Breaking News
Home / اخبار / مالیاتی ضمنی بل پر اپوزیشن کا سکرپٹ زدہ ڈرامہ

مالیاتی ضمنی بل پر اپوزیشن کا سکرپٹ زدہ ڈرامہ

قومی اسمبلی نے مالیاتی ضمنی بل 2021 منظور کرلیا، وزیرخزانہ نے ایوان میں مالیاتی ضمنی بل 2021 منظوری کی تحریک پیش کی۔ ضمنی مالیاتی بل پر اپوزیشن کی ترامیم مسترد کر دی گئیں۔ قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت ہوا، اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے بھی شرکت کی۔ ان کی آمد پر ارکان اسمبلی نے ڈیسک بجا کر استقبال کیا جبکہ اپوزیشن نے وزیراعظم کیخلاف نعرے لگائے۔

قومی اسمبلی ایوان اس وقت 342 ارکان پر مشتمل ہے، حکومت کے پاس 182 ارکان جبکہ اپوزیشن کے پاس 160ارکان ہیں، اپوزیشن کے 12 اور حکومت کے 12 ارکان ایوان سے غیر حاضر رہے۔ حکومت کو ایوان پر 18 ارکان کی برتری حاصل رہی۔ اجلاس کے دوران ضمنی بجٹ پر پیپلز پارٹی نے ترمیم پیش کی جبکہ سپیکر نے ترمیم پر زبانی رائے شماری دی جسے اپوزیشن نے چیلنج کیا، سپیکر کی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والوں کو کھڑے ہونے کی ہدایت کی، سپیکر کی ہدایت پر پیپلز پارٹی کی ترمیم پر گنتی کی گئی ہے۔ ترمیم کےحق میں 150 جبکہ مخالفت میں 168 ووٹ پڑے.

بحث کے دوران شدید تنقید کے باوجود اپوزیشن لیڈر کی جانب سے کسی حد تک کوئی اتفاق رائے پیدا کرنے کی بات ضرور کی گئی تھی تاہم اس کی نہ تو نوبت آئی اور نہ ہی حکومت کے علاوہ اپوزیشن  تہ دل سے اتفاق رائے یا مصالحت کے لئے تیار تھی۔ حالانکہ ملکی معیشت کے ایجنڈے پر وسیع تر اتفاق سے ملک کے مصائب میں کسی حد تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔ ملکی سیاست میں پایا جانے والاانتشار درحقیقت اس وقت معاشی انحطاط کی ایک بڑی وجہ بنا ہؤا ہے۔ مثبت معاشی اشاریوں کے دعوؤں کے باوجود کسی بھی ملک کی معیشت میں اسی وقت بہتری کے آثار پیدا ہوتے ہیں جب بے یقینی اور تصادم کی صورت حال موجود نہ ہو اور سرمایہ دار کو یقین ہو کہ اس ملک میں اس کا سرمایہ محفوظ رہے گا۔ اس طرح بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور ملک میں روزگار اور معاشی سہولت کے امکانات پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ سیاسی نعروں سے قطع نظر حکومت کی طرح اپوزیشن بھی جانتی تھی کہ قومی اسمبلی سے منی بجٹ اور اسٹیٹ بنک کی خود مختاری کا بل مسترد نہیں ہو سکتا۔

اس صورت میں پاکستان کی مالی اور سفارتی مشکلات دوچند ہو جاتیں ۔ مستقبل قریب میں اقتدار حاصل کرنے کی خواہشمند کوئی بھی سیاسی جماعت یہ خطرہ مول لینا نہیں چاہتی۔ اس لئے ان بجٹ تجاویز کا منظور ہونا روز اوّل سے ہی طے تھا۔یہ بحث کی جاسکتی ہے کہ اس مقصد کے لئے کیا اسٹبلشمنٹ نے اپنا روایتی کردار ادا کیا ہے یا ملکی سیاسی فضا کی وجہ سے ایسا ماحول پیدا ہوگیا تھا کہ سب پارٹیاں نوشتہ دیوار تو جانتی تھیں لیکن اپنے اپنے حلقہ انتخاب کو پیغام پہنچانے کے لئے منی بجٹ کی آڑ میں قومی اسمبلی کا فلور استعمال کرکے طول طویل تقاریر کی گئیں۔ تاکہ عوام تک یہ پیغام پہنچایا جا سکے کہ یہ سب کیا دھرا تحریک انصاف کی حکومت کا ہے اور اسی کی وجہ سے اب ان کے مالی مصائب میں اضافہ ہوگا، مہنگائی بڑھے گی اور قومی مالی خود مختاری پر پہرے بٹھائے جائیں گے۔

تحریک انصاف کی حکومت کو انتہائی مجبوری کے عالم میں آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق یہ بجٹ تجاویز قبول کرنا پڑی ہیں۔ وزیر خزانہ نے چھے ماہ تک اپنی ’فیس سیونگ‘ اور عمران خان کی عوام دوستی کی لاج رکھنے کے لئے عالمی مالیاتی فنڈ سے مذاکرات کئے اور چھے ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کےلئے کئی داؤ پیچ آزمائے۔ تاہم آئی ایم ایف کے پاس بھی گھاک اور جہاں دیدہ پروفیشنلز کی ٹیم موجود ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ فنڈ کو پاکستان کے دیوالیہ ہونے یا حکومت کی سیاسی مشکلات سے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ پاکستان اور واشنگٹن کے درمیان اس وقت جو سرد مہری پائی جاتی ہے، اس کی وجہ سے آئی ایم ایف کے عہدیداروں پر امریکہ کا بھی کوئی دباؤ نہیں تھا۔

اس وقت مالی بحران سے نکلنے کے علاوہ پاکستانی حکومت کو متعدد عالمی اداروں کے سامنے سفارتی سطح پر بھی اپنے طور سے ہی نمٹنا تھا۔ آئی ایم ایف ان چند اہم ترین اداروں میں شامل ہے جس کے ساتھ معاملات بگاڑ کر پاکستان کو دیگر اداروں اور مالی منڈیوں میں بھی مشکلات کا سامنا ہوتا۔ ان حالات میں ’آئی ایم ایف ‘ کا بجٹ منظور کرتے ہوئے قومی اسمبلی کو پاکستانی عوام کی فوری مشکلات کو نظر اندازکرنا پڑا۔ ان مشکلات سے نکلنے کے لئے آئی ایم ایف کی شرائط مانتے ہوئے اور مابعد ملکی سیاسی لیڈروں کو مل کر کوئی جامع حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ قوموں کی تاریخ میں مشکل مقامات آتے رہتے ہیں لیکن ہم آہنگی، اور قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنے والی قومیں ہی ان مراحل سے سرخرو ہوکر نکلتی ہیں۔ تاہم اپوزیشن لیڈروں کے بارے عمران خان سمیت تمام حکومتی عہدیداروں کے نوک زبان بدعنوانی اور کرپشن کے الزامات اور قومی اسمبلی کی فضا میں عمران خان کے بارے میں ’چور چور‘ کے نعرے واضح کرتے ہیں کہ اہل پاکستان کو ابھی اس مقام تک پہنچنے کے لئے طویل سفر طے کرنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ نہ حکومت کی مشکلات ختم ہوئی ہیں اور نہ ہی اپوزیشن کی آزمائش اپنے انجام کو پہنچی ہے۔

جمعتہ المبارک ، 14 جنوری 2021

About خاکسار

Check Also

تہران ٹائمز کی رپورٹ؛ ایران کی دور اندیش قیادت نے ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کر دیا

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی بصیرت نے اسلامی جمہوریہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے