Breaking News
Home / اخبار / جوبائیڈن نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو غیر منظم کیوں کہا؟

جوبائیڈن نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو غیر منظم کیوں کہا؟

پاکستانی قوم، مملکت اور سیاست، اپنی قومی زندگی میں جتنی غیر ذمے دار، غیر منظم اور بے پروا ہے، اپنی ایٹمی شناخت میں اتنی ہی ذمہ دار اور چوکس ہے۔ نہ ہوتی تو پاکستان اپنی مکمل بحرانی حیثیت کے ساتھ کبھی دنیا کی مانی جانی ایٹمی طاقت نہ بن سکتا۔

حیران کن امر یہ ہے کہ 75 سالہ پاکستانی قوم کا یہ پہلو عشروں سے جاری ہماری قومی سیاست کی مکمل غفلت سے جاری و ساری دھما چوکڑی میں بھی مکمل محفوظ اور ارتقاء پذیر رہا اور ہے۔ ہمارے ویل کنٹرولڈ ایٹمی پروگرام کی کوالٹی اور بدلتے حالات میںاس کی وسعت اور معیار میں اضافہ مع ڈلیوری کی صلاحیت ہی بفضلِ خدائے رب جلیل پاکستان کے ایٹمی پروگرام کاطرۂ امتیاز ہے۔ اس کا یہی خاصا پاکستان کی سلامتی پر غیر منظم قوم کے مکمل متحد اور اٹل ہونے کا مظہر ہے۔ یہ کسی بھی خطرے میں ہمارے قومی اتحاد کے فوری عمل میں ڈھل جانے والا یقین و امید ہے۔

عالمی امن و سیاست کے اس حساس موضوع پر جملہ بیرونی و اندرونی اسٹیک ہولڈرز کو اس زندہ حقیقت و حوالے کو درست تجزیوں کیلئے سمجھنا ازحد ضروری ہے کہ تمام تر سفارتی ، سیاسی و اقتصادی دبائو کے باوجود بھارتی ’’سمائلنگ بدھا‘‘ (ایٹمی تجربے 1974) کے بعد جب اسلام آباد نے آنے والے عشرےمیں اپنے ایٹمی قوت بننے کی صلاحیت تو حاصل کرلی لیکن اس پروگرام کو آگے بڑھانے اور اسے اولین قومی ترجیح میں لانے سے قبل ضیاء دور میں جبکہ افغانستان سے سوویت قابض افواج کو باہر نکالنے کا پاک افغان جہاد بین الاقوامی تعاون، اسلامی اور آزاد مغربی دنیا کے تعاون و اشتراک سے جاری تھا تو پس منظر میں ’’سمائلنگ بدھا‘‘ کے مذموم عزائم بے نقاب ہونے کے باوجود جنوبی ایشیا کو ایٹمی دوڑ سے پاک رکھنے والا زون بنانے کی تجویز ایک نہیں دو تین مرتبہ ساری دنیا میں کھلے عام اور بھارت کو براہ راست پیش کی۔ہمارے سفارتی ابلاغ کا یہ اہم نکتہ تھا اور پاکستان کی اس پالیسی اور اپروچ کو ضیاء الحق اپنے انٹرویوز، میڈیا اور متعلقہ فورمز پر حسب ضرورت دہراتے رہے۔ تاہم اس وقت بھی عالمی سیاست میں اپنے حلیف اول بن جانے والے امریکہ کے جاری دبائو کو اس وقت بھی ’’ان اے وے‘‘ فیس کیا گیا۔

اس دوران میں نے اپنے طویل صحافتی کیریئر کے عملی صحافت کے مرحلے میں بطور نیوز رپورٹر جتنے امریکی پیس اینڈ سکیورٹی اسکالرز کے جو انٹرویو کئے ان میں وہ پاکستان کے ایٹم بم بنانے کی صلاحیت کو محدود ہونے کے باعث پرخطر قرار دیتےتھے۔ ان کا یہ نکتہ بھی مشترکہ تھا کہ اگر پاکستان نے یہ (صلاحیت) حاصل کر بھی لی تو وہ اس کی دشمن پر ڈلیوری کی صلاحیت حاصل نہیں کرسکے گا۔ پھر اسے سنبھالنا اور کنٹرول میں محفوظ رکھنے کے چیلنج پر بھی خدشات کا اظہار ہوتا تھا۔

تاریخ یہ بنی کہ آج پاکستان متذکرہ خدشات و چیلنجز سے نپٹتا ایک مکمل ذمہ دار اور دفاع کے حوالے سے اپنے حریف اول بھارت سے زیادہ کنٹرول اور معیار کے حامل ایٹمی پروگرام کی حامل جوہری طاقت ہے ،جو مطلوب بین الاقوامی معیار کے مطابق مصدقہ ہے۔ اس کو متعلقہ عالمی ادارے کے تسلیم کرنے کے بعد اگر کوئی طاقت یا عالمی لیڈر غیر منظم اور خطرناک قرار دے تو یہ غلط انفارمیشن اور تجزیوں کا معاملہ ہے۔

جیسا کہ امریکی صدر جارج بش نے دوسری ٹرم مکمل ہونے پر وائٹ ہائوس سے الوداع ہونے پربالآخر یہ تسلیم کرلیا تھا کہ ’’عراق پر حملہ غلط اطلاعات کی وجہ سے ہوا‘‘ اسے تب تسلیم کیا جب عراق میں بدستور امریکی افواج موجودتھیں۔ (جو اب تک ہیں) اور لاکھوں بے گناہ عراقی، صدام رجیم پر وسیع تر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خفیہ ذخائر رکھنے کے شک اور الزام پر بڑے حملے اور پھر ان کے مسلسل جاری رہنے پرشہید ہوگئے۔ یہ سب کچھ اقوام متحدہ کے انسپکٹر کی انسپکشن کے بعد عراق کو کلیئر کرنے کے بعد ہوا۔

اس پس منظر میں امریکی کانگریس کی مڈٹرم انتخابی مہم شروع ہونے پر امریکی صدر جوبائیڈن کا یہ بیان کہ پاکستان کا خطرناک ’’ایٹمی پروگرام غیر منظم ہے‘‘ ۔امریکہ کا یہ بیان غلط اطلاعات یا تجزیے پر مبنی ہے، لیکن کانگریس کے مڈٹرم الیکشن کی فنڈ ریزنگ تقریب کے موقع پر ان کا زیربحث بیانیہ مکمل معنی خیز لیکن سفارتی ڈیزاسٹر ہے۔ اس طرح کہ اس پر جو فوری اور متفقہ قومی ردعمل ہوا ہے، وہ امریکہ کے پاکستان سے روایتی تعلقات کی بحالی اور اسے پھر سےاثر میں لانے کی غیر معمولی سفارتی کوششوں میں ابتدائی اور بڑی کامیابی کے بعد بڑا سفارتی فائر بیک ہے۔ جو پاکستان کے جواں سال وزیر خارجہ کے منصب سنبھالتے ہی پندرہ روزہ غیر معمولی و غیر مثالی دورے کے بعد صدر بائیڈن کے بیان پر جو ردعمل آیا ہے وہ جنوبی ایشیا میں نئے اور بڑے امریکی سفارتی ہدف کی طرف سے آیا ہے، اس پر یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ صدر بائیڈن سے غلطی ہوگئی۔؟

جیساکہ پاکستانی وزیر کا یہ بیانیہ ردعمل کہ ’’بائیڈن کا یہ بیان گمراہ کن ہے‘‘۔ فقط ملکی مکمل رائے عامہ کے جذبات کا نہیں قومی موقف کا عکاس ہے، پاکستان میں حالیہ ضمنی انتخابات میں ملک کے سب سے مقبول بن جانے والے قومی لیڈر عمران خان کا یہ ذومعنی بیان اپنی جگہ اٹل حقیقت ہے کہ ’’ہمارےایٹمی پروگرام کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم سب سے محفوظ ہے اور امریکی صدر کا بیان ناکام ملکی خارجہ پالیسی کا ثبوت ہے‘‘۔واضح رہےکہ سابق وزیر اعظم کی حیثیت میں اپنی مخصوص اپروچ کی حامل خارجہ پالیسی کو پوری دنیا اور علاقائی لیڈروں پر بار بار واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے ’’اب جنگوں کا نہیں صرف امن کی کوشش کا فریق بنے گا‘‘۔پاکستانی قومی ردعمل پر، وائٹ ہائوس آفس کی بریفنگ میں یہ وضاحت تو کی گئی ہے کہ ہمارا کوئی مطالبہ نہیں،امریکی صدر محفوظ پاکستان چاہتے ہیں، لیکن پاکستانی قوم اپنے یقینی ملکی تحفظ کے لئے موجود شکل میں ایٹمی پروگرام کو ناگزیر جانتے اور یہ ان کا اٹل اور مکمل متفقہ موقف ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان نے اپنی ایٹمی صلاحیت کو حاصل کرنے سے پہلے کئی سال تک برصغیر کو ایٹمی دوڑ سے محفوظ رکھنے کیلئے سی ٹی بی ٹی (COMPREHENSIVE TEST BAN TREATY) کے دستخطی بننے کےلئے شدید امریکی دبائو کا مقابلہ کرتے اسے بھارت کے بھی اسی حیثیت میں آنے سے مشروط کردیا تھا۔ امریکہ یہ شرط پوری نہ کرا سکا الٹا بھارت نے چار دھماکوں سے پاکستان کو پھرہراساں کرنے کی جرأت کی تو پھر اسلام آباد نے چاغی کا پہاڑ ہی پیلا نہیں کیا بلکہ موجود اور آنے والی بھار تی قیادتوں کے چہرے بھی زرد کردیئے۔ امریکہ اپنے تجزیوں پر نظرثانی کرے اور بلاول ہماری سیاست میں جتنے بھی متنازعہ وزیر خارجہ ہیں، لیکن ان کے اس بیان پر واشنگٹن کا غور بنتا ہے کہ’’بیان پر حیرانی ہے، سوال ہیں و بھارت سے پوچھیں۔‘‘

About خاکسار

Check Also

حزب اللہ کے صیہونی فوج کے اہم ٹھکانوں پر نئے حملے

لبنان کی حزب اللہ نے ایک نئی کارروائی میں مقبوضہ فلسطین کے شمال میں صہیونی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے