Breaking News
Home / اخبار / حق رائے دہی سے محروم اب نہیں: کشمیر پر رسل ٹریبونل

حق رائے دہی سے محروم اب نہیں: کشمیر پر رسل ٹریبونل

جنگی جرائم اور نسل کشی کے خلاف بین الاقوامی دنیا کی بے حسی اور بین الاقوامی عدالتوں کی نااہلی کی وجہ سے یہ کسی طور ممکن نہیں کہ ظلم کا شکار مظلوم انصاف پا سکیں اور ان کی آواز کو کہیں سنا جاسکے بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ ان اداروں کی نا اہلی کی وجہ سے شاید ہی ان کی آواز اب کہیں سنی جا سکے۔ 17 سے 19 دسمبر تک رسل ٹریبونل برائے کشمیر نے سراجیو، بوسنیا اور ہرزیگوینیا کا دورہ کیا۔ اس اقدام کا مقصد جنگی جرائم اور بھارت کی جانب سے کشمیریوں پر ڈھائے گئے مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر روشنی ڈالنا تھا۔ اسی طرح سراجیو اس ٹریبونل میں انعقاد  اتفاقی نہیں تھا بلکہ وہاں بھی 1990 میں نسل کشی کی وجہ سے تھا۔

رسل ٹربیونل نے نسل کشی، ڈی کالونائزیشن، آبادکاری کے رجحان بشمول زمینوں پر قبضے، زبردستی حب الوطنی اور جوہری جنگ اور عالمی امن کے لیے خطرہ کے موضوعات پر توجہ مرکوز کی۔ مقبوضہ جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے مختلف عینی شاہدین نے قابض بھارتی افواج کے ہاتھوں کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے واقعات بیان کئے۔دوحہ انسٹی ٹیوٹ فار گریجویٹ اسٹڈیز میں میڈیا اینڈ کلچرل سٹڈیز پروگرام کے ایسوسی ایٹ پروفیسرڈاکٹر محمد حماس المصری نے کہا ہے کہ کشمیر پر رسل ٹریبونل کے لئے سب سے مشکل مرحلہ کشمیری خواتین کی اجتماعی عصمت دری کے واقعات سے آگاہی حاصل کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ قابض بھارتی افواج نے خواتین کی آبروریزی کو ہمیشہ ایک بنیادی جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔  انہوں نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق بھارتی فوج نے اب تک آٹھ ہزار سے ساڑھے گیارہ ہزار کشمیری خواتین کو آبروریزی کا نشانہ بنایا ہے اور اس میں ملوث کسی فوجی کو قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا۔

رسل ٹریبونل کا تصور برطانوی فلاسفر بارٹرینڈ رسل نے دیا تھا اوربعد میں ویتنام جنگ میں اسی ٹریبونل نے امریکہ کو جنگی جرائم کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ رسل نے دیگر مفکرین جیسا کہ جین پال سارتر، سیمون ڈی بیوائر اور لیلو باسو کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ ایک ٹریبونل کی بنیاد رکھیں اور 1966 میں ایسے ٹریبونل کی بنیاد رکھی گئی جس کا مقصد جنگی جرائم اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے خلاف دنیا کی رائے کو ہموار کرنا اور حوالے سے آگاہی پھیلانا تھا۔ ویتنام میں جنگی جرائم پر قائم بین الاقوامی جرائم پر منبی ٹریبونل قانونی اختیار نہیں رکھتا تھا اس لیے امریکی انتظامیہ نے اس کی تحقیقات کو رد کر دیا۔ تاہم اس ٹریبونل کی بدولت جنگی جنونیوں کو لگام ملی، کمزوروں کی آواز کو طاقت ملی اور ویتنام جنگ کے شکار افراد کی مشکلات اور مظالم کو سامنے لانے کا موقع ملا۔ رسل ٹریبونل کا جنگ کے خلاف بیانیہ اس قدر طاقتور تھا کہ بعد میں فلسطین، بوسنیا، عراق اور لاطینی امریکہ کے جنگی جرائم کے شکار افراد نے بھی اسی ماڈل کی پیروی کی۔

رسل ٹریبونل بالکل ٹرتھ کمیشن کی طرح ہی کام کرتاہے۔ اس میں ججوں کا ایک پینل ہوتا ہے جو کہ اپنی انفرادی حیثیت اور منفرد تعلیمی پس منظر کے حامل ہوتے ہیں، اس کے علاوہ ماہرین اور عینی شاہدین کے بیانات سے حقائق اور اعدادوشمار کو اکٹھا کر کے رپورٹ شائع کی جاتی ہے جب کہ آخر میں پیش کی جانے والی گواہیاں اور ماہرین کے پیش کردہ ثبوات پینل کے لیے کافی ہوتے ہیں۔کشمیر پر رسل ٹریبونل کشمیر، بوسنیا اور اٹلی کے ماہرین تعلیم اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ترتیب دیا تھا۔ اس ٹریبونل میں 15 بین الاقوامی ججز بشمول ممتاز امریکی اسلامک سکالر عمر سلیمان کے علاوہ جوناتھن اے سی براؤن جو کہ جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں وہ بھی شامل تھے۔ کشمیر پر پہلے رسل ٹریبونل کے انعقاد کا مقصد کشمیریوں کی نسل کشی، ان پر وحشانہ جارحیت، اور مقبوضہ کشمیر میں انسانیت کے خلاف جرائم اور کشمیری تنازعے کی وجہ سے خطے میں ایٹمی جنگ کے خطرات جیسے مسائل کو دنیا کے سامنے اٹھایا گیا ۔

کشمیر پر رسل ٹربیونل کا مقصد تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے بین الاقوامی قانون کی بالادستی کی تصدیق کرنا تھا۔ مزید برآں، اس کا مقصد انسانیت کے خلاف جاری جرائم اور نسل کشی کے امکانات کو روکنے کے لیے بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری کے بارے میں شعور بیدار کرنا ہے۔اس ٹربیونل کا واحد مقصد کشمیر پر حقائق کو سامنے لانا تھا۔ یہ کشمیریوں کے لیے اور پوری دنیا میں آزادی، مساوات اور انصاف پسند لوگوں کے لیے ایک نازک، خطرناک وقت تھا۔ ہندوتوا کے فاشسٹ نظریے نے ہندوستانی سیاسی اداروں اور معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، اور اب جموں و کشمیر کے متنازعہ علاقے میں نسل کشی سے متعلق آبادیاتی تبدیلی کو نافذ کرنے کے احتیاط سے من گھڑت منصوبے کے بارے میں جائز خدشات تھے۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ یہ خطہ ہندوستان اور چین کے درمیان علاقائی تنازعہ کے مرکز میں تھا۔ دو ہندوستانی لڑاکا طیاروں کو مار گرائے جانے اور ہندوستانی فضائیہ کے پائلٹ کی گرفتاری کے بعد سے جنگ کا خطرہ اپنی بلند ترین سطح پر تھا۔

ٹربیونل، جس میں ہندوستانی مقبوضہ کشمیر پر توجہ مرکوز کی گئی تھی – مزاحمت کا مرکز – اس میں سرکردہ عالمی، سیاسی، علمی اور ادبی شخصیات شامل تھیں اور اس میں صورتحال کی حقیقت کو مزید واضح کرنے، کشمیر کے بحران کو بین الاقوامی بنانے اور دنیا کو عمل کرنے پر مجبور کرنے کی خواہش تھی۔رسل ٹریبونل  میں شامل  ججز نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات کی سماعت کے بعد جاری  اپنے بیان میں کہا کہ  ہمارے سامنے جو شواہد لائے  لائے گئے ہیں ان کے مطابق جموں کشمیر میں نسل کشی کی ذمہ دار بھارتی فوج اور بھارتی انٹیلی جنس سروس ہے تاہم حقائق سامنے لانے کے لیے مزید تحقیقات کی ضرورت ہے ۔ جموں کشمیر کی صورتحال کا تقاضا ہے کہ عالمی ادارے جموں کشمیر میں اپنا خصوصی مشن بھیجے تاکہ وہاں آزادی اور انسانی حالت زار کا مشاہدہ کیا جا سکے ۔

یاد رہے کہ سراجیوو میں کانفرنس کا اہتمام کرنے میں کشمیرسویتاس اور روسل فانڈیشن لندن کے علاوہ پیپلز ٹریبونل بولونگنا، اٹلی، انٹرنیشنل یونیورسٹی سراجیوو اور سنٹر فار ایڈووانس اسٹڈیز کا تعاون شامل تھا۔ٹریبونل کا مقصدمقبوضہ جموں وکشمیر میںبھارتی فوجیوں کی طرف سے جاری نسل کشی سمیت انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کو اجاگر کرناہے۔ کشمیرسویٹاس نے ایک بیان میں کہاکہ ان جرائم کی سنگینی نے ہمیںدنیا کی توجہ اس کی طرف مبذول کرانے پر مجبورکیاکیونکہ یہ عالمی امن کے لئے براہ راست ایک خطرہ ہے۔ بیان میں کہاگیا کہ ٹریبونل کا مقصدچا اہم موضوعات کی طرف توجہ مبذول کرانا ہے جس میںتنازعہ کشمیر کی سنگینی کو اجاگرکیاجائے گااورجموں کے قتل عام پربحث سمیت نسل کشی، نوآبادیاتی نظام کے خاتمہ اور غیر ریاستی باشندوں کی آبادکاری پر خصوصی توجہ دی جائے گی ۔ اس کے علاوہ انسانیت کے خلاف جرائم اورخطے میںجوہری جنگ کے خطرے ،اجتماعی قبروں اورعصمت دری کو جنگی ہتھیارکے طورپر استعمال کرنے جیسے مسائل کو اجاگر کیاجائے گا۔ ٹربیونل نے مقبوضہ جموںو کشمیر میں جاری نسل کشی، بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں ، انسانیت کے خلاف جرائم اور کشمیریوں پر سیاسی جبر کو اجاگر کرنے کے لئے کلید عالمی شخصیات، ماہرین تعلیم اورمشہور شخصیات کو ایک جگہ جمع کیاہے۔

جمعتہ المبارک ، 24 دسمبر 2021

About خاکسار

Check Also

امریکی الزامات بے بنیاد/ ملک سے ایرانی تیل کی منتقلی کا کوئی ثبوت نہیں ملا، ملائیشین وزیر اعظم

ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم نے کہا کہ ملک سے منظور شدہ ایرانی تیل …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے