Breaking News
Home / اخبار / ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات سے کیا حاصل ہوگا؟

ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات سے کیا حاصل ہوگا؟

پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان اس وقت امن مزاکرات جاری ہیں اور اس سلسلے میں قبائلی اضلاع سے 50 سے زائد ممبران پر مشتمل جرگہ خصوصی طیارے کے ذریعے پشاور سے کابل بھیجا گیا۔ یہ جرگہ قبائلی عمائدین، سیاستدانوں اور ارکان پارلیمنٹ پر مشتمل ہے جنہوں نے کالعدم ٹی ٹی پی کے سینئر رہنماؤں سے 2 روز تک کابل کے انٹر کانٹینینٹل ہوٹل میں ملاقات کی اور فاٹا کے انضمام کے سب سے متنازع معاملے سمیت دیگر مطالبات پر بات چیت کی۔دوسری جانب اس مذاکراتی کمیٹی میں شامل بعض شرکا نے اس بات کا اشارہ دیا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان فاٹا کے انضمام کا فیصلہ واپس لینے کے علاوہ چند دیگر مطالبات سے تقریباً دستبردار ہو چکی ہے۔

ذرائع کے مطابق مذاکرات کے لیے کابل بھیجی گئی اس کمیٹی کے 53 ممبران کا انتخاب کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا گیا تھا کہ اس کے ممبران میں طالبان پر اثر رکھنے والے قبائلی رہنماؤں اور عمائدین کے ساتھ ساتھ طالبان رہنماؤں کے قریبی رشتے دار بھی شامل ہوں۔ مذاکراتی کمیٹی کے کوآرڈینیٹر اور خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف اس کمیٹی کے غالباً واحد غیر قبائلی رکن ہیں۔ یوں تو پہلے سے ہی فوج اورٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات چل رہے تھے لیکن تحریک طالبان اور بعض سویلین قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بیچ کچھ مسائل حل طلب تھے جس کے لیے اس کمیٹی کے طالبان کے ساتھ کابل میں یہ مذاکرات ضروری تھے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی قیادت نے کابل مذاکرات میں اُن کے ساتھ سب سے زیادہ جس معاملے پر زور دیا وہ فاٹا کی قبائلی اور آزاد حیثیت کی بحالی کا تھا، مگر اس کے جواب میں انھوں نے طالبان پر واضح کر دیا کہ فاٹا انضمام کا فیصلہ پارلیمان کی منظوری سے ہوا ہے اور ایسے میں اگر کوئی اسے واپس بھی کرنا چاہے تو اس کے لیے قومی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت ضروری ہو گی جس کے بغیر یہ ناممکن ہو گا۔ بیرسٹر سیف کے مطابق کابل میں دو دن کے دوران ایک، ایک دن میں مذاکرات کے چار، چار دور بھی ہوئے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دو دنوں کے دوران فریقین نے کتنی محنت سے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’طالبان کا زیادہ فوکس مستقبل میں اُن کی تنظیمی سرگرمیوں کی آزادی، نظام انصاف اور جرگوں کی آزادی پر تھا، اس لیے وہ انضمام کے عمل کو رول بیک کرنے پر زیادہ زور دے رہے تھے جس پر ہم نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ اب اس عمل کو قبائلی عوام سمیت سیاسی پارٹیاں بھی نہیں مانیں گی۔‘ بیرسٹر سیف نے دعویٰ کیا کہ ’اس پر انھوں نے ہم سے وعدہ لیا کہ ہم اُن کی بات حکومت، فوج، عدالت اور سیاسی جماعتوں تک پہنچائیں گے تاکہ اُن کی معاشرے میں باعزت واپسی کو ممکن بنایا جا سکے اور ایسا راستہ نکالا جا سکے جس کے ذریعے وہ (طالبان) معاشرے میں باعزت زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں۔

’ہم نے انھیں پاکستان اور خصوصاً خیبرپختونخوا کے لوگوں کی جانب سے محبت کا پیغام پہنچایا جس کے جواب میں انھوں نے اس سیز فائر کو جو انھوں نے 30 مئی تک کیا تھا، کو غیرمعینہ مدت تک توسیع دے دی اور ہمارے اور ان کے مابین اس بات پر اتفاق بھی ہوا کہ ہم اس دوران کوئی ایسے بیان نہیں دیں گے جو مذاکرات کو سبوتاژ کر سکیں۔ تحریک طالبان کی جانب سے ماضی میں اٹھائے گئے مطالبات پر کیا وہ اب بھی قائم ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اس مذاکراتی کمیٹی کے ایک رُکن نے کہا کہ ’مذاکراتی عمل کے دوران طالبان کی جانب سے وہ تمام مطالبات دہرائے گئے جو انھوں نے عرصہ دراز سے اپنا رکھے تھے تاہم اس کے ساتھ ایسا بھی لگا کہ یا تو وہ انضمام کے علاوہ اپنے دیگر مطالبات سے دستبردار ہو چکے ہیں یا وہ ان مطالبات پر عسکری قیادت کے ساتھ بات کریں گے۔

ٹی ٹی پی کی جانب سے مذاکرات کے لیے ماضی میں اپنے گرفتار رہنماؤں کی رہائی، قبائلی علاقوں سے فوج کی واپسی، آئین پاکستان پر اعتراضات اور فاٹا انضمام کا خاتمہ شامل تھا۔ بی بی سی نے ان مذاکرات کے حوالے سے رد عمل جاننے کے لیے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے متعدد بار رابطہ کیا تاہم تادم تحریر کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ یہ 53 رکنی مذاکراتی کمیٹی جنوبی وزیرستان سے سینٹ کے سابق رُکن اور جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا صالح شاہ کی سربراہی میں قائم کی گئی ہے، جس میں سابق گورنر انجینیئر شوکت اللہ، موجودہ وفاقی وزیر ساجد طوری، سینٹ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین سمیت سابق اراکین پارلیمنٹ اور تمام قبائلی اضلاع کے اہم ترین عمائدین شامل ہیں۔

کابل کا دورہ کرنے والی کمیٹی میں شامل قبائلی علاقے کی پہلی سیاسی جماعت ’تحریک اصلاحات پاکستان‘ (سابقہ متحدہ قبائل پارٹی) کے وائس چیئرمین ملک حبیب نور اورکزئی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کابل جانے والی اس کمیٹی کو سویلین حکومت اور عسکری قیادت دونوں کی مکمل تائید اورحمایت حاصل تھی اور دونوں اس معاملے پر سیم پیج (ایک صفحے) پر ہیں کیونکہ یہ سب امن چاہتے ہیں بلکہ امن کے قیام کے معاملے پر تحریک طالبان پاکستان میں بھی مکمل اتفاق پایا جاتا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ کابل میں اُن کی کمیٹی سے ٹی ٹی پی کے امیر مفتی نور ولی، مولوی فقیر محمد اور تمام اہم رہنماؤں پر مشتمل رہبر کمیٹی نے بھی حصہ لیا جبکہ فریقین کے مابین ثالثی کے فرائض افغان طالبان کی جانب سے سراج الدین حقانی نے سرانجام دیے۔

ملک حبیب نور اورکزئی کا کہنا تھا کہ ان کی کمیٹی حکومتی نمائندہ جرگہ کے طور پر ٹی ٹی پی سے بات چیت کر رہی تھی اور وہ خوشخبری دینا چاہتے ہیں کہ قریبا 98 فیصد مسائل حل ہو چکے ہیں بس دو فیصد پر بات چیت جاری ہے اورقوم اس حوالے سے جلد ہی خوشخبری سُنے گی۔ ہمیں معلوم ہے کہ ٹی ٹی پی والے بھی نہ صرف امن چاہتے ہیں بلکہ وہ باعزت واپسی بھی چاہتے ہیں۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی نے جب آپریشنز کے دوران پاکستان چھوڑا تھا تو اس وقت قبائلی علاقے میں ایف سی آر کا قانون نافذ تھا جبکہ سال 2018 میں ان علاقوں کے صوبے میں انضمام کے بعد یہاں پر قانون بدل چکا ہے، اس لیے بعض ایسے معاملات نے جنم لیا ہے جن کو حل کرنا ضروری ہے۔کابل جانے والے اس جرگے یا کمیٹی کی قانونی حیثیت کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ اس میں وفاقی وزیر ساجد طوری اور صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کی موجودگی بہت واضح پیغام ہے کہ اس کمیٹی کی قانونی حیثیت کیا ہے۔

دوسری جانب پیپلزپارٹی کی قیادت نے وفاقی کابینہ میں اپنے وفاقی وزیر ساجد طوری کو کابل میں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ حالیہ مذاکراتی عمل میں حصہ لینے پر شوکاز نوٹس جاری کیا ہے اور پارٹی قیادت نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ نوٹس کا تسلی بخش جواب نہ دینے پر ان کے خلاف کارروائی بھی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی اورایک اور اہم رہنما نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ساجد طوری جو قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 46 قبائلی علاقہ سات سے پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب رکن قومی اسمبلی ہیں، کابل میں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکراتی عمل میں بلااجازت شرکت پر کارروائی کی زد میں آئے ہیں۔

یاد رہے کہ ٹی ٹی پی کے شرائط میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ وہ قبائلی اضلاع میں مسلح واپسی چاہتی ہے۔ جرگہ ممبران کے مطابق ٹی ٹی پی کا موقف تھا کہ سیکیورٹی اداروں نے اس سے پہلے جو ان کے ساتھ مزاکرات کئے تھے ان میں یہ آپشن دی گئی تھی کہ مسلح واپسی ناممکن ہے کیونکہ اس عمل سے ان پر بین القوامی دباؤ آئے گا۔ اس لئے بہتری اسی میں ہے کہ اپ واپسی کریں اپنی سیاسی پارٹی رجسٹرڈ کریں اور اپنے مطالبات کے لئے پارلیمانی جدوجہد کریں۔

جرگہ ممبران کے مطابق ٹی ٹی پی نے غیر مسلح واپسی پر کھل کر تحفظات کا اظہار کیا اور انھوں نے اپنے تحفظات سے ہمیں آگاہ بھی کیا۔ ان کا ماننا تھا کہ پاکستان نے ماضی میں ہمارے ساتھ دھوکہ کرکے ہمارے کارکنوں کو نہ صرف نشانہ بنا کر مارا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سینکڑوں کارکنوں کو ٹارچر سیلز میں بھی مارا گیا، جو ہم سے غیر مسلح واپسی کا مطالبہ کررہے ہیں بنیادی طور پر وہ ہمیں پھنسانا چاہتے ہیں۔ ٹی ٹی پی نے اس موقف کو بھی دہرایا کہ ہماری واپسی سے پہلے ہمارے تباہ شدہ مکانات کو تعمیر کیا جائے اور جو ہمارے جو جنگجو اس جنگ میں مارے گئے ہیں ان کو ماہوار بنیادوں پر معاوضہ شروع کیا جائے۔ جرگہ ممبران کے مطابق ہم نے ان کو یقین دہانی کرادی کہ حکومت پاکستان اور فوجی قیادت اس شرط کو ماننے کے لئے تیار ہے۔

About خاکسار

Check Also

یورپی ممالک اسرائیل کی جنگی جارحیت کو روکنے کے لئے موئثر اقدامات کریں، ایران

ایرانی وزیر خارجہ کے سینئر مشیر برائے سیاسی امور نے کہا ہے کہ یورپی ممالک …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے