Breaking News
Home / اخبار / افغان طالبان تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کارروائی کے پاکستانی مطالبے کو نظر انداز کیوں کررہے ہیں؟

افغان طالبان تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کارروائی کے پاکستانی مطالبے کو نظر انداز کیوں کررہے ہیں؟

گزشتہ اگست میں اقتدار میں آنے کے بعد طالبان کی حکومت پاکستان کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان کو قابو میں رکھنے کے مطالبے کو نظر انداز کر رہی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ طالبان نے تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے پاکستان پر نہ رکنے والے حملوں پر بھی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ مثال کے طور پر جنوری میں تحریک طالبان کے دہشت گردوں نے پاک افغان سرحد کے قربی کرم کے قبائلی علاقے میں چھ پاکستانی فوجیوں کو شہید کر دیا۔ اس حملے کے پاک فوج کے ادارے آئی ایس پی آر کے ترجمان نے طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف افغان سرزمین کے استعمال سے نہ روکنے پر افسوس کا اظہار کیا۔اسی طرح دسمبر کے اختتام اور جنوری کے اوائل میں طالبان نے پاک افغان سرحد جسے ڈیورنڈ لائن کہا جاتا ہے  پر باڑ کو اکھاڑ دیا۔ جب کہ ایک موقع پر پاکستانی افواج اور طالبان جنگجو بھی آمنے سامنے آگئے۔

2017 سے پاکستان نے قریبا 2600 کلومیڑ سرحد کے 90 فیصد حصے پر باڑ مکمل کر لی تھی تاکہ دہشت گردی اور سمگلنگ کو روکا جاسکے۔ سابقہ افغان حکومتوں کی طرح طالبان نے بھی ڈیورنڈ لائن کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ طالبان کے نکتہ نظر سے ڈیورنڈ لائن برطانوی نو آبادیات کی باقیات ہے جس نے پشتو بولنے والی کمیونٹی کو جدا کر دیا۔ اگرچہ بہت سارے لوگ طالبان کی مذہبی حکومت کو پاکستان کی فتح سے تعبیر کرتے ہیں تاہم اس نے پاکستان کے لیے سنجیدہ سیکورٹی، سیاسی اور معاشی چیلنجز پیدا کر دیے ہیں۔ طالبان کی فتح سے ٹی ٹی پی کو پہلے سے زیادہ آزادی اور نقل و حرکت حاصل ہوئی ہے۔اگرچہ طالبان نے پاکستان کو یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی تاہم انہوں نے کبھی اس عہد کو پورا نہیں کیا اور پاکستان پر زور دیا کہ وہ ٹی ٹی پی سے بات چیت کے زریعے اپنے مسئلے حل کرے۔

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان نے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی ایک فہرست بھی طالبان کو فراہم کی تھی اور اس کے جواب میں طالبان نے اگرچہ پاکستان کے سیکورٹی خدشات کے پیش نظر ایک تین رکنی کمیٹی بھی بنائی تھی تاہم طالبان نے اس کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیا۔ گزشتہ برس اگست میں طالبان کے وزیر معلومات و ثقافت ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستانی نیوز چینل کو بتایا تھا کہ طالبان کو نہیں بلکہ پاکستان کو یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا ٹی ٹی پی کی جنگ جائز ہے یا نہیں اور حوالے سے حکمت عملی تیار کرے۔ شاید طالبان کی جانب تے تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر پاکستان خفیہ کارروائیوں پر مجبور ہوگیا ہے۔ حال ہی میں ٹی ٹی پی کے بعض رہنماؤں کے قتل کی کوششوں کو اس ضمن میں دیکھا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور 17 دسمبر کو ٹی ٹی پی کے نائب فقیر محمد ایک ڈرون حملے میں بال بال بچ گئے جبکہ اسی طرح کے ایک واقعے میں ٹی ٹی پی رہنما خالد بٹ اور مفتی برجان کنڑ میں دو الگ الگ واقعات میں ہلاک ہوگئے۔

نومبر 9 سے دسمبر 9 تک طالبان نے پاکستان اور تحریک طالبان کے مابین سیز فائر کا ایک معاہدہ کروایا تاکہ امن معاہدے کے لیے راہ ہموار کی جاسکے تاہم دونوں جانب سے اعتماد کی کمی کی وجہ سے سیز فائر کا یہ معاہدہ زیادہ عرصہ نہ چل سکتے ۔ تحریک طالبان سابقہ فاٹا میں طالبان طرز کی شریعت چاہتی تھی جبکہ 100 طالبان قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا تھا اس کے علاوہ تحریک طالبان نے کسی تیسرے ملک میں تحریک طالبان کو سیاسی دفتر بنانے کی اجازت کی شرط بھی رکھی تھی۔ اس کے جواب میں اسلام آباد ٹی ٹی پی سے تشدد کا خاتمہ چاہتا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ماضی کی کارروائیوں پر معافی دینے کا اعلان بھی کیا گیا تھا ۔ جبکہ طالبان کو پاکستانی آئین کی پاسداری اور ایک عام شہری کی طرح زندگی گزارنے کی شرط بھی رکھی گئی تھی۔ ان امن مذاکرات کے خاتمے کے بعد ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان کے خلاف حملوں میں اضافہ ہوگیا۔ صرف دسمبر 2020 میں ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان پر 45 دہشت گرد حملے کیے گئے۔

2018 کے بعد سے طالبان کا پاکستان پر انحصار بتدریج کم ہوتا گیا جس کی بڑی وجہ طالبان کی جانب سے افغانستان کے بڑے رقبے پر قبضہ، دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات جیسا کہ دوحہ میں سیاسی دفتر کا قیام اور امریکہ کے ساتھ براہ راست بات چیت تھی۔ تاہم دواؤں اور دیگر امداد کے لیے طالبان پاکستان پر ہی انحصار کررہے تھے۔ اور یہ انحصار گزشتہ برس اگست میں طالبان کی جانب سے کابل پر قبضے کے بعد ختم ہوگیا۔ یہ بات اہم ہے کہ اس وقت بھی بین الاقوامی امداد کے حصول کے لیے طالبان پاکستان کو پل کے طور پر دیکھتے ہیں جس کی ایک مثال پاکستان کی جانب سے اسلامی تعان کی تنظیم کا افغانستان کے لیے خصوصی اجلاس تھاجس کا مقصد افغان بحران کے لیے مسلم دنیا سے امداد کا حصول تھا۔

کارروائی کرنے میں ہچکچاہٹ

افغان طالبان کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان پر کریک ڈاؤن نہ کرنے کی تین بڑی وجوہات ہیں۔

اول، افغان طالبان کے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ طویل تاریخی، نسلی اور نظریاتی روابط ہیں ، تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کو اپنا امیر سمجھتے ہیں اور ان کے ہاتھ پر بیعت کر رکھی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان وہ پہلا گروپ تھا جس نے افغان طالبان کو فتح پر سب سے پہلے مبارکباد دی اور طالبان امیر کے ساتھ وفاداری کے حلف کی ازسرنو تجدید کی۔ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے نام نہاد اسلامی امارات افغانستان کا مقصد اس قدر اہم ہے کہ اسے پاکستان تک پھیلانا ضروری ہے۔ ٹی ٹی پی  القاعدہ کی طرح ہمیشہ سے طالبان کی مدد گار رہی ہے یہی وجہ ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد افغان طالبان ٹی ٹی پی کو نہ صرف پناہ فراہم کر رہے ہیں بلکہ ان کی مدد کرر ہے ہیں۔

دوسرا، اب تک کسی بھی ملک نے سفارتی طور پر طالبان کی موجودہ حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے طالبان نظریاتی طور پر خود سے منسلک تحریکوں کو نظریاتی طور پر ساتھ رکھیں۔ ایسے ہمدرد گروہوں کے خلاف جنہوں نے مشکل وقت میں افغان طالبات کی مدد کی اور انہیں پناہیں فراہم کیں ، کوئی بھی کارروائی ایک طرح کی بددیانتی اور غداری ہوگا۔ اسلام آباد کی جانب سے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ بھی ایک اہم عنصر ہے جس سے طالبان اور اسلام آباد کے مابین تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ طالبان سفارتی طور پر تسلیم نہ کیے جانے کی وجہ سے سخت مایوس ہیں ۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ انہوں نے بین الاقوامی برادری کے مطالبات کو من و عن تسلیم کیا ہے اس لیے تسلیم کیے جانا ان کا جائز حق ہے جبکہ امریکہ کو چاہیے کہ وہ افغانستان کے 5۔9 بلین ڈالر بھی غیر منجمد کرے ۔ 19 جنوری کو طالبان نے مسلمان ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ طالبان حکومت کو تسلیم کریں۔

تسیرا، بین الاقوامی طور پر تسلیم کیے جانے بعد طالبان مقامی ہمدردیاں خاص طور پر پشتون کمیونٹی کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ پاک افغان سرحد کو تسلیم نہ کر کر کے اور سرحدی باڑ کو اکھاڑ کر طالبان خود کو پشتون حقوق کو چیمپئیں ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے طالبان کے نائب وزیر خارجہ محمد عباس سٹینکزئی نے 6 جنوری کو ایک بیان میں کہا کہ ڈیورنڈ لائن پوری قوم کا معاملہ ہے نہ کہ صرف حکومت کا ۔ اس کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ہم اس حوالے سے یہ ذمہ داری قوم کو دیں گے اور وہ جو فیصلہ کریں گے ہمیں منظور ہوگا۔ اس بات کو مدنظر رکھا جائے تو ٹی ٹی پی طالبان کے ہاتھ میں بات چیت کا ایک اہم ذریعہ ہے ، یہ چیز طالبان کو پاکستان کے خلاف اہم تذویراتی قوت فراہم کرتی ہے۔

2022 میں تحریک طالبان پاکستان پاکستان کی سیکورٹی کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتی ہے جو کہ طالبان پاکستان تعلقات میں کشیدگی کا سبب بنے گا۔ مگر پاکستان افغان طالبان کو الگ کرنے کا خطرہ بھی مول نہیں لے سکتا کیوںکہ کمزور اور بکھرے ہوئے طالبان کا مطلب طالبان مخالف گروہ جیسا کہ احمد مسعود کی قومی مزاحمتی فورس کو مضبوط بنانا ہوگا۔ اس طرح کا کوئی بھی قدم پاکستان کو افغان پناہ گزینوں سے بھر سکتا ہے۔ اس لیے پاکستان افغان طالبان پر تحریک طالبان پاکستان کے خلاف عمل کے لیے دباؤ ہی ڈال سکتا ہے اور اس وقت پاکستان یہی کر رہا ہے۔

بدھ، 9 فروری 2022

About خاکسار

Check Also

ایران کی جانب سے متعدد امریکی شہریوں اور اداروں پر پابندی عائد

ایران کی وزارت خارجہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور خطے میں امریکی دہشت …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے