Breaking News
Home / اخبار / صحافیوں کے خلاف صہیونی جنایات، بین الاقوامی قوانین کیا کہتے ہیں؟

صحافیوں کے خلاف صہیونی جنایات، بین الاقوامی قوانین کیا کہتے ہیں؟

جنیوا کنونشن اور اس سے ملحقہ پروٹوکولز میں اس بات پر تاکید کی گئی ہے کہ جنگ کے زمانے میں صحافیوں کے ساتھ عام شہریوں جیسا سلوک کیا جائے گا۔

  طوفان الاقصی شروع ہونے کے بعد پیش آنے والے واقعات میں غزہ میں بے گناہ شہریوں کے قتل عام کے بعد صحافیوں اور خبرنگاروں کا قتل ہے۔ اطلاعات کے مطابق حالیہ دس دنوں کے اندر صہیونی فوجیوں کے ہاتھوں 16 صحافی قتل اور 10 زخمی ہوگئے ہیں۔ 50 دفاتر کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ غزہ میں موجود صحافیوں کی جان کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ صحافیوں کے بڑے پیمانے پر قتل سے میڈیا اور صحافیوں کے بارے میں بین الاقوامی قوانین ذہن میں آتے ہیں۔

صہیونی حکومت صحافیوں پر حملے کے حوالے سے مجرمانہ ریکارڈ رکھتی ہے۔ 1987 میں ہونے والے پہلے انتفاضہ کے دوران تین صحافی صہیونی فوج کے ہتھے چڑھ گئے۔ رونامہ لومونڈ کے مطابق 2000 سے 2022 تک مقبوضہ فلسطین میں صحافتی ذمہ داری انجام دیتے ہوئے 35 صحافی قتل ہوگئے۔ سابق صہیونی وزیرخارجہ لیبرمن نے صحافیوں کے قتل کی توجیہ کرتے ہوئے کہا کہ حماس کے جنگجو صحافیوں کے لبادے میں آتے ہیں۔ ہم مشکوک موارد کو نظرانداز نہیں کرسکتے ہیں۔

گذشتہ سال 11 مئی کو صہیونی دہشت گرد فورسز کے ہاتھوں شہید ہونے والی الجزیرہ کی خاتون صحافی شیرین ابوعاقلہ نے کہا تھا کہ ہمیشہ صہیونی فورسز نے مجھے ویڈیو نکالنے سے منع کیا ہے۔ اس پورے عرصے میں مجھے صہیونیوں کے حملے کا خوف رہا ہے۔

حقائق اور واقعات کے بارے میں جاننا انسان کا حق ہے۔ جمہوری حکومتوں میں اس حق کو خاص اہمیت دی جاتی ہے اور اسی کے مطابق پالیسی بناتے ہیں۔ مخصوص مواقع مثلا جنگ کے دوران حکومتوں پر دہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ پہلی یہ کہ اس حوالے سے کوئی مانع اور رکاوٹ ایجاد نہ کریں اور دوسری یہ کہ شہریوں کو حقائق سے آگاہی کے لئے مناسب سہولیات فراہم کریں۔ اصل واقعات اور حقائق کے بارے میں اطلاعات عوام کو دینا حکومتوں پر فرض ہے۔ موجودہ دور میں بھی صحافی اس حوالے سے اہم کردار ادا کرتے ہیں اسی لئے جنگ کے زمانے ان کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔ جنگ کے فریقین کی زمہ داری ہے کہ خبرنگاروں کے ساتھ اس حوالے سے تعاون کریں۔

صحافیوں کو نقصان پہنچنے سے بچانا بین الاقوامی حقوق اور حکومتوں کے لئے اہم مسئلہ رہا ہے۔ جنگ کے دوران صحافیوں کو خصوصی طور پر ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ جنگ کے دوران اور صلح کے ایام میں بھی مخصوص اہداف کی وجہ صحافی نشانہ بنتے ہیں۔ یہ جنگ کے فریقین کی بین الاقوامی ذمہ داری ہے۔ یہ حقیقت کہ صحافیوں کو خاص طور پر عوامی اور غیر معینہ اہداف سے الگ کیا جا سکتا ہے اور انہیں نشانہ بنایا جا سکتا ہے لہذا بین الاقوامی حقوق کی پیروی کرنے والے اس حوالے سے مورد الزام قرار پاسکتے ہیں۔ امن اور جنگ کے زمانے میں مسلح تنازعات سے متعلق پروٹوکول اور کنونشن کی طرح بین الاقوامی قوانین میں بھی ہمیشہ افراد کے قانونی اور انسانی حقوق کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ علاوہ ازین بین الاقوامی قانون کمیشن کی شقوں میں افراد کی جسمانی اور نفسیاتی سالمیت اور اس کے لیے باہمی ذمہ داری سے متعلق بین الاقوامی ذمہ داریوں پر زور دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جنگ زدہ علاقوں میں کوریج کرنے والے صحافیوں کے حقوق کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔

صہیونی حکومت نے غزہ کی حالیہ جنگ کے دوران ان بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کا پامال کیا ہے جن میں صحافیوں کی حفاظت کا خاص خیال لازمی قرار دیا گیا تھا۔ جنیوا کنونشن کے تحت جنگ زدہ علاقوں میں کوریج کے دوران صحافیوں کے ساتھ عام شہریوں کی طرح سلوک کرنے پر تاکید کی گئی ہے۔ ان جان کی حفاظت کو یقینی بنایا گیا ہے علاوہ ازین جنگی محاذوں پر جانے کے لئے ان کے ساتھ تعاون اور ان کی حمایت کا وعدہ کیا گیا ہے۔ صحافتی اداروں کے کارڈ رکھنے والوں کو بین الاقوامی قوانین کے تحت خصوصی رعایت دی گئی ہے۔

طوفان الاقصی کے بعد صہیونیوں کا ایک اہم اقدام صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ ہے۔ فلسطینی صحافیوں کے خلاف حملے انسانیت کے خلاف جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت ان جرائم میں مرتکب ہونے والے پر ان اقدامات کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے نقصانات کی تلافی لازم ہے۔ موجودہ حالات میں اقوام متحدہ کی جانب سے صہیونی حکومت پر خاص دباو نہیں ہے لہذا انسانی حقوق کے دوسرے اداروں پر لازم ہے کہ صہیونی حکومت پر دباو لگائیں

About خاکسار

Check Also

یورپی ممالک اسرائیل کی جنگی جارحیت کو روکنے کے لئے موئثر اقدامات کریں، ایران

ایرانی وزیر خارجہ کے سینئر مشیر برائے سیاسی امور نے کہا ہے کہ یورپی ممالک …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے