Breaking News
Home / دسته‌بندی نشده / اللہ کی صفات کو سمجھنے کے آٹھ بہترین طریقے:

اللہ کی صفات کو سمجھنے کے آٹھ بہترین طریقے:

ایمان کا بنیادی جزو یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ پس اس کلمے کا اولین حصہ توحید یعنی اللہ کے ایک ہونے اور اس کی واحدنیت کا اعلان ہے اور دوسرا حصہ رسالت کا اعلان کرتا ہے یعنی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ کے آخری رسول ہیں۔  توحید کے تین اجزاء ہیں۔

1۔ اللہ کو واحد ماننا اور اس کی ذات میں کسی کوشریک نہ کرنا

2۔ اللہ کی صفات میں توحید یعنی اس کی صفات میں کسی کو شریک نہ ٹھہرانا

3۔عبادت میں توحید یعنی سوائے اس کے کسی کی عبادت نہ کرنا

پس توحید کے اولین دو اجزاء توحید کے علم سے متعلق ہیں اور تیسرا جز عمل یعنی عبادت سے متعلق ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ صفات میں اللہ کی توحید سے کیا مراد ہے۔

1۔ صفات کی اقسام

اللہ کی صفات کی ویسے تو دو بڑی اقسام ہیں، اول وہ جو اس کے ناموں سے جڑی ہیں اور ان سے واضح ہیں اور دوسری وہ صفات جو کہ اس کے احکامات اور اعمال سے جڑی ہوئی ہیں۔ اللہ کا ہر صفاتی نام کسی نہ کسی صفت سے جڑا ہے جب کہ اعمال اور احکامات سے منسل صفات کا کوئی اختتام نہیں تاہم ہم ان صفات کو کسی حد تک ذیل کی آیات سے جان سکتے ہیں۔

اور اگر زمین میں جو درخت ہیں وہ سب قلم ہوجائیں اور دریا سیاہی اس کے بعد اس دریا میں سات اور دریا سیاہی کے آ ملیں تو بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں، بے شک اللہ زبردست حکمت والا ہے۔ (القرآن 31:27).

2۔ ہر لحاظ سے مثل و بے مثال

اللہ کی صفات میں بہت ساری صفات کے علاوہ زندگی، صلاحیت، سماعت، دیکھنا، علم، حکمت، رحم وغیرہ شامل ہیں ۔ یہ تمام صفات کاملہ ہیں اور کسی بھی نقص یا کمی سےمکمل پاک ہیں۔ اللہ پاک اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ ۔ تمام تر اور بلند تر تعریفیں اللہ کے لیے ہی ہیں۔قرآن کریم میں ارشاد باری تعٰالٰی ہے کہ "جو آخرت کو نہیں مانتے ان کی بری مثال ہے، اور اللہ کی شان سب سے بلند ہے، اور وہی زبردست حکمت والا ہے۔ (القرآن 16:60)۔ اسی طرح ارشاد ہے کہ ” کیا انہوں نے زمین میں سیر نہیں کی کہ وہ دیکھتے ان لوگوں کا کیسا برا انجام ہوا جو ان سے پہلے تھے اور وہ ان سے زیادہ طاقتور تھے، اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ اسے کوئی چیز آسمانوں میں اور نہ زمین میں عاجز کر دے، بے شک وہ جاننے والا قدرت والا ہے۔ (القرآن, 35:44).

3. مثبت صفات

اللہ کی ذیل میں صفات ایسی ہیں کہ جن کے بارے میں اللہ نے اپنی کتاب میں تصدیق فرمائی ہے یا پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زبان مبارک سے فرمائی ہے ۔ یہ صفات درج ذیل ہیں۔

1۔ ہر چیز کا علم کاملہ ۔ مثال کے طور پر اللہ وہ ہے جس نے جو کچھ زمین میں ہے سب تمہارے لیے پیدا کیا ہے، پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا تو انہیں سات آسمان بنایا، اور وہ ہر چیز جانتا ہے۔ (القرآن, 2:29).

2۔۔ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔ مثال کے طور ارشاد ہے ” بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے (القرآن, 2:20)

3۔اللہ ہر چیز کو سنتا ہے  ۔ جیسا کہ ارشاد ہے کہ پس جو اسے اس کے سننے کے بعد بدل دے اس کا گناہ ان ہی پر ہے جو اسے بدلتے ہیں، بے شک اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔(القرآن, 2:181)

4۔ اللہ ہر چیز کو دیکھتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعٰالٰی ہے کہ اور اللہ دیکھتا ہے جو وہ کرتے ہیں (القرآن, 2:96)

5۔ اللہ ارادے کی مضبوطی پر حاوی ہے جیسا کہ ارشاد ہے کہ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔(القرآن, 2:253)

6. اللہ ہر چیز کی تخلیق پر قدرت رکھتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، اور جب کوئی چیز کرنا چاہتا ہے تو صرف یہی کہہ دیتا ہے کہ ہو جا، سو وہ ہو جاتی ہے۔۔(القرآن, 2:117)

7۔ للہ پاک قادرالکلام ہیں مثال کے طور قرآن کریم اللہ پاک کے الفاظ ہین ۔ یہ اللہ کی جانب سے انسانوں کو خبردار کرنے کے لیے اتارا گیا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہی ارشاد ہے کہ ایسا نہیں چاہیے بے شک یہ تو ایک نصیحت ہے۔(القرآن, 80:11) یہی وجہ ہے کوئی شخص قرآن کریم میں کوئی تحریف نہیں کر سکتا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعٰالٰی ہےکہکیا کہتے ہیں کہ تو نے قرآن خود بنا لیا ہے، کہہ دو تم بھی ایسی دس سورتیں بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جس کو بلا سکو بلا لو اگر تم سچے ہو۔(القرآن, 11:13)

8۔ اللہ کو فنا نہیں ہے ۔ اللہ کی ذات ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ارشاد باری تعٰالٰی ہے کہ ” اللہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، زندہ ہے سب کا تھامنے والا، نہ اس کو اونگھ دبا سکتی ہے نہ نیند، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے سب اسی کا ہے، ایسا کون ہے جو اس کی اجازت کے سوا اس کے ہاں سفارش کر سکے، تمام حاضر اور غائب حالات کو جانتا ہے، اور سب اس کی معلومات میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر جتنا کہ وہ چاہے، اس کی کرسی سب آسمانوں اور زمین پر حاوی ہے، اور اللہ کو ان دونوں کی حفاظت کچھ گراں نہیں گزرتی، اور وہی سب سے برتر عظمت والا ہے۔ ( القرآن 255:2 )

 4. منفی صفات

یہ ایسی صفات ہیں جن کی اللہ نے نفی فرمائی ہے اور خود کو ان سے پاک قرار دیا ہے۔ یعنی جن سے اللہ پاک نے قرآن کریم میں خود کو مبرا اور پاک قرار دیا ہے یا اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زبان سے خود کو ان صفات سے عاری قرار کردیا ہے۔ درحقیقت یہ صفات نہیں ہیں بلکہ یہ کمی یا خامیاں ہیں جیسا کہ موت، اونگھ، لاعلمی، بھول جانا، تھکاوٹ، نا اہل ہونا۔ ایسی بہت ساری صفات ہیں تاہم چند ایک کا قرآن کریم میں تذکرہ ہے۔

1۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔(112:3)

2۔ نہ اس کو اونگھ دبا سکتی ہے نہ نیند(2:255)

3۔اس کی کرسی سب آسمانوں اور زمین پر حاوی ہے، اور اللہ کو ان دونوں کی حفاظت کچھ گراں نہیں گزرتی(2:255)

4۔اور تم اس زندہ خدا پر بھروسہ رکھو جو کبھی نہ مرے گا اور اس کی تسبیح اور حمد کرتے رہو (25:58)

5۔بے شک وہ جاننے والا قدرت والا ہے۔(35:44)

6۔ اللہ جہان والوں سے بے پروا ہے (3:97)

7۔ کوئی چیز اس کی مثل نہیں، اور وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔(42:11

5. مثبت صفات پرغورو فکر

اللہ کی صفات پر غوروفکر کرنے سے انسان پر علم کے دروازے کھلتے ہیں اور وہ اللہ کی تعریف میں زیادہ رطب اللسان ہوجاتا ہے۔ اس بات کا ادراک ہمیں قرآن کریم کی اس آیت سے ہوسکتا ہے کہ  "بے شک آسمان اور زمین کے بنانے اور رات اور دن کے آنے جانے میں البتہ عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔وہ جو اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے یاد کرتے ہیں اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں فکر کرتے ہیں، (کہتے ہیں) اے ہمارے رب تو نے یہ بے فائدہ نہیں بنایا تو سب عیبوں سے پاک ہے سو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔”(3:190-191)

اسی طرح ایک اور آیت میں ارشاد ہے کہ ”  اے جنوں اور انسانوں کے گروہ! اگر تم آسمانوں اور زمین کی حدود سے باہر نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ، تم بغیر زور کے نہ نکل سکو گے (اور وہ ہے نہیں)۔” (55:33).

6۔اللہ کی ذات اور اس کے افعال سے منسلک صفات

اللہ کی ذات اور اس سے منسلک افعال کی صفات مثبت صفات ہیں۔ پہلی قسم صرف اللہ کی ذات سے منسوب ہے اور اس میں اللہ کی ذاتی صفات شامل ہیں جیسا کہ علم، صلاحیت ، سماعت، بصارت، قادر مطلق ہونا، حکمت، شان کی بلندی اور اس کی عظمت اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ کی ذات کا چہرہ، اس کے ہاتھ اور اس کی آنکھیں۔ جب کہ دوسری قسم میں اللہ کے افعال کی صفات ہیں موجود ہیں جیسا کہ جب اللہ جو کچھ چاہتا ہے وہ وہ کر رہتا ہے۔ مثال کے طور پر اللہ پاک فرماتے ہیں کہ  ؔاس کی تو یہ شان ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اتنا ہی فرما دیتا ہے کہ ہو جا، سو وہ ہو جاتی ہے۔  (القرآن 36:82).

7. اللہ کی صفات کی انفرادیت

اللہ خالق ہے اور باقی سب مخلوقات۔ اس لیے خالق کی خصوصیات کسی طور مخلوق کی خصوصیت کے ساتھ موازنہ نہیں رکھتیں۔ مثال کے طور پر قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ "رحمان جو عرش پر جلوہ گر ہے۔(20:5)

پس اگر ہم اللہ کے عرش کے جلوہ گر ہونے کا مقابلہ کسی بادشاہ کے دربار سے کریں تو یہ کسی صورت ممکن نہیں کیونکہ اللہ کا دربار عرشوں پہ جلوہ گر ہے اور کوئی بادشاہ اس کی ہمسری کے ہرگز ہرگزقابل نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ بادشاہوں کا بادشاہ اور قادر مطلق ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں ذات باری تعٰالٰی فرماتے ہیں کہ ” کوئی چیز اس کی مثل نہیں، اور وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔(Qur’an, 42:11).

8. اللہ کی صفات میں اختراع

پس ہمارے لیے یہ لازم ہے کہ اللہ کی جوصفات قرآن اور سنت میں بیان کی گئی ہیں ہم ان تک محدود رہیں اور اپنے پاس سے اس کی کوئی صفات نہ گھڑیں۔ قرآن اور سنت اللہ کی صفات کو تین طریقوں سے ہی بیان کرتے ہیں اور ہمیں انہی تک محدود رہنا چاہیے۔ جیسا کہ

1۔ اللہ رحیم اور قادر مطلق ہے۔

2۔ جیسا کہ اللہ معاف کرنے والا ہے اور یہ صفت صرف اسی کی ہے ۔

3۔ جیسا کہ اللہ کے افعال کی خصوصیات کہ رحمان جو عرش پر جلوہ گر ہے

نتیجتا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اللہ ازل سے ابد تک رہنے والا ہے اور کوئی اس کا پیدا کرنے والا نہیں ہے یعنی ایسی صفات جو کہ کسی اور میں نہیں ہیں بالکل اسی طرح اس کی ذات کی دیگر صفات بھی ناقابل موازنہ ہیں۔

جمعتہ المبارک، 31 دسمبر 2021

About خاکسار

Check Also

شہباز شریف پاکستان کے 24 ویں وزیراعظم منتخب/ ہم نے کبھی بدلے کی سیاست کا سوچا بھی نہیں، شہباز شریف

وزیراعظم بننے کے بعد شہباز شریف نے قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے