Breaking News
Home / اخبار / مغرب کو یوکرین میں حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے: شفقنا بین الاقوامی

مغرب کو یوکرین میں حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے: شفقنا بین الاقوامی

روسی افواج کی یوکرین سرحد پر جمیعت نے ایک نئی جنگ کے خطرے کو جنم دیا ہے مگر یہ تنازع ہرگز نیا نہیں ہے اور نہ ہی روس کے مقاصد نئے ہیں۔ یوکرین ہمیشہ سے بلواسطہ ماسکو کے زیر تسلط یا زیر اثر رہا ہے اور اب وہ نیٹو سے روسی دراندازی کے خلاف تحفظ چاہتا ہے بلکل ایسے ہی جیسے روس نے 2014 میں یوکرین کے خلاف جارحیت کا عمل شروع کیا تھا۔ تاہم ولادی میر پیوٹن کا مطالبہ ہے کہ نیٹو نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مشرقی یورپ کے ممالک میں جن کی سرحدیں روس کے ساتھ ملتی ہیں تک توسیع پسندی کا عمل نہیں کرے گا۔ امریکہ کی سربراہی میں نیٹو نے پیوٹن کے مطالبے کو اس بنیاد پر رد کر دیا ہے کہ ممالک کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کا اختیار ہے۔ لیکن یوکرین کی آزادی اس قدر سیدھا عمل نہیں ہے جیسا کہ یہ دکھائی دیتا ہے۔ روس کی جانب سے یوکرین پر کنٹرول قائم رکھنے اور نیٹو کی جانب سے یوکرین کا تحفظ کرنے کی ایک قیمت ہے جو دونوں اطراف کو ادا کرنا پڑے گی۔

روس کے چند اتحادی ہیں جب کہ نیٹو میں 30 سے زائد دنیا کے امیر ممالک شامل ہیں جن میں سے اکثریت کے پاس جدید ہتھیار اور افواج ہیں تاہم روس گزشتہ 200 سالوں سے طاقت اور جنگ کے ذریعے ہی اپنے پڑوس میں چھوٹے ممالک کو یوروپین ممالک کے خلاف بفر کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے۔ اور پیوٹن کے نظریات میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہے کیونکہ وہ اس بات سے پریشان ہیں سویت یونین کی تباہی کے بعد روس کے مغربی بفر صرف بیلارس تک محدود ہوکر رہے گئے ہیں اور یوکرین کو اپنے دائرہ اثر میں رکھنا روس کی قومی سیکورٹی اور جغرافیائی او خطی اہمیت کے لیے بہت اہم ہے۔ بہت سارے نیٹو رکن بشمول امریکہ اس طرح کی تحریک نہیں رکھتے جیسی پیوٹن رکھتے ہیں۔ اس طرح تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ایک بڑے اور جنگجو پڑوسی کی موجودگی میں چھوٹے ممالک بمشکل ہی اپنی آزادی برقرار رکھ سکتے ہیں۔

سرد جنگ کے دور امریکہ نے جنوبی کوریا کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک بھاری قیمت پر مشتمل جنگ لڑی اور پھر اس نے ویتنام کے آزادی کے لیے جنوبی کوریا کی نسبت بھی مہنگی جنگ لڑی مگر ناکام ہوگا۔ ایشیا میں لڑی جانے والی یہ دو جنگیں بیس سال تک جاری رہیں اور اس میں 2۔1 ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوا جب کہ 90000 سے زائد امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔ امریکہ نے ان مہنگی جنگوں سے کافی سبق حاصل کیا ہے۔ گزشتہ برس امریکہ نے 20 سال بعد افغانستان میں سیاسی اور معاشی ناناکمی کے بعد اپنی فوجیں نکال لیں اور امریکہ کے نکلنے سے قبل ہی طالبان حکومت پر قابض ہوچکے تھے۔ اگرچہ یوکرین اور افغانستان دو مختلف ممالک ہیں تاہم امریکی عوام کو کسی بھی دیگر بیرون ملک فوجی چڑھائی کا کوئی شوق نہیں۔

یہ بات بھی حقیقت ہے کہ پیوٹن ایک آمرانہ ذہنیت کے رہنما ہیں اور وہ مغربی ممالک کی نسبت عوامی رائے کی زیادہ پرواہ بھی نہیں رکھتے۔ جب کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو یوکرین کے دفاع کے لیے اپنی عوام کو منانا مشکل ہوجائے گا جبکہ پیوٹن روسی قومیت پرستی کو پروان چڑھانے کی آڑ میں یہ سب آسانی سے کر سکتے ہیں۔ اور پھر سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے پیوٹن روسی عوام پر اس جنگ کی قیمت تھوپ سکتے ہیں۔ مزید برآں نیٹو کا رویہ بھی پیوٹن کی جنگی حکمت کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہورہا ہے۔ سویت یونین کے ٹکڑے ہونے کے بعد جب روس کے فوجی اخراجات تاریخ کی کم ترین سطح پر تھے تب نیٹو نے کوئی حکمت عملی اختیار نہیں کی۔ 2008 تک روسی جی ڈی پی اور اس کے فوجی اخراجات واپس اسی راہ پر آگئے اور فرانس اور جرمنی نے یوکرین اور جارجیا کو نیٹو میں شمولیت کی دعوت دے کر روس کے خدشات کو ہوا دے دی۔ جب کہ فرانس اور جرمنی کی اس حرکت سے بش انتظامیہ کے ساتھ ان کا تنازع کھڑا ہوگیا اور پھر یہ طے ہوا کہ نیٹو مستقبل میں یوکرین کو رکنیت دے دے گی۔

اس بات کے کچھ عرصہ بعد روس نے جارجیا پر قبضہ کر لیا اور مغرب نے اس پر کوئی مزاحمت نہیں کی ۔ پیوٹن کے نکتہ نگاہ سے اگر روس راستہ نہیں روکتا تو نیٹو جلد یا بدیر یوکرین کو اپنے ساتھ ملا لے گی اور اگر روس یہ ثابت کر دیتا ہے کہ وہ اس کے خلاف لڑے گا تو پھر دو باتوں میں سے ایک ہوسکتی ہے کہ مغرب امن کے لیے مذاکرات کرے گا یا پھر جنگ ہوگی جس کے لیے نیٹو شاید ہی ہمت کرے۔ دونوں طرح سے پیوٹن یوکرین پر اپنا اثرو رسوخ قائم رکھنے میں کامیاب ہوجائےگا۔

ہفتہ، 13 فروری 2022

About خاکسار

Check Also

رفح پر صہیونی حملوں کے ساتھ عراقی مقاومت کے اسرائیل پر حملوں میں شدت

رفح پر صہیونی فورسز کی جانب سے باقاعدہ حملوں کا اعلان ہوتے ہی عراقی مقاومت …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے