Breaking News
Home / اخبار / ہندو قوم پرستی، بالآخر سارے ہندوستان کے لیے نقصان کا سبب بن جائے گی

ہندو قوم پرستی، بالآخر سارے ہندوستان کے لیے نقصان کا سبب بن جائے گی

ہندوستان نے  10 اپریل کو  ، پورے جوش و خروش سے، دیوتا،  رام کے یوم پیدائش کی یاد مناتےہوئے، رام نوامی میلہ منعقد  کیا۔لیکن روایتی تقریبات  کے بجائےجو کہ عموماً ایسے مقدس مواقع کی پہچان ہوتی ہیں، اس دن کو بے شمار مجرمانہ حرکات کے حوالے  سے یاد رکھا جائے گا جن کا ارتکاب، اس وسیع و عریض ملک کے ہر گوشے میں کیاگیا۔اس اتوار کو ، ہندوستان کی سب ریاستوں میں ،ہندوبلوائیوں کےجتھے، گلیوں اور سڑکوں پر،اقلیتی کمیونٹیز کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگا رہے تھے، جن کا نشانہ  بنیادی طورپرمسلمان تھے۔ بلوائیوں نے مساجد میں لوٹ مارکی اور بعض جگہوںپر جسمانی حملے بھی کئے گئے۔

دیوتا رام کو محبت کا مجسم ،اور دیانتدارانہ حکمرانی کی علامت سمجھا جاتا  ہے۔لیکن ان کی  تاریخ پیدائش کی تقریبات جس طرح سے منائی  گئیں، اس میں شاذ ہی اس  دیانت داری کی جھلک نظر آئی ہو۔مغرب میں گجرات سے لے کر مشرق  میں بنگال تک بے شمار ریاستوں سے تشدد کی اطلاعات موصول ہوئیں، حتٰی کہ قومی دارالحکومت دہلی کو  بھی نہیں بخشا گیا۔وسیع و عریض  جواہر لال نہرویونیورسٹی میں، جسےبائیں بازو کے لبرل ازم کا گڑھ سمجھا  جاتاہے، دائیں بازو کےمظاہرین کے ، اس مقدس دن پر، گوشت کھانے سے بازرکھنے کے لیے، طلبا پر حملے کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔اس بلوے کے نتیجے میں، کئی درجن طلبا زخمی ہوئے اوربلوے کے بعد کئی لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا۔

دعوے کےمطابق، ہندوستانیوں کی اکثریت سبزی خور ہے، جبکہ ایک  سروے کے مطابق، ستر فی صد ہندوستانی گوشت کھاتے ہیں۔ لیکن ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں حملہ آوروں کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔اعلٰی نسل کے ہندوؤں کا ایک بے باک  دھڑاکافی عرصے سے، سبزی خوری کی    ان  خوبیوں کی با ت کررہا  ہے جو  بھلا  دی گئی ہیں اور ‘ھندوتوا’ بریگریڈ، جو کہ ہندو برتری قائم کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہے،یہ کوشش کر  رہا ہےکہ انڈیا کے باقی لوگ بھی ان کی تعمیل کریں۔

اقلیتوں پر حملوں کے سلسلے میں—مویشیوں کے مسلمان تاجروں کو کوڑے مارنے سے لے کر،مسلمان خواتین طالبعلموں کے حجابپہننے کی منظم مخالفت تک—اتوار کا’ رام سوامی’ تازہ ترین  ثبوت ہے کہ ہندوستان ایک بےباک ہندوتوا کے خوفناک راستے پر چل رہاہے۔لیکن ہندوستان ایک گوناگوں ملک ،جہاں اسی فیصد آبادی ہندوؤں کی ہے۔ مسلمان،عیسائی، سکھ، جین اور  دوسرے مذاہب کے لوگ ملک کی بائیس  فی صد آبادی ہیں، جہاں،  مختلف علاقوں میں بائیس سرکاری زبانیں بولی  جاتی ہیں، جنکی جڑیں  مختلف زمینی خطوں کے رسم ورواج اور روایات میں  پیوست ہیں۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہندوتوا کا برتری کا  نظریہ اس ہندوستان سے میل نہیں کھاتاجس کی جڑت اس کے تفرقات  پر قائم رہی ہے۔لہٰذا بہت سے لوگ اس رجحان کے تباہ کن نتائج کے بارے میں فکرمند ہیں۔مسلمانوں کے پاس،بہرحال  اس پر فکرمند ہونےکی وجوہات  پہلے سے موجود ہیں۔ ایک  کے بعد دوسری ریاست میں انہیں نشانہ بنایا  گیا، ا نکی تذلیل کی گئی اور انہیں دھمکیاں دی گئیں؛ اس میں تازہ ترین یہ ہے کہ  کرناٹک ریاست کے مسلمانوں کو مندروں کے باہر دکانیں لگانے سے روک  دیا گیا۔اس سے پہلےانہیں مقرر شدہ جگہوں پر نماز پڑھنے سے روکا گیا جس کی ایک مثال دہلی کے قریب گڑگاؤں کی ہے جہاں انہیں نماز پڑھنے سے روکا گیا۔ اب مسجدوں کےلاؤڈ سپیکر بند کرنے کی مہم شروع کر دی گئی ہے۔

اچانک ان بیس کروڑ مسلمانوں کو کمتر ہندوستانی محسوس کرنے پر مجبور کیا جا رہاہے۔ ایک کےبعد دوسری رپورٹ یہ بتا رہی ہے کہ بطور اقلیت ان کےساتھ برا سلوک کیا  جارہا  ہے۔ لیکن’ ہندوتوا ‘سے صرف مسلمان ہی متاثر نہیں ہو رہے۔تاریخ دان اور تبصرہ نگار، رام چند گوہا نےاپنے ا یک حالیہ کالم میں کہا ہے کہ ،اب اس کا نشانہ مسلمان ہیں لیکن آخرکار ایک دن یہ ہندوؤں کو بھی تکلیف  دے گی، ان کا کہنا  ہے کہ اس کے دوسرے نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ ہندوتوا ، ہندوؤں کو ایسےرویے اختیار  کرنے پر مجبور کر دے گی کہ جس طرح ایک اکثریت،  ایک اقلیت جیسےزہنی احساس  کے ساتھ عمل کرتی ہے۔

مسلمان انڈیا  کی آبادی کا 14 فی صد ہیں، جن سے ہندو اکثریت کو  کوئی  خطرہ نہیں۔لیکن اس کے باوجود ہندوتوا کے پرچارک ایک  انتہائی متضاد تصویر دکھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان میں سرفہرست آرایس ایس جیسی قومی رضاکار  تنطیم ہے ،جو انڈیا  کے وزیراعظم نریندرا مودی کی حکمران جماعت، بھارتیہ جنتاپارٹی  کاروحانی  سرچشمہ ہے۔” ہندو خطرےمیں ہیں”اس  کے حمایتیوں کے پاس بچنے کا پسندیدہ  ترین راستہ ہے۔لیکن جب  ہندوؤں کےسرگرم لوگ اپنے خیال کے مطابق اپنے وجودی خطرے سے نبٹنے کی جدوجہد میں مصروف  ہیں، تبھی ہندوستان کے مستقبل اوراس کی معیشت  کے بارے میں نئے خطرات سامنے آتے ہیں۔

عام لوگوں کے ان اندیشوں سے بے نیاز ،  ہندو جنونی اپنے مضبوط قومیت پرستی کے راستے پر گامزن ہیں ۔ وہ واضح طور پر ہندوستان کی اس عظمت رفتہ کو دوبارہ دریافت کرنا  چاہتے ہیں جو  مغلیہ دور اور اس کے بعد برطانوی  راج کے دور میں  اسے حاصل تھی۔ان کے مطابق قدیم وقتوں میں ہندوستان جہاز اڑانے سے لے کر پلاسٹک سرجری تک، ہر  معاملے میں  آگے تھا۔ ان کے خیال میں ہندوتوا ملک کی عظمت اور  برتری  بحال کرنے میں  انکی  مددگار ہے۔لیکن وہ ایک خیالی جنت  میں رہتے ہیں، اگر زیادہ درست کہا جائے تو احمقوں کی جنت میں۔ایک کالم نگار نے حال ہی میں  لکھا ہےکہ’ورثے میں ملی ہوئی مذہبی قوم پرستی کو معاشی ترقی کے لیے استعمال کرنا  ایسے ہی ہے جیسےعمارتی لکڑی کی صنعت کو درختوں کی  تعداد بڑھانے کے لیے استعمال کیاجائے۔بہت سے لوگ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ہندوتوا ہندوستان کو  منقسم، کمزورتراور  غریب تر بنادے گی۔

About خاکسار

Check Also

ہم امریکیوں کی نقل بھی نہیں کرسکتے

حیرت اس بات کی ہے ان غیر مسلم اور لبرل ممالک میں غاصب صیہونیوں کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے