Breaking News
Home / اخبار / مملکت بند گلی میں

مملکت بند گلی میں

اللّٰہ کے دین کے سب سے بڑے مجرم ، ہم پاکستانی مسلمان ہیں ۔ قیادت اور قوم نے اللّٰہ سے بغاوت کر رکھی ہے۔ریاستی نظام کو قرآن و سنت کےمطابق ترتیب دینا تھا، وعدے کی نفی میں ہر حد پار کر چکے ۔کسی ملک و قوم کی ایسی حرماں نصیبی دیکھی سُنی پڑھی؟، بیٹھے بٹھائے مملکت دلدل میں دھنس چکی ہے۔قوموں ،ملکوں کا عروج سیاسی استحکام سے جُڑا ہے ۔ سیاسی اِستحکام کی کوکھ سے مضبوط ومربوط نظام جنم لیتاہے۔جدید و قدیم انسانی تاریخ رقمطراز ہے۔وہی مملکتیں پنپ سکیں جو مستحکم سیاسی نظام میں جکڑی تھیں۔ دوسری طرف سیاسی عدم استحکام میں ملک، قومیں تحلیل ہو گئیں۔

بدقسمتی ،وطن عزیز پچھلے 75سال سے عدم استحکام کی بُھول بُھلیوں میں گُم شُد،مستحکم سیاسی نظام سے محروم ہے ۔ جس آئیڈیلزم نے مملکت کو جنم دیا ،آج اُسی آئیڈیلزم سے کوسوں دور ہیں ۔ سیاستدان ، مذہبی رہنما ، دانشور، ٹیکنوکریٹس سارے اپنی اپنی اوقات میں مفاداتی لُوٹ سیل میںعرصۂ دراز سے مصروف ہیں ۔ سیاستدان، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ نے حدیں ٹاپیں، عوام کو بددیانتی سے اپنے اپنے مقصد کیلئے ورغلایا۔ 70سال میں عالمی ریکارڈ قائم کیا ،انواع واقسام کے نظام آزماڈالے۔

75 سالہ وطنی تاریخ سامنے ،ہر تجربے نے مملکت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا کر دم توڑا ۔ مملکت کئی بار بند گلی میں پھنسی ،ریاست دو لخت ہوئی۔ نکلنے کے راستے بند ہو چکے ۔ ہم کہاںپہنچنے کو ہیں ، ’’آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں ‘‘۔ آئین جو ریاستی استحکام کا ضامن بن سکتا تھا،موجودہ بحران کا حل دینے سے قاصر ہے ۔ماورائے آئین اقدامات میں سواستیاناس۔کوئی سیاستدان ،کوئی جرنیل ، کوئی جج نہیں بتا سکتا کہ ایٹمی ریاست جس شکنجے اور ٹریپ میں، اس سے بچ نکلنے کی کوئی سبیل بھی موجود ہے۔

خِرد کی گتھیاں سُلجھائیں ، مناجات و دُعائیں مانگیں، ملک پر آئی بلائیں ٹلنے کو نہیں ہیں ۔ سیاستدان، آئینی ادارے،قوم ، فرقے ، ہر طبقہ ایک دوسرے کیخلاف صف ِآرا اور دست و گریباں ۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔

آج آئین کی تشریح، تعبیر، توضیح سیاستدان، دانشمند، اہل نظروحکمت ،عدلیہ کی اپنی اپنی، ہر کوئی اپنے مطابق آئین چاہتا ہے۔ دوسری طرف ماورائے آئین اقدامات اسٹیبلشمنٹ کا دائمی پیدائشی حق اور استحقاق جب کہ عدلیہ کا ماضی، حال اور مستقبل ماورائے آئین اقدامات سے رچا بسا ہے۔ماضی کو گولی ماریں، عدلیہ کے حال نے بد حال کر رکھا ہے ۔ یوں لگتا ہے ملکی حالتِ زار سے غافل ادارے آپس میںٹکرانے کو ہیں۔ افراتفری (CHAOS) کے سارے کوائف پورے ہو چکے ہیں ۔

قرآن حکیم نے جن گستاخیوں پر قوموں کی پکڑ کی ،مملکت خداداد میں وہ سب بدرجہ اُتم موجود ہیں۔ پچھلے دس سال کی عرق ریزی ،محنت مشقت سے ہم بند گلی سے نکلنے کے سارے راستے بند کر چکے ہیں ۔

قومی مجرموں کی فہرست طویل ،مملکت کے اصل مجرم قبر کی مٹی کیساتھ مٹی ہو چکے ، لکیر وں کو پیٹنا بے سُود ہے ۔سوال ! زندہ مجرموں کو کیسے پکڑا جائے؟ دندناتے مجرم حساب دینے کی بجائے حساب مانگ رہے ہیں۔جنرل راحیل ، جنرل باجوہ ، چیف جسٹس ثاقب نثار ، جسٹس آصف کھوسہ ، عمران خان اور موجودہ حکمران ٹولہ اپنے ذاتی مفادات ، اقتدار اور طاقت کےلالچ میں اندھا دھند مملکت کو کمزور کرنے کی وجہ بن رہا ہے ۔ اللہ کی بے آواز لاٹھی کچھ کے خلا ف حرکت میں ، جسٹس ثاقب نثار آئندہ نسلوں کیلئےنشانِ عبرت بن چکے ہیں۔ جنرل باجوہ کی خواری، رُسوائی اور بے توقیری پراُن کا اپناادارہ لرزہ براندام ہے۔ یقینِ کامل کہ شراکت دار عمران خان کا انجام مختلف نہیں رہنا۔اگرچہ 2018 میں نقب لگا کر اقتدار پر قبضہ کیا۔ بنیاد 2014 کی واردات ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘، نے ڈالی تھی ۔ عمران خان کا سنگین جُرم، قرآن و حدیث کے حوالے اپنے ذاتی مفادات اور سیاست کو پروان چڑھا نے اور جھوٹ عام کرنے میں استعمال ہوئے ۔

اللّٰہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ،مکافاتِ عمل آج ہر مد میں سب کچھ دُہرانے کوہے ۔ کلثوم نواز اور نوازشریف کی بیماری کا مذاق اُڑایا گیا۔ٹرینڈ بنائے گئے۔ تقاریر، انٹرویو، سوشل میڈیا پر بہتان، جھوٹ اور کردار کُشی کا بازار گرم رکھا گیا ۔آج عمران خان کی ’’ٹانگ پر پلستر اور زخم ‘‘،چار سُو ایک مزاحیہ پروگرام بن چکا ہے۔ واہ مالک ! تیری قدرت متحرک ہے۔

نواز شریف نے بحیثیت وزیراعظم اپنے ماتحت JIT میں کئی ماہ پیشیاں بھگتیں۔ احتساب عدالت کی کارروائی کا حصہ بنے ۔اُسی پیرائے میں واٹس ایپ JIT ، اقامہ تنخواہ ، مانٹیرنگ جج ، ارشد ملک ویڈیو،دیگر درجنوں غیر قانونی حرکات و سکنات کی گرفت میں رہے۔ بالآخر6جولائی 2018 کو نواز شریف کو10 سال قید اور مریم نواز کو 7 سال قید کی سزا ملی جب کہ اس وقت دونوں لندن میں تھے۔ بستر مرگ پرعزیز ترین ہستی کو چھوڑ کر دونوں قید کاٹنے پاکستان واپس پہنچ گئے۔

کلثوم نواز اور نوازشریف کی بیماری پر تمسخر سے شروع ہواعمران خان کا سفر بنفس نفیس منتقل، اگلے مرحلے میں داخل ہونے کو ہے، نااہلی، پارٹی صدارت سے محرومی ، قید و بندسب کچھ عمران خان کی مد میں اپنے آپ کو دُہرانے کو ہے۔ ابھی تو ہلکے پھلکے مقدمات نے ہوش و حواس معطل کر رکھے ہیں ۔معمولی نااہلی اورقاتلانہ حملے پر عوامی ردِ عمل کی غیر موجودگی ، ملک بند کروانے کے دعوے کا سرعام بھانڈاپھوٹنا، عوام کی عدم دلچسپی نے موصوف کو ہلا کر رکھ دیا۔عمران خان دباؤ بڑھانے کی جنگ ہار چکے ہیں، بلف کال ہو چُکا ہے۔

ریاست کوآئین کے مطابق چلانا ناممکن ہو چکا ہے ۔دو رائے نہیں کہ فوری ضمنی انتخابات ، پنجاب اور KPK اسمبلیوں کے90 روز اندر انتخابات اور اکتوبر نومبر میں عام انتخابات کروانا ہوں گے۔ اِس کے کے علاوہ کوئی اورچارہ نہیں۔ بدقسمتی سے آئین پر چلتے ہیں تو تفکرات، ماورائے آئین کے اپنے خدشات، دونوں میں سے انتخاب تباہی کی طرف دھکیلنے کا فارمولا ہے۔ کوئی دیدہ ور، اہل نظر، دُور اَندیش یہ گارنٹی نہیں دے سکتا کہ وطنی سالمیت کو قائم رکھنا کیسے ممکن ہے؟ خانہ جنگی کے سارے لوازمات دونوں صورتوں میں ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ 1971میں بھی انتخابات ہی نے تو مملکت کو دو لخت کیا تھا۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔ اِنہی صفحات میں مارچ2018 اور دیگر بے شمارکالموں میں یہی بد قسمت پیش گوئیاں کی تھیں۔

آج کی کارروائی اور مخدوش حالات میں عدلیہ کا کردار تشویش میں اضافے کا باعث ہے۔ حالات کی سنگینی اور پیچیدگی کا اگراِدراک نہیں تو براہِ کرم حل دینے سے اِجتناب بَرتا جائے۔ تَنی مصیبت سے نبٹنے کی کتنی گنجائش ہے، دِل و دماغ شَل، اعصاب جواب دے چکے ہیں۔ وطنِ عزیز دلدل میں گردن تک دھنسا، آنے والے چند ماہ میں وہ کچھ سامنے، طبیعت مکدر اور مضمحل رکھنےکیلئے بہت کچھ ہے، ’’میرے مولا مجھے صاحب جُنوں کر‘‘۔ رہے نام اللّٰہ کا، معجزہ چاہئے۔

About خاکسار

Check Also

حماس نے صہیونی خفیہ ادارے تک کیسے رسائی حاصل کی، صہیونی اخبار کا تہلکہ خیز انکشاف

صہیونی اخبار کے مطابق حماس صہیونی خفیہ اہلکاروں اور جاسوسوں کے ٹیلی فون ٹیپ کرتی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے