Breaking News
Home / اخبار / دورہ چین: خالی ہاتھ گئے تھے خالی ہاتھ آئے ہیں

دورہ چین: خالی ہاتھ گئے تھے خالی ہاتھ آئے ہیں

وزیر اعظم عمران خان کے دورہ چین پر اس وقت سب سے زیادہ لے دے ہورہی ہے اور حسب روایت حکومت اس دورے کو کامیاب ترین اور اپوزیشن ناکام ترین قرار دے رہی ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ سال داسو میں دہشت گرد حملے میں چینی کارکنوں کی ہلاکتوں اور سی پیک کی سست روی کی وجہ سے چین اور پاکستان کے تعلقات سردمہری کا شکار رہے ہیں۔ اس حوالے سے بڑی کھل کر میڈیا پر بھی بات ہوتی رہی ہے اور چینی کمپنیوں کے عہدیداروں سمیت دیگر چینی ۔۔۔ پاکستانیوں سے برملا اس کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ چینی صدر شی جن پنگ نے عمران خان کو زیادہ لفٹ نہیں کرائی اور دونوں رہنماؤں کے مابین کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ وزیر اعظم عمران خان سے صرف چینی وزیر اعظم نے ہی ملاقات کی۔

درحقیقت یہ دورہ یہ ایک انتہائی اوسط قسم کا دورہ تھا، بلکہ ایسا کہہ لیجئے کہ اوسط سے بھی کم درجے کا دورہ رہا۔ اس دورے میں پاکستان اور چین کے کاروباری اور داخلی مفاد وابستہ تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور چین کے تعلقات اب ماضی جیسے نہیں رہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس پر ہم آگے بات کریں گے۔ تاہم غور طلب بات یہ ہے کہ وزیراعظم کا استقبال کس نے کیا؟ ماضی میں استقبال کون کرتا تھا؟س کے بعد ایک زعم یہ بھی رہا کہ اس دورہ چین میں پاکستان کی بہترین سیاسی قیادت جارہی ہے اور وہ کم از کم پرچی پڑھ کر بات نہیں کرتی، یہ قیادت کشکول بھی نہیں پھیلاتی۔ ان دونوں امیجز کا کیا ہوا وہ بھی ہم نے دیکھ لیا۔ کشکول کی بات پر کیسی کیسی خبریں سننے کو آئیں، کیسے کیسے کارٹونز نہیں چھاپے گئے اور پھر عمران خان نے پرچی نہیں بلکہ اے فور سائز کا پرچہ پڑھ کر بات کی، وہ بھی سب نے دیکھ لیا۔ میں دیکھ کر بات کرنے کے ہرگز خلاف نہیں ہوں، سربراہ مملکت کو ایسے ہی بات کرنی چاہیے لیکن اگر ماضی میں آپ اپنے مخالف کی اس بات پر ایسی کی تیسی کرچکے ہوں تو پھر آپ کو بھی اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ وہ کام نہ کریں۔

بعض ذرائع نے یہ دعوٰی بھی کیا ہے کہ دراصل عمران خان کے دورے کا مقصد بیجنگ کے سی پیک اور پاکستان میں چینی کارکنوں کے تحفظ سے متعلق خدشات دور کرنا اور دونوں پڑوسی ممالک کے دیرینہ اوردوستانہ تعلقات کے تاثر کو قائم رکھنے کی کوشش تھی۔ آسان الفاظ میں آپ کہہ سکتے ہیں چینیوں نے عمران خان کو جواب طلبی کے لیے بلایا تھا کہ بھائی جان ان تین سالوں میں سی پیک پر آپ نے کیا progressکی ہے ۔ اسی لیے آپ نے دیکھا ہو گا کہ گزشتہ کئی دنوں سے کپتان نے ۔ سی پیک ، سی پیک ی گردان شروع کی ہوئی تھی ۔۔ جیسے چند روز پہلے عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے ملک سے غربت کے خاتمے اور عام آدمی کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے بھی چین کا ماڈل اپنانا چاہتے ہیں۔

امریکا اور چین کے مابین اقتصادی سرد جنگ چل رہی ہے، جسے سابق امریکی صدر ٹرمپ نے نئی بلندیوں تک پہنچا دیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اس نازک موڑ پر کس کے ساتھ کھڑا ہوگا؟ اور اگر پاکستان یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اس نے کسی ایک ملک کا کھل کر ساتھ نہیں دینا ہے تو پھر پاکستان کیسے ان دونوں ممالک کو ناراض کیے بغیر تعلقات میں توازن قائم رکھے گا؟ کیا چین کو سی پیک میں امریکی مداخلت کا غم نہیں ہے؟ کیا چین کو علم نہیں کہ کس کے دباؤ پر چین کے مفادات کو زک پہنچ رہی ہے؟ کیا پاکستان کا سی پیک کے حوالے سے کردار درست ہے؟ گزشتہ کچھ عرصے سے آنے والی خبریں تو کچھ اور ہی داستان سنا رہی ہیں۔

سیکیورٹی کی صورتحال پاکستان میں خراب ہورہی ہے۔ ہم نے ماضی میں دہشتگردی کے عفریت سے جنگ لڑ کر اس کو شکست دی تھی لیکن وہ عفریت اب پھر سے سر اُٹھا رہا ہے۔ دہشتگردی کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہے۔ یہ کاروبار کی تباہی کی ضمانت ہے۔ سرمایہ کار چڑیوں کی طرح ہوتے ہیں اور اگر یہ ایک مرتبہ اُڑ جائیں تو پھر دوبارہ اُس چوبارے پر نہیں آتے۔ ہم نے بہت مشکل سے اس چوبارے کو دوبارہ آباد کیا ہے، لہٰذا ہمیں سب کام چھوڑ کر اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سی پیک بلوچستان میں ہے اور حالات وہیں خراب ہورہے ہیں۔ غیر یقینی کی صورتحال میں تو مقامی سرمایہ کار نہیں بیٹھتا تو پھر چینی سرمایہ کار کیسے آئے گا؟ پاکستان کو اپنے سیکیورٹی مسائل فوری حل کرنے ہوں گے۔

بدھ، 9 فروری 2022

About خاکسار

Check Also

صہیونی وزیرجنگ کا نتن یاہو پر جنگ بندی کے لئے دباو

گیلانت نے نتن یاہو پر کابینہ میں جنگ بندی کے فیصلے کو قبول کرنے پر …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے