Breaking News
Home / اخبار / پاکستان کی معیشت میں بہتری کے آثار

پاکستان کی معیشت میں بہتری کے آثار

وفاقی وزیر خزانہ کے ڈالر کی اسمگلنگ کیخلاف کریک ڈاؤن، سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان میں اعلان کردہ دس ارب ڈالر کے علاوہ 7.5ارب ڈالر کے متوقع پیکیج جیسے عوامل نے ڈالرکی پرواز روک دی جو انٹر بینک مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ کے باوجود مزید تنزلی سے دوچار ہوئی۔

مثبت معاشی اشاریوں، چین اور سعودی عرب کی جانب سے بارہ ارب ڈالر کا انتظام ہونے سے زرمبادلہ کے ذخائر ممکنہ طور پر بڑھنے اور ریکوڈک منصوبے میں دوبارہ سرگرمیوں کے آغاز کی خبروں سے پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں تیزی کی بڑی لہر رونما ہوئی ۔

یہ امر خوش آیند ہے کہ پاکستان کی معیشت میں بہتری کے آثار پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ عالمی معاشی ادارے بہتری کے اشارے دے رہے ہیں۔ حکومت پاکستان نے بین الاقوامی ادائیگیوں کی صورتحال بہتر کی ہے۔ مثبت اقدامات کی بدولت معاشی صورتحال میں بہتری کے آثار نمایاں ہیں۔

تاہم آئی ایم ایف نے افراط زر میں مزید اضافے کا اشارہ بھی دیا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اگر حکومت مناسب اقدامات کرے تو اس پر قابو بھی پایا جاسکتا ہے۔

اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ بہتر اقدامات کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوسکتی ہے۔ پاکستان ایک بڑی معیشت ہے، زرمبادلہ کے ذخائر میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومتی پالیسیوں سے محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان کی ادائیگیوں کی صورتحال میں مزید بہتری آئے گی۔

حکومت کے اقدامات کی وجہ سے بیرونی اقتصادی خطرات میں کمی آئے گی۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی، پالیسی فریم ورک اور دیگر اقدامات کی وجہ سے پاکستان میں معاشی صورتحال کے لیے بیرونی خطرات میں کمی رہے گی تاہم غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھنے میں کچھ وقت لگے گا۔ پاکستان کے دوست ممالک چین ، سعودی عرب، یو ای اے اور قطر ہمارے ساتھ وسیع پیمانے پر تعاون کررہے ہیں ۔

یہ ساری صورتحال یقیناً مثبت اور خوش آیند سہی، لیکن عام آدمی کی مشکلات میں تاحال کمی نہیں آئی ہے کیونکہ ملک میں مہنگائی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے ،پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ، بجلی اور گیس کے ناقابل برداشت بل، روزمرہ اشیا ئے خورونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے عام آدمی کو اپنے کچن کا خرچ کرنا مشکل ہو رہا ہے۔

دراصل جب تک ناجائز منافع خوروں کے خلاف کریک ڈاؤن نہیں ہوگا، تب تک عوام کی زندگی اجیرن رہے گی اور نہ اشیائے خورونوش کی قیمتیں ہی نیچے آئیں گی، لہذا ملکی معیشت کے لیے اٹھائے گئے اقدامات اس وقت مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتے جب تک مہنگائی پر قابو نہیں پایا جائے گا۔

دوسری جانب عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ حالیہ تباہ کن سیلابوں کے بعد پاکستان اب صحت عامہ کے شعبے میں تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ آلودہ پانی کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریوں کے باعث اب لاکھوں شہری بیمار پڑتے جا رہے ہیں۔

یونیسف کے مطابق پاکستان میں تاریخ کے بدترین سیلاب کی وجہ سے تیس لاکھ سے زائد بچے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں، ڈوبنے اور غذائی قلت کے بڑھتے ہوئے خطرات سے دوچار ہیں اور انھیں فوری انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں اس سال شدید بارشوں، سیلاب اور لینڈسلائیڈنگ سے 3کروڑ30لاکھ افراد متاثر ہوئے، جن میں تقریباً ایک کروڑ60لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔

ملک میں اس وقت ہیضے، ملیریا اور ڈینگی کے بخار جیسی کئی بیماریاں پھیل رہی ہیں، جس کی وجہ سے اموات کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے ۔سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں صحت کا شعبہ پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے کیا وہ سیلاب کے بعد پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس کا جواب نفی میں ہے۔

وفاق تو اپنی حد تک اقدامات اٹھا رہا ہے ، لیکن اٹھارہویں ترمیم کے بعد شعبہ صحت صوبوں کی ذمے داری بن گیا ہے، لیکن مقام افسوس ہے کہ پنجاب، خیبر پختون خوا، سندھ اور بلوچستان صحت کے شعبے میں ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، اکثر سرکاری اسپتالوں میں بہترین مشینری ناکارہ پڑی ہے، جس کی وجہ سے مریضوں کو بھاری رقم ادا کرکے اپنے ٹیسٹ کروانے پڑتے ہیں۔

ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی کمی ہے، بستروں کی کمی کا سامنا ہے، ادویات سرکاری اسپتالوں میں دستیاب نہیں ہیں، مریض تو رل جاتے ہیں، صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنا وفاق اور صوبوں کی بنیادی ذمے داری ہے لیکن وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کے مرتکب ہوئے ہیں۔

حکومت پاکستان نے72 اضلاع کوآفت زدہ قراردے دیا ہے، جن میں سے بیشتر شدید ترین متاثرہ صوبوں، بلوچستان اورسندھ میں ہیں جب کہ خیبرپختونخوا اور پنجاب بھی متاثر ہوئے ہیں۔

سیلاب سے تعلیم کے بنیادی ڈھانچے کو کافی نقصان پہنچا ہے،19,566 اسکولوں کی عمارتیں جزوی یا مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہیں، جس سے بچوں کی تعلیم کو مزید خطرہ لاحق ہوا ہے۔

پنجاب میں1180 اسکولز، سندھ میں16 ہزار419اسکولز،بلوچستان میں 2 ہزار859اسکولز جب کہ خیبرپختونخوا میں1024اسکولز سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ جب کہ ساڑھے پانچ ہزار اسکولز کی عمارتوں کو سیلاب متاثرین کی عارضی قیام گاہوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

سیلاب سے متاثرہ تعلیمی اداروں کی یہ تعداد صرف سرکاری اسکولوں کی ہے جب کہ پرائیویٹ اسکولز،کمیونٹی اورمدارس کی بڑی تعداد بھی متاثر ہوئی ہے اور تخمینہ ہے کہ ملک بھر میں مجموعی طور پر50 ہزار اسکولز متاثر ہوئے ہیں۔

گزشتہ سالوں میں کورونا وائرس کی وجہ سے دو برس تک اسکولز کی بندش کے بعد ایک بار پھر ان متاثرہ بچوں کی پڑھائی میں1-2 سال خلل پڑنے کا خطرہ ہے اور وہ بھی ان علاقوں میں جہاں ایک تہائی لڑکیاں اورلڑکے موجودہ بحران سے پہلے ہی اسکولزسے باہر تھے۔

تاحال سیلاب سے متاثرہ کئی علاقے ناقابل رسائی ہیں اور کچھ حصوں سے زمینی اور مواصلاتی رابطہ منقطع ہے۔ بلوچستان اور سندھ میں پانی مکمل طور پر کم نہیں ہوا۔ پہلے ہی تعلیم کا نظام خلل کا شکار ہے اور بارہا امتحانات ملتوی کرنے پڑے ہیں لیکن اِس مرتبہ چونکہ تعلیمی اداروں کی عمارتیں ہی قابل استعمال نہیں رہیں تو اندیشہ ہے کہ کئی تعلیمی سال بحالی کے عمل کی نذر ہو جائیں۔سیلاب سے شعبہ تعلیم کو پہنچنے والے نقصانات کا ابتدائی تخمینہ37ملین ڈالر لگایا گیا ہے۔

ان متاثرہ علاقوں میں سیلاب سے پہلے ہی40 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار تھے، یہ خطرناک انسانی بحران آیندہ دنوں میں مزید خراب ہونے کی توقع ہے کیونکہ پہلے ہی زیرآب علاقوں میں مزید تیز بارشوں کا سلسلہ جاری اور شدید موسم سرما متوقع ہے۔

چھوٹے بچوں کو خوراک، دودھ کے ڈبوں اور کمبلوں کی ضرورت ہے۔یونیسف نے 3 کروڑ 70 لاکھ امریکی ڈالر کی امداد کی اپیل کی ہے تاکہ آنے والے مہینوں میں بچوں اور انکے خاندانوں تک فوری امداد پہنچائی جاسکے۔یونیسف کے چلڈرن کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق پاکستان ایک ماحولیاتی ہاٹ اسپاٹ اورایسا ملک ہے۔

جہاں بچوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے شدید خطرات سے دوچار اور163 ممالک میں سے 14 ویں نمبر پر ہونے کی وجہ سے درجہ بندی انتہائی زیادہ خطرے سے دوچار ہے۔ جہاں بچوں کو ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق مہلک خطرات کے ساتھ پینے کے صاف پانی، صفائی ستھرائی، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کی کمیابی جیسے شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی اپنی تعلیم کے معیار کو مزید بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اساتذہ کو اس حوالے سے بہترین تربیت دی جاتی ہے۔

اگر طالب علم کو قوم کا مستقبل کہا جاتا ہے تو اساتذہ کی تربیت بہت ضروری ہے تاکہ وہ قوم کے مستقبل کے معماروں کو سمجھ اور دور اندیشی کے ساتھ بہترین طریقے سے تربیت دے سکیں۔ مختلف قسم کے اساتذہ کے تربیتی پروگرام اور کیمپس بیرون ملک منعقد کیے جاتے ہیں تاکہ انھیں بہترین طریقے سے تربیت دی جا سکے۔

پاکستان میں تعلیم میں کمی کی بنیادی وجہ فنڈز کی کمی اور کرپشن ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اس وقت معاشی بحران سے دوچار ہے لیکن حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ نظام تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے اصلاحات لائیں۔ معاشی بحران کی وجہ سے غربت نے ملک کو سخت متاثر کیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کے بجائے دکانوں وغیرہ میں کام کرنے کی طرف مائل ہو رہے ہیں، یقیناًہر والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے تعلیم یافتہ ہوں اور اچھی تعلیم حاصل کریں۔ زندگی میں غریبوں کے خواب صرف خواب ہوتے ہیں، جنھیں تعبیر دینا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی آئینی ذمے داری ہے۔

ان سطور کے ذریعے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے اپیل ہے کہ وہ ملکی معیشت کی بحالی کے ساتھ ساتھ تعلیم وصحت کے شعبوں کی بحالی کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کریں تاکہ عام آدمی کو بہتر علاج معالجے اور بہترین تعلیم کی سہولتیں میسر آسکیں تاکہ ہمارا ملک بھی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکے۔

About خاکسار

Check Also

برطانیہ، فرانس اور جرمنی سے نمٹنا باقی ہے، جنرل قاآنی

"وعدہ صادق آپریشن” میں ایرانی حملوں کو روکنے کی کوشش کرنے پر القدس فورس کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے