں اس رجحان کی پیروی کریں گی اور فرانس – اور مغرب – کم از کم آدھے افریقہ سے باہر ہو جائیں گےاس طرح کا خروج بے مثال ہوگا اور اسے ‘عظیم ری سیٹ’ کے حصے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس کے بارے میں ہم سب سنتے رہتے ہیں۔ لیکن جیتنے والے بھی موجودہیں اور ہارنے والے بھی۔

اور کیا اس منظر نامے میں کیا مغرب مکمل طور پر شکست تسلیم کرلے گا؟

مراکشی سمبندھ

یہ وہ جگہ ہے جہاں مراکش آتا ہے۔ ابھی حال ہی میں، میکرون نے ایک وزیر کو رباط بھیجا تاکہ وہ مراکشیوں کے ساتھ کام کرے اور جنوری میں، بادشاہ کی طرف اسکے دورے کے لیےراستہ ہموارکرے۔ میکرون اور مراکش کے درمیان نتیجہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ امیگریشن پر اول الذکر کے سخت موقف پر مبنی ہے۔ درحقیقت، یہ میکرون کی مغربی صحارا سے رباط کے دعووں پر واضح موقف اپنانے میں ناکامی پر مبنی ہے۔ میڈیا نے رپورٹ کیا کہ تعلقات اس وقت بحال ہوئے جب وزیر نے مراکش کے وزیر خارجہ کے ساتھ ‘گرم جوش مصافحے’ فوٹو شوٹ کیا اور اعلان کیا کہ سب ٹھیک ہے۔ لیکن یہ اصل کہانی نہیں ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ رباط میں اشرافیہ میکرون اور فرانس کو پرانی بیماری سمجھتی ہے۔ برکینا فاسو اور مالی کو بھول جائیں۔ پورے براعظم میں کوئی بھی فرانسیسیوں کے ساتھ مراکشیوں سے زیادہ تھکا ہوا نہیں ہے کیونکہ ایلیسی کے ساتھ ان کے خصوصی تعلقات نے آخر میں انہیں درد شقیقہ اور ’صبح کے بعد‘والے پچھتاوے کے مستقل احساس کے سوا کچھ نہیں دیا۔

رباط کی اشرافیہ دنیا میں مکمل طور پر ’غیروابستہ‘ رہنا پسند کرے گی اور اپنے آپ کو کسی بھی Raft of Medusa (میڈوسا کی دیومالائی  کہانی پر بنائی گئی انیسویں صدی کی پینٹنگ جو متفرق انسانی احساسات کا تاثر دیتی ہے جس میں خوف، ناامیدی، وحشت اور مایوسی وغیرہ شامل ہیں)سے جوڑنا نہیں چاہے گی، چاہے وہ یورپی یونین ہو، امریکا، روس یا حتیٰ کہ اس کے سابق نوآبادیاتی آقا، فرانسیسی۔ حقیقت، اگرچہ، برکینا فاسو کے برعکس ہے، جو اب بھی فرانسیسی امداد پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، مراکش کے باشندے کاسابلانکا میں فرانسیسی سرمایہ کاری کی حد سے واقف ہیں اور اس لیے وہ پیرس سے منسلک ہیں، چاہے وہ اسے پسند کریں یا نہ کریں۔ لیکن مراکش میں فرانسیسی فرموں کے ساتھ یہ رابطہ ممکن ہے کہ میکرون کا واحد ہنگامی رابطہ ہوسکتا ہے اگر معاملات اسی طرح جاری رہے۔

کیمرے کے لیے کئے گئے مصافحے اور مسکراہٹ والی پریس کانفرنس

رباط میں پریس کانفرنس میں، مشاہدے اور پروٹوکول کے ذہین احساس کے حامل افراد کے لیے، بوریتا نے ایک غیر معمولی کام کیا: اس نے مقامی بولی دریجہ میں اپنی تقریر کی، جس کے لیے میزبان کو ترجمے کے لیے ائرفون لگانے کی ضرورت تھی۔ ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا اور، سفارتی غلطی ہونے کے علاوہ، اس نے میکرون کو ایک ڈبل بیرل پیغام بھیجا: آپ کا وقت قریب قریب ہے۔ اگر ہمیں کرنا پڑے تو ہم فرانس کے ساتھ تمام تعلقات ختم کرنے کے لیے تیار ہیں۔

اور پھر بھی، یہ مراکش اور فرانس کے ساتھ اس کے تعلقات ہیں جو افریقہ میں میکرون اور مغرب دونوں کو بچا سکتے ہیں۔ براعظم پر مراکش کا اثر و رسوخ متاثر کن شرح سے بڑھ رہا ہے اوریہ خاص طور پر ان سابق فرانسیسی کالونیوں میں موجود ہے، جہاں اس کی پہلے سے ہی بینکنگ موجود ہے۔

حالانکہ یہ سچ ہے کہ پوری عرب دنیاغیر وابستہ ماڈل کی طرف بڑھ رہی ہے۔

حفید الغویل لکھتے ہیں، "عرب دنیا عالمی جغرافیائی سیاست کے مروجہ رجحانات کے خلاف مزاحم ہے جو امریکہ، چین اور ایک حد تک روس کے ساتھ خطے کی مصروفیات کو عظیم طاقتوں کے مقابلے کی عینک سے دیکھنے پر اصرار کرتی ہے۔”

ڈی سی میں مقیم ماہر, فرانس اور مراکش کے بارے میں بات کر سکتا تھا، جو یقینی طور پر استعمار کےلگائے ہوئے زخموں کو ظاہر کرتاہے جو مراکش میں ہر جگہ دیکھے جا سکتے ہیں ۔ – ایک بیوروکریٹک ڈراؤنا خواب جو کہ یورپ میں مراکشی باشندوں کے ساتھ برتاؤ کرنے کا براہ راست ردعمل ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ مراکشی فرانسیسیوں کے ساتھ ایک زہنی پیچیدگی کے عالم میں لڑ رہے ہیں، جو اب بھی یہ مانتے ہیں کہ رباط کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرنا ان کی زمہ داری ہے، خاص طور پر ان لوگوں کی گرفتاریوں کے حالیہ سلسلے کے ساتھ جو اس طریقےکو نہیں مانتے۔

اس کے باوجود جی سی سی ممالک کے مزید ‘غیر وابستہ’ بننے کے رجحان کی پیروی کرتے ہوئے رباط کو ایسا صلہ مل سکتا ہے جس کا خواب صرف ابوظہبی اور ریاض ہی دیکھ سکتے ہیں: یہ فرانس کی جگہ لے سکتا ہے اور خطے میں۔،یورپی یونین اور امریکیوں کے لیے، ایک نیا ‘آگے بڑھنے والا’ کھلاڑی بن سکتا ہے ، بالکل اسی طرح جیسا کہ ترکی، جو  مغرب اور روس کے درمیان ہے۔

ناقدین  اگرچہ یہ دلیل دینگے کہرباط میں مراکش کے اشرافیہ کے پاس نئے اقدامات اٹھانے کا  کوئی زبردست ٹریک ریکارڈ نہیں ہے۔ اسی طرح انتظامیہ ‘متحرک’ کردر کی حامل کہلائے جانے  سے بہت دور ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے پوری مشین انگریزی بولنے والی دنیا کو گلے لگانے کا حکم دینے کےلیے مناسب موقع کا انتظار کر رہی ہے، جہاں حقیقت میں،  تمام غیر ملکی سرمایہ کاری اس امر کی منتظر ہے کہ مراکش اس سے فائدہ اٹھائے۔

اکثر عام طور پر ‘دو قدم آگے، تین پیچھے’ کا بے معنی محاورہ، جس کا مراکش کبھی کبھی عالمی منطر نامےپر شکار ہوتا نظر آتا ہے ،  حال ہی میں ورلڈ کپ کی تیز روشنیوں سے لطف اندوز ہو تے ہوئے  (جسےیورپی پارلیمنٹ میں رشوت ستانی کے اسکینڈل کے سائے میں چھپانے کی کوشش کی گئی)ان افریقی فرانکوفون ممالک کو مغرب کے ساتھ رکھنے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہوئے، مراکش کو ایک علاقائی سپر پاور  میں تبدیل کیا جائے گا جس کا احترام کرنے کے علاوہ امریکہ، فرانس اور یورپی یونین کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوگا۔

About خاکسار

Check Also

رفح پر صہیونی حملوں کے ساتھ عراقی مقاومت کے اسرائیل پر حملوں میں شدت

رفح پر صہیونی فورسز کی جانب سے باقاعدہ حملوں کا اعلان ہوتے ہی عراقی مقاومت …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے