Breaking News
Home / اخبار / اگنی پتھ سکیم کے خوفناک نتائج کیاہوں گے؟

اگنی پتھ سکیم کے خوفناک نتائج کیاہوں گے؟

بھارت میں نریندر مودی کی قیادت والی حکومت نے گذشتہ کم و بیش ایک ہفتے سے جاری پرتشدد مظاہروں اور حزب اختلاف سمیت مختلف حلقوں کے سخت ردِ عمل و احتجاج کے باوجود متنازع ’اگنی پتھ‘ سکیم کے تحت فوج میں بھرتی کا پہلا نوٹیفکیشن جاری کر کے واضح کر دیا ہے کہ وہ اسے واپس نہیں لے گی۔نوٹیفکیشن کے مطابق بھرتی کے لیے رجسٹریشن کا عمل اگلے ماہ یعنی جولائی سے شروع ہو گا۔ سپاہی کے لیے جنرل ڈیوٹی کے لیے دسویں پاس جبکہ ٹیکنیکل کیڈر اور کلرک و سٹور کیپر کے لیے بارہویں جماعت پاس ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔

نریندر مودی نے سوموار کو بھارت کے جنوبی شہر بنگلور میں ایک عوامی اجتماع سے اپنے خطاب میں ’اگنی پتھ‘ کا نام لیے بغیر کہا کہ یہ اصلاحات ہی ہیں جو ایک ملک کو نئے اہداف کی دہلیز پر لے جاتی ہیں۔’اس وقت کئی اصلاحات کئی لوگوں کو غیر منصفانہ نظر آتی ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ان کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔

بھارت کی تینوں دفاعی افواج (بری فوج، بحریہ اور فضائیہ) کے سینیئر عہدیداروں نے منگل کو نئی دہلی میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران ’اگنی پتھ‘ کی منسوخی یا اس میں ترمیم کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اگنی ویر‘ بھی دوسرے جوانوں کی طرح گیلینٹری ایوارڈز یا بہادری کے اعزازات کے حقدار ہوں گے۔

یاد رہے کہ اس سکیم کے تحت ساڑھے 17 سال سے 23 سال تک کی عمر کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو فوج، بحریہ یا فضائیہ میں چار سال کے لیے بھرتی کیا جائے گا اور مدت کے اختتام پر ان سب میں سے صرف 25 فیصد کی مدت ملازمت بڑھائی جائے گی۔ بھرتی ہونے کے پہلے سال ’اگنی ویروں‘ کو ملنے والی ماہانہ تنخواہ 21 ہزار اور آخری سال 28 ہزار روپے ہو گی۔ چار سالہ مدت ختم ہونے کے بعد ’اگنی ویروں‘ کو ان کے کارپس فنڈ میں جمع ہونے والی رقم، جو 11 سے 12 لاکھ روپے کے درمیان ہو گی، اور ایک سند دے کر رخصت کیا جائے گا۔

انڈیا کا ڈیفنس بجٹ ستر بلین ڈالر سے زائد ہے جس کا نصف سے زائد حصہ پینشنز اور تنخواہوں میں صرف ہوجاتا ہے۔ اسی بوجھ کو کم کرنے کی غرض سے بنائی گئی یہ سکیم انڈین آرمی کے لئے ایک بڑا خطرہ ثابت ہوگی۔ وہ نوجوان جو بچپن سے فوج میں شامل ہونے کا خواب دیکھتے آئے ہیں وہ اس وقت غم و غصے کی حالت میں ہیں کہ وہ اس خواب کو چار سال بعد اپنے سامنے ٹوٹتا ہوا دیکھیں گے۔ اس وقت ”اگنی پتھ“ سکیم نے پورے ملک میں آگ لگا رکھی ہے۔

متعدد ٹرینیں اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا جا چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان احتجاجی مظاہروں میں طالب علموں اور نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے اور اب تک سات سو کروڑ روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ بھارت میں آئے دن کسی نہ کسی پالیسی کے خلاف احتجاج ہونا اب معمول کی بات ہو گئی ہے لیکن ”اگنی پتھ“ سکیم کے خلاف احتجاج کافی شدید اور مختلف نوعیت کاہے۔

اس سکیم کے خلاف بھارت کے طول و عرض میں بے روز گار نوجوانوں کی جانب سے ہونے والے احتجاج پر تشدد صورت حال اختیار کر رہے ہیں۔ متعدد فوجی، سیاسی شخصیات، بائیں بازو کی جماعتیں اور نوجوان طلبا اس سکیم کو ایک غلط پالیسی قرار دے رہے ہیں اور اس سکیم کو ماننے سے انکاری ہیں۔ اس سکیم مخالف احتجاج کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ ”اگنی پتھ“ سکیم کا مختصر جائزہ لیا جائے تو سکیم کے کئی نقاط ایسے ہیں جو سمجھ سے بالاتر ہیں۔

اگنی پتھ کے زیر تربیت ”اگنی ویر“ صرف چھ ماہ کے مختصر دورانیے میں وہ تربیت کیسے حاصل کر سکتا ہے؟ اگر وہ کر بھی لے تو اپنی جان ہتھیلی پر رکھے سرحد کی حفاظت کے لئے فرنٹ لائن پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ اس سکیم کے تحت بھرتی ہونے والے جوانوں کی عمر سترہ سال رکھی گئی ہے جو کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق چائلڈ لیبر کے زمرے میں آتی ہے۔ ان نوجوانوں کی یہ عمر (سترہ سے اکیس) دسویں اور بارہویں جماعت کی بنیادی ڈگری حاصل کرنے کی ہے جو وہ ملازمت میں گزار دیں گے اور اس کے بعد جب ریٹائر ہوں گے تو وہ ان ڈگریوں سے محروم ہوں گے جو کسی بھی شعبے یا ملازمت کے لئے بنیادی ڈگریاں ہوتی ہیں۔

چار سالہ مدت کے بعد ایک غیر تربیت یافتہ اور بنیادی تعلیم سے محروم نوجوان سپاہی کی معاشرے میں کیا حیثیت ہوگی؟ نوجوانوں کے پڑھنے اور مہارتیں سیکھنے کی عمر میں ان سے ایک ایسی ملازمت کروائی جائے گی جس سے وہ آئندہ کی زندگی میں کوئی خاص مقصد حاصل نہیں کر سکیں گے۔ ایسے نوجوانوں کی ذہنی کشمکش کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چار سال بعد جب ان کی عمر صرف اکیس برس ہوگی، وہ معاشرے میں خود کو ایک ناکام انسان سمجھتے ہوئے مستقبل سے بھی مایوس ہوں گے۔

وقتی دلچسپی اور معاشی سہولتوں کے فقدان کے پیش نظر وہ نوجوان بھرتی تو ہو جائیں گے مگر چار سال بعد ان کا مستقبل کیا ہو گا؟ ان کی شخصیت کیسی ہوگی، ان کی پہچان کیا ہوگی؟ شاید ان میں سے چند ایک ایسی کمپنیز میں ملازمت حاصل کر لیں جہاں فوجی تربیت سے متعلقہ شعبے ہوں، ایسی فورسز ہیں جہاں وہ اپنی تربیت کو بروئے کار لا سکیں گے مگر لاکھوں کی تعداد میں نوجوان ان کمپنیز یا فورسز کا حصہ نہیں بن سکتے۔ ملازمت کے تمام راستے بند دیکھ کر وہ ایسی تنظیموں کا حصہ بنیں گے جہاں دہشت گردی، شدت پسندی اور اشتعال انگیزی میں اس تربیت کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ طالبعلموں اور نوجوانوں کے ذہنوں کے ساتھ اس سے بڑی زیادتی کیا ہوگی کہ ان سے کوئی کار آمد کام لینے کی بجائے تخریب کاری کی طرف دھکیلتے ہوئے ان کی سماجی حیثیت اور نفسیاتی صحت کو سیاسی مفادات کی خاطر داؤ پر لگا دیا جائے۔

بھارت کے سابقہ فوجی افسران نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی حکومت سے سوال کیا ہے کہ آخر دفاعی اداروں کو ہی اس تجربے کے لئے کیوں چنا گیا؟ کسی کم رسک والے ادارے پر یہ سکیم کیوں نہیں آزمائی گئی؟ کیا بی جے پی آنے والے وقت میں کسی جنگ کی تیاری کر رہی ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر مجبوراً بھارت کے ہمسائیوں کو بھی اپنی دفاعی استعداد کو بڑھانے کے لئے ایک خطیر رقم خرچ کرنا ہو گی۔ جنگ کے امکانات بڑھنے کی وجہ سے خطے میں امن و امان کی صورتحال کو خطرہ ہو گا۔

About خاکسار

Check Also

صہیونیت مخالف طلباء تحریک، نیویارک یونیورسٹی میں اساتذہ کی ہڑتال

نیویارک یونیورسٹی کے 120 سے زائد اساتذہ نے پولیس کے ہاتھوں طلباء پر تشدد کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے