Breaking News
Home / اخبار / چلی کے نئے صدر کون ہیں؟

چلی کے نئے صدر کون ہیں؟

لاطینی امریکہ میں برازیل سے وینیزویلا اور کیوبا تک دائیں بازو اور سوشلسٹوں کے مابین سیاسی کشیدگی کی ایک طویل تاریخ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب پورے کطے میں سیاسی جنگ غیر روایتی بائیں بازو اور دائیں بازو کے گروہوں کے مابین بٹ چکی ہے اور دونوں کا اکثر آمنا سامنا رہتا ہے۔ اس کی ایک مثال چلی ہے جہاں  چلی میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سابق طالب علم رہنما گیبریل بورِچ نے 56 فیصد ووٹ حاصل کرکے میدان مار لیا ہے۔گیبریل پورچ کے مدمقابل دائیں بازو کی جماعت کے امیدوار خوسے انتونیو کاست 44 فیصد ووٹ حاصل کرسکے۔ نوجوان رہنما کے صدر منتخب ہونے پر ملک بھر میں جشن منایا جا رہا ہے۔وہ چلی کی تاریخ کے کم عمر ترین صدر ہیں۔

بورچ کے انتخابات میں جیت سے اقتدار میں آنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بائیں بازو کی قوتیں اقتدار میں آگئی ہیں۔ چلی میں روایتی سوشلسٹ پارٹی درحقیقت بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے اپروو ڈگنٹی انتخابی اتحاد کے سامنے اپنی اہمیت کھو چکی ہے۔ اپروو ڈگنٹی کمیونسٹ پارٹی اور بورچ کے سوشل کنورجنس گروپ  کی طرح بائیں بازو کی جماعتوں کا اتحاد ہے۔ ان انتخابات میں انتہائی بائیں بازو کی جماعتوں کا انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں سے مقابلہ تھا۔ بورچ کا مقابلہ انتونیو خوسے کے ساتھ تھا جو جہ دائیں بازو کی جماعت ری پبلکن پارٹی کے بانی اور رہنما ہیں۔ انتخابات کے بعد ددنوں جماعتوں نے خوش اسلوبی سےانتخابات کو قبول کیا۔

الیکشن جیتنے کے بعد گابریل بورچ نے اپنی کامیابی کی تصدیق کرتے ہوئے ٹویٹ کیا، ‘ہم متحد ہیں‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب چلی کے لوگ متحد ہوں تو وہ زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ بورچ نے اپنے ٹویٹ میں کامیابی کا سفر جاری رکھنے کا بھی اظہار کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ چلی کی ساری عوام کے صدر ہیں۔ قبل ازیں صدارتی الیکشن میں شکست کھانے والے خوصے انٹونیو کاسٹ نے بھی اپنے ٹویٹ میں کہا کہ چلی سب سے پہلے ہیں اور اب سب نامزد صدر کے ساتھ مل کر ملک کی تعمیر و ترقی کا سلسلہ بحال کریں گے۔

نوجوان رہنما کا ابھرنا

چلی کے نامزد صدر گابریل بورچ پینتیس برس کے ہیں اور انہیں عوامی مقبولیت دس برس قبل ہونے والے عوامی مظاہروں کے دوران حاصل ہوئی۔ وہ سن 2011 سے لے کر 2013 تک کے مظاہروں میں ایک اہم رہنما بن کر ابھرے تھے۔سن 2019 میں چلی کی عوامی بے چینی اور احتجاجی عمل کے دوران بھی وہ پیش پیش تھے۔ وہ اُس معاہدے کے مذاکرات میں بھی شامل تھے، جس کے تحت دستور کی تبدیلی کے ریفرنڈم کا انعقاد کیا گیا تھا۔ نئے انتخابات نئے دستور کے تحت ہوئے ہیں۔ 2013 میں جب وہ چلی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے تھے وہ ٹائی اور جیکٹ کے بغیر پارلیمنٹ میں آئے تھے کیونکہ انہوں نے اس ڈریس کوڈ کو اعلی طبقے کا ہتھیار قرار دیا تھا۔ تاہم بورچ چن کے والد تیل کی ایک کمپنی میں انجینیرہیں وہ اعلی طبقے سے بات کرنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔

بورچ نے مظاہرین اور اس سابقہ حکومت کے مابین مذاکرات کار کا کردار ادا کیا تھا جس کے تحت ملک کے حالیہ آئین کو تبدیل کرنے کے لیے 2022 میں ریفرنڈم کیا جائے گا۔ یہ آئیں سابقہ آمر جنرل آگسٹو پنوشے کی حکومت کی طرف سے تیار کیا گیا تھا جسے امریکی حمایت بھی حاصل تھی ۔ جنرل آگسٹو پنوشے نے فری مارکیٹ اکانومی کا عندیہ دیا تھا۔ اگرچہ جنرل آگسٹو پنوشے کے تیار کردہ امریکی ماڈل کی بدولت چلی لاطینی امریکی کی امیر ترین معیشت بن گیا ہے تاہم اس ماڈل نے متوسط اور غریب طبقے کو معاشی طور پر غیر مستحکم کر دیا ہے جس کے نتیجے میں 2019 میں جنرل آگسٹو پنوشے کے خلاف احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ جیس کی قیادت بورچ نے کی تھی۔

ان پرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں 30 افراد جاں بحق ہوگئے تھے اور چلی کے سابق ارب پتی  صدر سبسٹین پینرا آئین میں تبدیلی کے لیے ریفرنڈم کے معاہدے پر تیار ہوگئے تھے ۔ اس دوران بورچ نے اپنے ہارڈ لائنر حلیفوں کو پنیرا کے ساتھ مشترکہ مفادات پر بات چیت کے لیے آمادہ کر لیا۔ 2019 سے بورچ اس بات پر اپنے شہرت کی بلندیوں پر تھے ویہ آئین میں مساوات کی بات کرتے تھے اور امیروں پر ٹیکس نافذ کرنے کی بات کرتے تھے۔ بورچ کی اتوار کی فتح سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے مخالفین میں مقبول رہنما ہیں اور ان کے معاشی پروگرام کی حمایت چلی کے لوگوں کی اکثریت کررہی ہے۔ بورچ درحقیقت ایک وسیع سیاسی ایجنڈے پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کررہے ہیں جو کہ صرف معاشی انصاف پر مبنی نہیں ہے بلکہ وہ مقامی افراد، ہم جنس پرستوں اور غریب لوگوں کے یکساں حقوق پر بھی مبنی ہے۔

ان کا پروگرام 21ویں صدی کے بائیں بازو کا وژن ہے ، یہ روایتی بائیں بازو کا وژن نہیں ہے وہ قدیم درجہ بندی کو چیلنج کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ حال ہی میں وہ انتہائی بائیں بازو کے مؤقف سے خود کو دور کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جیسا کہ وینیزویلا اور نکاراگوا کے معاملے میں دیکھا گیا تھا جن میں بائیں بازو کے حکمران آمرانہ طرز حکومت کی طرف مائل ہوگئے تھے تاہم اگر وہ اپنی پوزیشن کو فوری طور پر تبدیل کرتے ہیں تو ان کے پرجوش حمایتی فوری طورپر ان کے خلاف ہوسکتے ہیں۔

منگل، 21 دسمبر 2021

About خاکسار

Check Also

غزہ پر تل ابیب کے وحشیانہ جرائم کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، سربراہ انصار اللہ

یمن کی تحریک انصار اللہ کے سربراہ نے اس بات پر زور دیا کہ صیہونی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے