Breaking News
Home / اخبار / کیا شہباز شریف اگلے وزیر اعظم ہوں گے؟

کیا شہباز شریف اگلے وزیر اعظم ہوں گے؟

2021 میں پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر موجود تمام سیاسی کھلاڑیوں نے اپنے مقاصد کے حوالے سے ناکامی کا منہ دیکھا۔ اس سال کے اختتام پر کوئی بھی کلینڈر کو فخر سے نہیں دیکھ رہا ہوگا۔  اس سال وہ سب کچھ نظر آیا جسے ہماری سیاست میں غلط، کمزور یا ناکافی کہا جا سکتا ہے۔ حکومت گورننس نہیں دکھا سکی، اپوزیشن مسائل کو اجاگر نہیں کر سکی اور اسٹیبلشمنٹ وہ ختم کرنے میں ناکام رہی جو اس نے شروع کیا تھا۔ غیر یقینی کی اس کیفیت میں سب واپس ڈرائنگ بورڈ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ لیکن کیا انہوں نے درست سبق حاصل کر لیے ہیں؟ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ پی ٹی آئی اپنی 2018 کی فتح سے کبھی سنبھل ہی نہیں پائی۔ جس دن سے وزیر اعظم نے اگست 2018 میں وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایا ہے، یہ نیچے ہی نیچے جا رہی ہے۔ اس کے بعد سے آنے والے ہر سال میں حکومت کی کارکردگی پچھلے سے بدتر رہی ہے، اس کی ساکھ پہلے سے کم ہوئی ہے اور حکمرانی کے لئے اس کی اہلیت پر پہلے سے زیادہ سوالات اٹھے ہیں۔

اس پر مستزاد یہ کہ میاں صاحب کی واپسی کی خبریں گردش کرنے لگی ہیں اور اس کے ساتھ ہی میاں شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کی خبرین گردش کرنے لگی ہیں اور یہ بات بھی طے ہے کہ عمران خان کو مخالف کیمپ کے دولوگوں سے ہمیشہ خطرہ محسوس ہوا ہے اور وہ دو لوگ شاہد خاقان عباسی اور میاں شہباز شریف ہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے  ہی میاں شہباز شریف کو مسلم لیگ نون کی جانب سے اگلا وزیراعظم قرار دیا۔ تو بحث کا مرکزی خیال تین شخصیات اور ایک سیاسی جماعت تک محدود ہو گیا۔ دلچسپ پہلو اس مباحثے کا یہ رہا کہ حکمران پی ٹی آئی نے بھی اس بحث میں حصہ لیتے ہوئے محدود المعنی اعتراض اٹھایا کہ نون لیگ میں دھڑے بندی ہے نون لیگ واضح طور پر تقسیم ہو رہی ہے ایک حلقہ شہباز شریف کو وزیراعظم بنانا چاہتا ہے جبکہ محترمہ مریم نواز اور ان کے قریبی حلقے انہیں اگلا وزیراعظم سمجھتے ہیں۔

شاہد خاقان عباسی کے بیان کے علاوہ تمام تجزیہ نگاروں کا بھی اس پر اتفاق نظر آیا کہ اگلا وزیراعظم جو کوئی بھی ہو گا اس کا حتمی فیصلہ جناب میاں محمد نواز شریف ہی کریں گے۔ اور یہ کہ آئندہ حکومت نون لیگ کی ہے ہوگی۔ پی ٹی آئی نے اس خیال سے اتفاق کا اشارہ دیا۔ سیاسی مباحثے کے اس متفقہ نکتہ نے جناب نواز شریف کو ملکی سیاسی مباحثے کا محوری نقطہ بنا دیا۔ پی ٹی آئی نے نون لیگ میں آرزو مندانہ داخلی اختلاف رائے کا سہارا لیا اور آئندہ کے حکومتی سیاسی منظر نامے میں اپنے کسی کردار کو خود ہی نظر انداز کر گئی کسی بھی اہم رہنماء نے تسلیم نہیں کیا یا بیان نہیں دیا کہ جناب عمران خان ہی اگلے وزیراعظم ہوں گے ! یا کم از کم یہ کہا جا سکتا تھا کہ انتخابات میں پی ٹی آئی کامیابی حاصل کرے گی اور اگلی حکومت بھی وہی بنائے گی۔ کم از کم اپنے ہم خیال حلقے کی خوش امیدی کے لیے سہی ایسا بیان دینا تو آسان تھا لیکن اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی میں خود شکستگی کا احساس گیرائی تک سرایت کرچکا ہے۔

 تاہم یہاں ایک صورت یہ بھی ممکن ہے کہ میاں نواز شریف کی نا اہلی کا فیصلہ بعض اہم قانونی دلائل اور واقعات کی روشنی میں منسوخ ہو جائے، تو بھی معروضی صورتحال میں جوہری تبدیلی آ جائے گی۔ زبیر صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ مریم نواز کی سزا ختم نہ ہوئی تو وہ انتخاب لڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گی ان الفاظ سے انہوں نے میاں شہباز شریف کے لئے وزیراعظم بننے کی بالواسطہ راہ ہموار کرنے کی شعوری کوششیں کی تھی تاکہ مرکزی ملکی سیاسی مباحثے سے اگلے وزیراعظم کے حوالے سے کسی بھی دوسری جماعت کے کسی رہنماء کو خارج کر دیا جائے اور نون لیگ کو آئندہ کے لیے مرکزی حکومت ساز جماعت تصور یا تسلیم کرایا جائے حتمی نقطہ برامد ہوا کہ اگلا وزیراعظم کون ہو گا؟ اس کا حتمی اختیار یا فیصلہ میاں نواز شریف نے ہی کرنا ہے۔ اور یہ بات مستقبل کے سیاسی منظرنامے کا تعین کرنے میں اہم نوعیت کا حامل ہے۔

بہر حال تحریک انصاف کے چل چلاؤ کا وقت تو آ ہی گیا ہے کیونکہ مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ اب تو تحریک انصاف کے حامی لوگ میڈیا پر بیٹھ کر اسے اپنی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ کہتے ہیں۔ خیبرپختونخوا جہاں پر ایک روپے پچیس پیسے فی یونٹ بننے والی بجلی جس طرح یہاں کے لوگوں کو تیس روپے فی یونٹ مل رہی ہے۔ اس نے تحریک انصاف کو ناقابل بیان مشکل میں ڈالا ہوا ہے۔ بے روزگاری ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی، چینی، پٹرول، آٹا مہنگا ہونے کی ایک طویل فہرست ہے جو عمران خان کے جوانوں میں جنون کو مقتول کرنے کا باعث بنی ہے۔ ٹکٹوں کی تقسیم بھی بہت بڑا مسئلہ بن کر ابھری ہے۔

ایسے میں کیا یہ سمجھا جائے کہ عمران خان کی جماعت کی کشتی ڈوب چلی ہے؟ اس کا جواب یقیناً نا میں ہے لیکن اس سوال کا جواب ضرور ہاں میں ہے کہ عمران خان کو اپنے کارکن کو دوبارہ ساتھ کھڑا کرنے کے لئے ایک انتہائی ہائی وولٹیج کا جھٹکا دینا ہو گا۔ اپنے انتخابی وعدوں میں سے کسی ایک کو پورا کرنے کے لئے کوئی ایسا کام کرنا ہو گا جو اس کے کارکن کو اس قابل بنا سکے کہ وہ عام لوگوں سے نظریں ملا سکے ورنہ کوئی بھی عارضی کوشش یا لولی پاپ کسی کام کا نہیں ہو گا جب کہ مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف کی جماعتوں کے مورال بھی بلندی کی انتہاؤں کو چھو رہے ہوں۔ بہرحال یہ سال اختتام پر ہے اور سیاسی منظر نامے پر تمام مہرے رکھے جاچکے ہیں۔ دیکھنا ہے اب اگلے سال شاہ کو شہ مات ہوتی ہے یا شاہ فتح کے شادیانے بجاتا ہے۔

منگل، 28 دسمبر 2021

About خاکسار

Check Also

رفح پر صہیونی حملوں کے ساتھ عراقی مقاومت کے اسرائیل پر حملوں میں شدت

رفح پر صہیونی فورسز کی جانب سے باقاعدہ حملوں کا اعلان ہوتے ہی عراقی مقاومت …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے