Breaking News
Home / اخبار / یورپ کا احساس برتری اب ایک مہلک پھوڑا بن چکاہے

یورپ کا احساس برتری اب ایک مہلک پھوڑا بن چکاہے

یورپ میں نسل پرستی، خاص طور پر غیر وطن کے لوگوں سے نفرت، گزشتہ چند سالوں سے مسلسل بڑھ رہی ہے، جیسا کہ اس کا اظہار انتہائی دائیں بازو کی سیاست سے ہوتا ہے۔ تنظیموں اور افراد کی طرف سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر تبصرے  گہری جڑیں رکھنے والےاور مسلسل  نشوونما  پاتے برتری کے کمپلیکس کو نمایاں کرتے ہیں۔

اس گزشتہ مہینے، توہین آمیز تشبیہات، استعاروں اور نسلی طور پر دوسرے لوگوں کے بارے میں رویے نے، ناپسندیدیگی کو  جنم دیا اور یورپی مرکزیت پسند سوچ اور روزافزوں بڑھتے ہوئے اخلاقی دیوالیہ پن کو پیش منظر میں لے آئے۔

دیگر کمیونٹیز کے خلاف تمام ترامتیازی سلوک اور تنقید کے دوران، یورپ اپنے عصری یا زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اپنے ماضی کے گناہوں کو قبول  کرنے پر تیار نہیں۔

فرانس اور قطر

اس ہفتے فرانسیسی اخبار ‘لےکنارڈ این شین’ نے اپنا اکتوبر ایڈیشن فیفا ورلڈ کپ سے قبل قطر پر ‘تنقید’ کے لیے وقف کیا، ایک کارٹون شائع کیا جس میں "بالوں والے” اور "ناراض” قطری فٹبالرز کو چھریاں، مشینی اور راکٹ لانچر پکڑے ہوئے دکھایا گیا تھا، یہاں تک کہ  کچھ  کو  سکی ماسک پہنےدکھایا گیا ۔

یہاں مسئلہ موادیاتنقید کے بجائے خاکہ نگاری کا ہے – یہ اشاعت، کئی اور کی طرح، اس رائے کا اظہار کرتی ہے کہ عرب، مشرق وسطیٰ، اور عام طور پر رنگدار لوگ ‘وحشی’ ہیں۔ جیسا کہ فرانس میں ‘اخلاقی طور پر برتر’ کارٹونز کی ایک طویل تاریخ ہے، یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے، لیکن یہ ایک پیچیدہ مسئلے کے لیے ایک جاہلانہ اور توہین ف آمیز دونوں انداز کو اجاگر کرتا ہے، جس میں ایک فرانسیسی فرم ملوث ہو سکتی ہے۔

یہ مواد، فرانسیسی میڈیا میں آج کی بہت سی سرخیوں کی طرح، قطر کو ان کے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر تنقید کا نشانہ بناتا ہے، جو کہ اس وقت فرانسیسی حکومت کی طرف سے ان کے خلاف اسی طرح کے دعوے کیے جانے پر دردناک حد تک ستم ظریفی ہے۔

قطری طرز عمل پر سخت تنقید کا یہ جذبہ فرانسیسی تعمیراتی فرم ‘ونسی کنسٹرکشن’ کے باوجود سامنے آیا ہے ، جس نے فیفا ‘پویلین’ پر کام کیا تھا – مذکورہ فرم کو خود،فرانس میں انسانی اسمگلنگ اور مزدوروں کے استحصال کےخلاف عدالتی مقدمے کا سامنا ہے، جس کی کمپنی سختی سے تردید کرتی ہے۔

مزید  بر آں وہ فیفا سے متعلق معاہدوں کی تعمیر میں کسی بھی شرکت سے انکار کرتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ ان کا کام فیفا کے معاہدے سے پہلے ہے۔ فرانس نے فٹبال ایونٹ کے آغاز سے چند ہفتے قبل اس فرم پر الزامات عائد کیے تھے۔ اس قطر مخالف مہم کو فٹبال  کے شوقین لوگوں کے علاقوں میں ورلڈ کپ کے میچوں کے براہ راست ٹیلی کاسٹ پر پابندی کے بیانات کے ساتھ آگے بڑھایا گیا ہے۔

باغ اور جنگل

یورو سینٹرزم اور اس کا موروثی احساس برتری کوئی نیا تصور نہیں ہے۔یورپ کے ‘تہذیب’ کے رہنما کے طور پر سمجھے جانےاور اس تصور  میں  وہ ہمہ گیر انا پرستی جو ایسی نفسیات کو جنم دیتی ہے جس نے بے شرمی سے دنیا کے ایک بڑے حصے کو نوآبادیات بنا دیا۔اس نے اجتماعی اوراغلبا” عصری مہاجرین کو خارجی بنانے کی، خاص طور پران کے خلاف جو غیریوکرینی ہیں، کثیر جہتی پالیسیوں کی تشکیل کے عمل کو جنم دیا۔

اس کا تازہ ترین اعادہ یورپی یونین کے وزیر خارجہ جوزپ بوریل کے نوجوان سفارت کاروں کی ایک افتتاحی اکیڈمی کے بارے میں بات کرتے ہوئے سامنے آیا ، "ہاں، یورپ ایک باغ ہے۔ ہم نے ایک باغ بنایا ہے۔ یہ سیاسی آزادی، معاشی خوشحالی اور سماجی ہم آہنگی کا بہترین امتزاج ہے جسے بنی نوع انسان تعمیر کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ باقی دنیا کا بیشتر حصہ جنگل ہے، اور جنگل باغ پر حملہ کر سکتا ہے۔”

وہ مزید کہتے ہیں، "باغبانوں کو جنگل جانا پڑتا ہے۔ یورپیوں کو باقی دنیا کے ساتھ بہت زیادہ مشغول ہونا پڑے گا۔ ورنہ باقی دنیا ہم پر مختلف طریقوں اور طریقوں مختلف زرائع سے حملہ کر دے گی۔

بوریل ان خیالات کی وجہ سے شدید تنقیداور ایک مختصر معطلی کی زد میں آ گیا ہے – اور اس کے بعد اس نے معذرت کی ہے اور اصرار کیا ہے کہ اس کے استعارے کا کوئی برا مطلب نہیں ہے۔ یہ حقیقت کہ وہ خارجہ تعلقات کا ایک اعلیٰ سطحی مندوب ہے اور اس کے باوجود یہ ’غبی زہنیت‘ فرانس کے لیے توقف کرنےاور سوچنے کاباعث ہونا چاہئے۔ اس سے عوام کو غیر ملکی لوگوں کے ساتھ یورپی یونین کے سلوک کا از سر نو جائزہ لینے پر بھی آمادہ کرنا چاہیے۔

دنیا بھر کی کئی ریاستوں میں مغربی طاقتوں کی طرف سے بار بار فوجی اور سیاسی مداخلتوں کے باوجود، بالآخر پناہ کے متلاشی تارکین وطن، سیاست دان، میڈیا، اور لوگ اس مسئلے کو اب بھی ایک قسم کے ‘حملے’ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔

انتہائی دائیں بازو کا عروج

بہت سی حکومتوں کے اس بڑھتے ہوئے’ نو -یورپیائی’  موقف کے ساتھ مل کر، انتہائی دائیں بازو کی سیاست (اور اس سے وابستہ امیگریشن مخالف جذبات) میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر اٹلی اور سویڈن کو اب کٹر دائیں بازو کے سیاست دان چلا رہے ہیں اور فرانسیسی انتہائی دائیں بازو نے اس سال بڑے سیاسی فوائد حاصل کیے ہیں۔ اگرچہ یہ کچھ کے لوگوں کےلیے پریشان کن اور ممکنہ طور پر خوفناک ہے، لیکن یہ ایک تاریخی رویہ ہے اور حیران کن نہیں۔

ڈاکٹر رمزی بارود نےاخبار کے زاتی رائے والے کالم میں  وضاحت کی ہے، "افسوس کی بات ہے کہ یورپ ، نوآبادیات اور غلامی سے لے کر قوم پرست، فاشسٹ، اور عصبیت پسند تحریکوں تک تاریخ کے ان سب سے خوفناک اوراق کی جائے پیدائش ہے جو  پچھلی تین  صدیوں کی وضاحت کرتے ہیں۔” وہ بڑھتی ہوئی اخلاقی بدعنوانی کو اجاگر کرنے کے لیے شام، لیبیا، کوویڈ، اور یوکرین جیسے معاصر واقعات کے بارے میں ان کے نقطہ نظر پر تنقید کرتا ہے۔

یہ واقعات سفید فام اور عیسائی پناہ گزینوں کے مقابلے میں، مسلمانوں اور رنگدارلوگوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے اور حمایت یافتہ سماجی وطن پرستی  اور ترجیحی سلوک کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔

ہارورڈ کی ایک حالیہ اشاعت کہتی ہے، "1976 سے 2016 کے درمیان فرانس میں پناہ کی 4,000 سے زیادہ درخواستوں کا جائزہ لینے والے 2022 کے ایک مطالعے سے پتا چلا ہے کہ مسلمانوں میں عیسائیوں کے مقابلے میں پناہ حاصل کرنے کے امکانات کم تھے۔

جیسا کہ یہ مطالعہ سرکاری اہلکاروں کے درمیان مسلم مخالف تعصب کی نشاندہی کرتا ہے، اسی طرح 2016 کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ عام یورپی شہری بھی اسی طرح کے رجحانات کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ 15 ممالک کے تقریباً 18,000 یورپیوں کو پروفائل دیے گئے اور پوچھا گیا کہ وہ کس کو پناہ دیں گے۔ اس تحقیق میں "مسلم پناہ گزینوں کے خلاف مسلسل تعصب پایا گیا، جو کہ اسی طرح کے عیسائیوں کے مقابلے میں قبول کیے جانے کے 11 فیصد پوائنٹس کم تھے۔”

اخلاقی برتری کا کبھی خیرمقدم نہیں کیا گیا، اور آج، یہ ناقابل برداشت ہے، خاص طور پر جب اس کا اظہار کسی ایسی ہستی کی طرف سے ہورہا ہوجس نے زمین پر رہنے والے لوگوں اور ان کی نسلوں کو صدمہ پہنچایا ہے۔ یورپ کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ حالیہ فیصلہ سازی  پراور اس براعظم کو اس وقت جس معکوس  رد عمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، پر خود غور کرے۔

یورپی یونین کو جن مسائل کا سامنا ہے ان میں سے زیادہ تر خود اپنے  ہاتھوں لگائے ہوئے زخم اور مداخلت پسندانہ پالیسیوں کی پیداوار ہیں۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے موجودہ مسائل کے لیے مربوط اور جامع نقطہ نظر پیدا کریں۔ مجموعی طور پر، انہیں اپنے آپ  میں عاجزی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ عالمی بحران کی وجہ اور اثر ات  کا سبب بننے کے بعد، یہ سمجھنے کا وقت آ گیا ہے کہ ‘غلطی کرنا انسانی فطرت ہے’، اور کوئی ایک فرد یا ایک گروہ اس عمل سے بالاتر نہیں ہے۔

About خاکسار

Check Also

تہران ٹائمز کی رپورٹ؛ ایران کی دور اندیش قیادت نے ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کر دیا

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی بصیرت نے اسلامی جمہوریہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے