Breaking News
Home / اخبار / کیا اس بار عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوسکے گی؟

کیا اس بار عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوسکے گی؟

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ ہمارے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ جتنی مضبوط ہوگی حکومت کے لیے خطرہ بڑھے گا، عمران خان کو ہٹانے کے لیے تمام اختلافات بھلانے کے لیے تیار ہیں۔لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ حکومت کو بھگانے کے لیے آئینی اور جمہوری طریقہ احتجاج کے ساتھ عدم اعتماد ہے، پاکستان کو بچانا ہے تو ہمیں عمران کو نکالنا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ماضی کے اختلافات کے باوجود ہم بڑا قدم اٹھانے کے لیے اکھٹے ہیں، عمران خان کو ہٹانے کے لیے ہم ہر قدم اٹھانے کو تیار ہیں۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ  اگلے 60 دن اہم ہیں۔ رمضان کا مقدس مہینہ اپریل کے پہلے ہفتے میں شروع ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سیاسی جنگ کے خاتمے کا بھی وقت ہو جائے گا۔ رمضان ایک وقفہ مہیا کرے گا جس سے یا تو اس لڑائی کا زور ٹوٹ جائے گا یا پھر دونوں جانب سے اگلے معرکے کے لئے مزید زور و شور سے کوشش شروع کر دی جائے گی۔ے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کا شہباز شریف کے ظہرانہ پر چلے آنا اور ماڈل ٹاؤن میں ان کا شہباز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز کی طرف سے پرجوش خیر مقدم کرنا عام خبر نہیں اس ملاقات کے پس منظر میں ایک پوری کہانی ہے جس کے دو اہم کرداروں کی لاہور میں ملاقات ہوئی ہے۔ کم و بیش ایک سال قبل پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے درمیان ہونے والی تلخ نوائی نے نہ صرف دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کے درمیان فاصلے پیدا کر دیے تھے بلکہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم سے ہی نکل گئی تھی۔

پیپلز پارٹی کی طرف سے لانگ مارچ کے ساتھ استعفے دینے کی مخالفت کے بعد پی ڈی ایم کو لانگ مارچ ہی ملتوی کرنا پڑا پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات سے جہاں عمران خان حکومت کے خلاف تحریک کو نقصان پہنچا وہاں حکومت کی مضبوط ہوئی پچھلے ایک سال کے دوران پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے درمیان بیان بازی ہوتی رہی ایک دوسرے کو طعنے بھی دیے جاتے رہے لیکن ایک دوسرے سے قطعی طور پر تعلقات ختم نہیں کیے پارلیمنٹ سے باہر پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی الگ الگ پلیٹ فارم پر اپنے آپ کو حقیقی اپوزیشن ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی رہیں لیکن پارلیمنٹ کے اندر شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان رابطے بھی ہوئے اور ملاقاتیں بھی ہوئیں لیکن یہ رابطے اور ملاقاتیں کو بڑی خبر نہ بن سکے لیکن اچانک کیا ہوا کہ آصف علی زرداری اپنے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کو لے کر ماڈل ٹاؤن پہنچ گئے؟

ملاقات میں دونوں پارٹیوں نے اپنا اپنا موقف صراحت سے ایک دوسرے کے سامنے پیش کیا حالانکہ ان دونوں پارٹیوں کو اپنی سیاسی حکمت عملی کا مقدمہ عوام کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور یہ وضاحت کرنی چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ موجودہ حکومت کو مدت پوری کرنے کا موقع نہ دیا جائے۔ اپوزیشن اگر ملکی اصلاح کے حوالے سے پریشان ہے تو وہ اس سلسلہ میں تجاویز پارلیمنٹ میں پیش کر سکتی ہے۔ اور حکومت کی طرف سے زور زبردستی کے ہتھکنڈوں کو عوام کے سامنے لا سکتی ہے تاکہ آئندہ انتخاب میں عوام خود یہ طے کرسکیں کہ کون سی پارٹی جمہوری روایت کے زیادہ قریب ہے اور عوام کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ اس وقت پاکستانی سیاست کا سب سے بڑا المیہ ہی یہ ہے کہ ملک کو گوناں گوں مسائل کا سامنا ہے لیکن حکومت اور اپوزیشن اس مسائل کے لئے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا کر خود ذمہ داری سے عہدہ برا ہونا چاہتے ہیں۔

اپوزیشن کسی بھی قیمت پر حکومت پر دباؤ برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ لاہور میں ہونے والی ملاقات اسی مقصد کے لئے کی گئی تھی۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں ملک کے سیاسی مستقبل کے لئے لائحہ عمل پر اتفاق نہیں ہے۔ دونوں پارٹیاں کسی نہ کسی طریقے سے اسٹبلشمنٹ کی اعانت سے اقتدار تک پہنچنا چاہتی ہیں لیکن وہ مل کر کوئی ایسا سیاسی پلیٹ فارم فراہم کرنے میں ناکام ہیں جس کی بنیاد پر اسٹبلشمنٹ کسی بڑے سیاسی فساد کے بغیر موجودہ حکومت سے فاصلہ قائم کر لے اور ملک میں پارلیمان کے ذریعے سیاسی تبدیلی کی راہ ہموار ہو جائے۔ اپوزیشن کی اس ناکامی کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ دونوں بڑی پارٹیاں نہ تو ملکی مسائل حل کرنے کا کوئی فارمولا پیش کر سکی ہیں اور نہ ہی کوئی ایسا سیاسی جواز فراہم کیا جا سکا ہے جو عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے بعد عبوری مدت کے لئے قابل عمل سمجھا جا سکے۔

منگل، 8 فروری 2022

About خاکسار

Check Also

برطانیہ، فرانس اور جرمنی سے نمٹنا باقی ہے، جنرل قاآنی

"وعدہ صادق آپریشن” میں ایرانی حملوں کو روکنے کی کوشش کرنے پر القدس فورس کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے