Breaking News
Home / اخبار / چین -امریکہ اور ایران کا ایٹمی معاہدہ

چین -امریکہ اور ایران کا ایٹمی معاہدہ

ایران کے وزیر خارجہ حسین  امیرعبداللہیان نے 14 جنوری بروز جمعہ چین کے وزیر خارجہ وانگ زئی سے چین کے شہر ووکسی میں ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں نے چین ایران تعلقات کے حوالے سے مختلف پہلوؤں جیسا کہ مشرق وسطٰی میں سیکورٹی کی صورتحال پر بات چیت کی۔ چین کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کی گئی سمری کے مطابق  ملاقات کے موقع پر چینی وزیرخارجہ وانگ یی نے ایران کے ساتھ عالمی طاقتوں کے 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کی کوششوں کی بھی حمایت کی۔ وانگ یی نے کہا کہ ایران کو درپیش مشکلات کی بنیادی ذمہ داری امریکا پر عائد ہوتی ہے کیونکہ 2015 میں طے پانے والے اہم طاقتوں کے معاہدے سے امریکا یک طرفہ طور پر دستبردار ہوا تھا۔

معاہدے کی شرائط کے مطابق عالمی سطح پر معاشی پابندیاں ہٹانے کے جواب میں ایران کو اپنا جوہری منصوبے محدود کرنا تھا۔ چینی وزیرخاجہ اور اسٹیٹ کونسلر وانگ یی نےکہا کہ جوہری معاہدے پر مذاکرات کی بحالی کے لیے چین مکمل حمایت کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ چین یک طرفہ طور پر ایران پر لگائی جانے والی پابندیوں، انسانی حقوق سمیت دیگر معاملات کی آڑ میں سیاسی مداخلت اور ایران اور خطے کے دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی بھی شدید مخالفت کرتا ہے۔۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چین اور ایران نے سات سال تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد گذشتہ سال ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت وسیع دائرے میں شراکت داری کی جائے گی۔ توانائی، سلامتی، بنیادی ڈھانچے اور مواصلات کے شعبہ جات معاہدے میں شامل ہوں گے۔ یعنی چین نے ایران کے ساتھ 25 سالہ معاہدے کا آغاز کر دیا ہے۔

واضح رہے کہ چین اور ایران دونوں امریکی معاشی پابندیوں کی زد میں ہیں جبکہ دونوں ممالک نے گزشتہ برس مارچ میں 25 سالہ طویل تعاون کے معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔ دونوں ممالک کے معاہدے کے بعد ایران بھی چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا حصہ بن گیا تھا۔ یاد رہے کہ چین ایران کا اہم تجارتی پارٹنر ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران پر 2018 میں یکطرفہ پابندیاں دوبارہ عائد کرنے سے قبل چین ایرانی تیل کے سب سے بڑے خریداروں میں سے ایک تھا۔ چین نے سرکاری طور پر ایران سے تیل کی درآمد بند کر دی ہے لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایرانی خام تیل دوسرے ممالک سے درآمدات کی آڑ میں چین پہنچ رہا ہے۔ چین طویل عرصے سے ایران کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ نے 2016 میں اپنے ایرانی دورے کے دوران ایران کو’مشرق وسطیٰ میں چین کا بڑا شراکت دار‘ قرار دیا تھا۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق اس دورے کی ٹائمنگ بھی بہت اہمیت کی حامل ہے ۔ ایران ایک جانب 2015 کے ایٹمی معاہدے کے دستخط کنندگان ممالک بشمول چین کے ساتھ اس معاہدے کی تجدید کے لیے رابطے میں ہے جبکہ دوسری جانب ایران یہ بھی چاہتا ہے کہ امریکہ اس پر لگائی گئی یکطرفہ ظالمانہ پابندیاں اٹھا لے جو ٹرمپ عہد حکومت میں ایران پر عائد کی گئی تھیں۔ تاہم امریکہ چاہتا ہے کہ ایران بغیر کسی شرائط کے اس معاہدے میں واپس آئے اور امریکہ کے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وقت تیزی سے ختم ہورہا ہے اور ایران کو اس معاہدے میں واپس آنا چاہیے۔ ایک انٹرویو میں انٹونی بلنکن کا کہنا تھا کہ ایران اس نکتے کے بہت قریب پہنچ گیا ہے جہاں وہ بہت مختصر وقت میں ایٹمی ہتھیاروں کے لیے مواد تیار کرسکتا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ نے اس بات کا عندیہ بھی دیا کہ اگر مزاکرات ناکام ہو گئے تو امریکہ دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر دیگر آپشنز پر غور کرے گا۔ 14 جنوری کو ہونے والی ملاقات میں وانگ زی کے ہم منصب نے یقینی طور پر یہ بات کی ہوگی کہ اگرچہ چین اس معاہدے کی تجدید کے لیے کوشاں ہے تاہم اس معاہدے کی تجدید کا سارا ذمہ امریکہ پر ہے کیونکہ امریکہ نے ہی اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کیا تھا۔ ایران کے وزیر خارجہ کا دورہ چین اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہےکیونکہ خلیج وسطی کے چار ممالک سعودی عرب، کویت، عمان اور بحرین کے وزرائے خارجہ کے علاوہ خلیج تعاون کونسل کے جنرل سیکرٹری نائف فلاح مبارک بھی 10 سے 14 جنوری تک چین کے دورے پر تھے۔

خلیج وسطی وزرائے خارجہ کے دورے کا مقصد دوطرفہ تعلقات خاص طور پر توانائی اور تجارت میں تعاون تھا۔بہت سارے تجزیہ نگاروں کے مطابق جی سی سی کے عہدیداران کا دورہ چین محض معاشی فیکٹرز کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ ایران اور چین کے مابین بڑھتی قربت کی وجہ سے بھی تھا۔ ماحاصل یہ ہے کہ چین معاشی نقط نظر سے ایران کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ ایران بارہا یہ بات کہہ چکا ہے کہ اگر امریکہ 2018 میں عائد کی گئی پابندیوں کا خاتمہ نہیں کرتا تو ایران چین کے ساتھ معاشی تعلقات کو مضبوط کرنے کی کوشش کرے گا۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی انتظامیہ بار بار ایشیا سینٹرک پالیسی کا حوالہ دیا جس میں چین کے ساتھ تعلقات ترجیح رکھتے ہیں۔

دوسری جانب بیجنگ بھی مشرق وسطٰی میں اپنی موجودگی کو بڑھانا چاہتا ہے کیونکہ امریکہ کے خلیج تعاون کونسل کے ممالک جیسا کہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں مگر یہ تعلقات حالیہ چند ماہ میں گراوٹ کا شکار ہیں۔ امریکہ عرب امارات کی جانب سے چین کی 5جی ٹیکنالوجی کے استعمال سے خوش نہیں ہے اور نہ ہی بیجنگ اور ریاض کے مابین بڑھتے ہوئے سیکورٹی تعلقات پر خوش ہے۔ خلیج وسطٰی کے ممالک کی چین کی طرف جھکاؤ کی ایک وجہ امریکہ کا ان ممالک پر تیل کی ضروریات پوری کرنے کے لیے انحصار میں کمی ہے ۔ بیجنگ جی سی سی اور ایران کے مابین بہترین تعلقات کے قیام کے لیے بھی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ مشرق وسطٰی کی جغرافیائی و سیاسی تصویر بہت پیچیدہ ہونے والی ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مشرق وسطٰی میں امریکہ کا اثرورسوخ قائم رہے گا مگر چین بہت تیزی سے اس کو ختم کر سکتا ہے۔

پیر، 17 جنوری 2021

About خاکسار

Check Also

برطانیہ، فرانس اور جرمنی سے نمٹنا باقی ہے، جنرل قاآنی

"وعدہ صادق آپریشن” میں ایرانی حملوں کو روکنے کی کوشش کرنے پر القدس فورس کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے