Breaking News
Home / اخبار / آزادئ اظہار رائے پر قدغنیں

آزادئ اظہار رائے پر قدغنیں

انسانی حقوق کمیشن نے اپنی سالانہ رپورٹ، 2021 میں ملک میں اظہار رائے کی آزادی کی حالت پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ایچ آر سی پی کے سالانہ رپورٹ کے مطابق ملک میں گزشتہ ایک سال میں کم از کم نو واقعات میں صحافیوں کو ڈرایا دھمکایا گیا یا بالکل خاموش کیا گیا، اور اِس مقصد کے لیے حملوں، جبری گمشدگی، قتل اور کھلی سنسر شپ جیسے حربے استعمال کیے گئے۔ مزید برآں، پچھلی حکومت کو صحافت پر ظالمانہ پاکستان میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس مسلط کرنے کی کوشش کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ یہ بنیادی انسانی اور آئینی حق خطرات سے دوچار رہا اور اِس کے ساتھ ساتھ دیگر تمام حقوق بھی پابندیوں کی زد میں رہے۔

آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت اظہارِ رائے کی آزادی پر پابندیوں کے دائرہ کار کو بڑھانے کی ریاست کی کوششوں سے غیر ریاستی عناصر کو شہہ ملی ہے کہ وہ ایسے لوگوں پر اپنی مرضی مسلط کریں جو ان سے اتفاق نہیں کرتے اور وہ اِس کے لیے اکثر پرتشدد طریقے استعمال کرتے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سیالکوٹ میں سری لنکا کے ایک فیکٹری مینیجر کا توہینِ مذہب کے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں وحشیانہ قتل اور پی پی پی کے قانون سازوں کی طرف سے مبینہ طور پر انسانی حقوق کے دفاع کار ناظم جوکھیو کا وحشیانہ قتل، دونوں واقعات اِس کا واضح ثبوت ہیں۔

پاکستان میں قائم میڈیا رائٹس واچ ڈاگ فریڈم نیٹ ورک کی اس تحقیقی رپورٹ کے مطابق اگرچہ گذشتہ سال دستاویزی خلاف ورزیوں کی مجموعی تعداد میں کئی درجے کمی آئی ہے لیکن ڈیجیٹل میڈیا کے لیے کام کرنے والے صحافیوں کو نشانہ بنانے کا رجحان جاری ہے جو صحافیوں کے خلاف خلاف ورزیوں اور اظہار رائے کی آزادی پر حملوں کا مسلسل بنیادوں پر رجحان بتاتا ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال 3 مئی کو عالمی سطح پر پریس کی آزادی کے دن کے موقع پر 2022 منایا جاتا ہے ۔ فریڈم نیٹ ورک کی جانب سےپاکستان میں جاری کی جانے والی اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ریاستی عناصر پاکستان میں صحافیوں کے لیے خطرے کا سب سے بڑا ذریعہ بنے ہوئے ہیں اور تحریک انصاف کی دور حکومت میں میڈیا اور صحافیوں کے خلاف جبر میں ڈرامائی اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں قتل، قانونی مقدمات، حملے، اغوا، حراست اور دھمکیاں دی گئیں۔

فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے کہا کہ چونکہ ڈیجیٹل میڈیا کا پاکستانی میڈیا کےلیے نئی افق ہے اس لیے حکومت آن لائن آزادی کے خلاف کارروائی کے لیے زیادہ بے چین ہے اور ڈیجیٹل صحافی ہراساں کرنے، بدسلوکی اور قانونی خطرات کا منظم ہدف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سرحدوں سے عاری انٹرنیٹ کی آزادی کا تحفظ کرنا چاہیے۔اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے چاروں صوبوں، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اوریہاں تک کہ گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر بھی صحافیوں کے لئے محفوظ نہیں رہے۔فریڈم نیٹ ورک پاکستان پریس فریڈم کی یہ رپورٹ 2022 کے اہم نتائج کے مطابق، جو مئی 2021 سے اپریل 2022 کی مدت پر محیط ہے۔

زیرنظر مدت میں پاکستان میں صحافیوں کے خلاف خلاف ورزیوں کی سرفہرست تین قسموں میں (الف) ان کے خلاف دائر 13 قانونی مقدمات (15 فیصد) اور آف لائن ہراساں کرنے کے 13 واقعات (15 فیصد)، (ب) حکام کی جانب سے غیر قانونی حراست کی 11 وارداتیں (13 فیصد)، (ج) قتل کی کوشش کے نو واقعات (11 فیصد) اور زبانی دھمکیوں کے نو مقدمات (11 فیصد) شامل ہیں۔ اس عرصے میں پاکستان میں میڈیا کے خلاف خلاف ورزیوں کی 83 کیٹیگریز میں سے 65 فیصد خلاف ورزیاں قانونی مقدمات، آف لائن ہراساں کرنا، غیر قانونی حراست، قتل کی کوشش اور زبانی دھمکیاںپر مشتمل ہیں۔

صحافیوں نے اپنے ساتھ جاری ظلم و ستم کے آگے ہتھیار ڈال دیئے ہیں اور اب انہوں نے خود پر سنسرشپ نافذ کرلی ہے،یہ اظہار رائے کی آزادی کا ایک طاعون ہے اور لوگوں کو ان کے معلومات کے حق سے محروم کرتا ہے۔ چینلز کسی بھی وقت‘آف ایئرکر دیئیجاتے ہیں، اخبارات کی ترسیلات میں خلل پڑتا ہے اور بعض اوقات صحافی غائب کردیئے جاتے ہیں۔آزادی اظہار برائے آرٹیکل، بہت سارے دیگر مضامین کی طرح صرف کاغذ پر آزادی کی ضمانت دیتا ہے لیکن حقیقت میں ہم ’معقول پابندیوں‘ کے سبب نہیں بلکہ غیر معقول پابندیوں کی وجہ سے دبے ہوئے ہیں۔ اس آفاقی مسئلے کو حل کرنے کے پاکستانی حکومت کو عوامی مفاد کو مد نظر رکھنا چاہئے، ناانصافیوں اور انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکنے کے لئے لائحہ عمل تشکیل دینا چاہئے، اور ایک پرامن معاشرے کو ایک جامع ترقیاتی نقطہ نظر کے ذریعے استوار کرنا چاہئے۔

جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی باہم منسلک اور مشروط ہیں۔ سچی جمہوریت ایک ایسا نظام ہے، جس میں عوام خود اپنے آپ پر حکومت کرتے ہیں۔ خود پر حکمرانی کے لیے عوام کا پورے طریقے سے آگاہ اور با شعور ہونا ضروری ہے۔ اس کے لیے ہر طرح کی معلومات تک رسائی ضروری ہے۔ عوام کو یہ رسائی تب ہی ممکن ہوگی، جب اس پر کسی قسم کی قدغن نہ ہو۔ اس کے بغیر چند لوگ یا چند گروہ رائے عام کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ جمہوریت کے نام پر ایک فراڈ ہے۔

چنانچہ اظہار رائے اور تنقید کی آزادی کے بغیر جمہوریت محض ایک فریب ہے۔ پاکستان کے آئین میں بھی اظہار رائے کے باب میں جو کچھ درج ہے وہ آزادی اظہار رائے کی مکمل ضمانت فراہم کرتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے عملی طور پر کسی کو یہ ضمانت میسر نہیں۔ اس کے بجائے صحافیوں کو ایک سخت قسم کے مخاصمانہ ماحول کا سامنا ہے۔ یہاں صحافی قتل اور اغوا ہوتے رہے ہیں۔ اپنے خیالات اور آرا کے اظہار کی بنیاد پر ان کو ملازمتوں سے قانونی تقاضے پورے کیے بغیر برطرف کیا جاتا رہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ کم ہونے کے بجائے بڑھتا جا رہا ہے، حالیہ واقعات ان نہ مساعد حالات کی عکاسی کرتے ہیں، جن میں پاکستان کے صحافی اپنے فرائض منصبی ادا کرنے پر مجبور ہیں۔

About خاکسار

Check Also

ایران کی جانب سے متعدد امریکی شہریوں اور اداروں پر پابندی عائد

ایران کی وزارت خارجہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور خطے میں امریکی دہشت …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے