Breaking News
Home / اخبار / کیا ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس نے عمران خان کے بیانیے سے ہوا نکال دی ہے؟

کیا ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس نے عمران خان کے بیانیے سے ہوا نکال دی ہے؟

پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان صاحب اقتدار سے بے دخلی کے بعد ماضی کی طرح ایک بار پھر سڑکوں پر ہیں مگر اس بار ان کا بیانیہ، کرپشن، ایمانداری، بھیک کا پیالہ اور انصاف نہیں بلکہ ملکی خودداری اور امریکی غداری ہے ۔ وہ بار بار اقتدار سے اپنی بے دخلی کو ملک کے خلاف ایک بھیانک سازش قرار دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ ملک کو خوددار بنا کر دم لیں گے کیونکہ وہ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی جراءت رکھتے ہیں ۔ اس تمام بیانیے کے تانے بانے اس سفارتی کیبل سے ملتے ہیں جس کو عمران خان جابجا استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم ایسا لگ رہا ہے کہ گزشتہ روز ڈی جی آئ ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے ایک پریس کانفرنس میں اس بیانیے میں سے کافی حد تک ہوا نکال دی ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا کوئی ذکر نہیں، فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے، یہ سازش نہ پہلے کبھی کامیاب ہوئی تھی اور نہ اب ہوگی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاک فوج نے خط کے معاملے پر اپنا موقف قومی سلامتی کمیٹی میں پیش کیا، ہماری خفیہ ایجنسیاں تمام خطرات کے خلاف چوکنا ہیں اور خفیہ ایجنسیوں سمیت تمام ادارے بھرپور طریقے سے کام کر رہے ہیں، خود دیکھ لیں کہ قومی سلامتی کے اعلامیے میں سازش کا لفظ نہیں ہے، ہم پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی سازش کو کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔میجر جنرل بابر افتخار نے اس بات کی تردید کی کہ امریکا نے پاکستان سے فوجی اڈے مانگے، انہوں نے کہا کہ امریکا نے فوجی اڈے مانگے اور نہ ہم نے دیے، اگر مانگتے بھی تو پاک فوج کا وہی موقف ہوتا جو وزیراعظم کا تھا۔اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم عمران خان کو تین آپشنز دیے جانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے انہیں تین آپشنز نہیں دیے گئے، افسوس ہوا کہ سیاسی قیادت آپس میں بات چیت کرنے کے لیے تیار نہیں تھی، وزیراعظم کی جانب سے آرمی چیف سے کہا گیا ہے کہ ڈیڈ لاک ہو گیا ہے بیچ بچاؤ کرائیں، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی وزیراعظم ہاؤس گئے تھے اور ان کے ساتھ ان کے رفقا بھی موجود تھے، آرمی چیف سے بات چیت کے دوران تین آپشنز پر بات ہوئی۔

عمران خان اس سے پہلے تسلسل سے یہ بتا رہے ہیں کہ ان کی حکومت کے خلاف امریکہ میں سازش تیار کی گئی تھی اور ملک کے اہم سیاسی لیڈر اس سازش کا حصہ تھے۔ جس کے نتیجہ میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی اور ملک میں ایک درآمد شدہ حکومت ’پلانٹ‘ کردی گئی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک سیاسی لیڈر اور ملک کے سابق وزیر اعظم کو کب تک ایک ایسے سنگین جھوٹ کی بنیاد پر سیاسی مقبولیت حاصل کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے جس سے ملک میں تصادم پیدا ہونے کا اندیشہ ہے اور خارجہ تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جو ملکی معیشت اور عالمی ساکھ کے لئے شدید نقصان کا سبب ہوں گے۔

تاہم اس وقت سازش کے ذریعے تحریک انصاف کی حکومت ختم کرنے اور ایک من پسند حکومت مسلط کرنے کی مہم زور شور سے جاری ہے۔ عمران خان نے گزشتہ رات جلسہ میں اسے قومی آزادی اور خود داری کا معاملہ قرار دیتے ہوئے پاکستان کی مکمل آزادی کی مہم چلانے کا اعلان کیا ہے۔ بدقسمتی سے اس نعرے کی بنیاد جھوٹ اور ایک ایسے سفارتی مراسلہ پر رکھی گئی ہے جس کے مندرجات کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے۔ امریکہ بار بار اس بات کی تردید کرچکا ہے کہ وہ پاکستان میں سیاسی تبدیلی کے کسی عمل میں شامل ہے۔ اس کے باوجود تحریک انصاف زور شور سے ’امپورٹڈ وزیر اعظم نامنظور‘ کی مہم چلا رہی ہے۔ متعدد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اس مقصد کے لئے موثر طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ سیاسی تقریروں میں اس الزام کی تکرار کرتے ہوئے پاک فوج اور سپریم کورٹ کو بھی مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔

تاہم اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ عمران خان صرف اپنی حکومت بچانے کے لئے سازشی تھیوری کا استعمال نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ اس بنیاد پر عوام کو گمراہ کرنے اور اپنا سیاسی اثر و رسوخ بڑھانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ اسی لئے اس معاملہ میں فوج اور اعلیٰ عدلیہ کو بھی ’فریق‘ بنا کر یہ تاثر عام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ صرف اپوزیشن لیڈر ہی نہیں بلکہ عمران خان کی حکومت کے خلاف امریکی سازش کو کامیاب بنانے کے لئے فوج اور عدالتیں بھی آلہ کار بنی ہوئی تھیں۔ پشاور میں سپریم کورٹ کو للکار کر سابق وزیر اعظم نے اسے نقطہ نظر کو عام کرنے کی کوشش کی ہے۔ ورنہ ملک کے چیف ایگزیکٹو کے عہدے پر لگ بھگ چار سال تک فائز رہنے کے بعد عمران خان کو یہ تو خبر ہونی چاہیے کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج کسی سیاسی بیان بازی کا حصہ نہیں بن سکتے اور نہ ہی سیاسی جلسوں میں کی جانے والی باتوں کا جواب دے سکتے ہیں۔

اس لئے ذمہ دار سیاست دان اپنی گفتگو میں عدالتوں کو ملوث کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ تاہم عمران خان کی حکمرانی اور سیاست کی واحد طاقت الزام تراشی اور کردار کشی رہی ہے۔ انہوں نے شریف اور زرداری خاندان کی کردار کشی کی بنیاد پر اقتدار حاصل کیا اور یہی الزام لگاتے ہوئے اقتدار سے محروم ہو گئے۔ لیکن اب ان کے الزامات صرف سیاسی لیڈروں یا پارٹیوں تک محدود نہیں ہیں بلکہ ریاستی اداروں کے علاوہ ملکی سفارتی تعلقات کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ کسی سیاسی لیڈر کو یہ خطرناک کھیل کھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔اس پس منظر میں صرف آئی ایس پی آر کی وضاحت کافی نہیں ہے بلکہ اس سازشی نظریہ کی بنیاد بننے والے عوامل کی حقیقت کو سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ ملکی سیاست میں امریکہ مخالف نعروں کو استعمال کرنے کی روایت تو موجود رہی ہے لیکن اس وقت یہ نعرہ نئی حکومت کو بدنام کرنے کے علاوہ پاکستان کے قومی مفادات کو شدید نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے۔

About خاکسار

Check Also

برطانیہ، فرانس اور جرمنی سے نمٹنا باقی ہے، جنرل قاآنی

"وعدہ صادق آپریشن” میں ایرانی حملوں کو روکنے کی کوشش کرنے پر القدس فورس کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے