Breaking News
Home / اخبار / ماہ رمضان کے پہلے دن کی دعا اور مختصر تشریح

ماہ رمضان کے پہلے دن کی دعا اور مختصر تشریح

روزے کا مقصد صرف بھوکا اور پیاسا رہنا نہیں بلکہ بھوک اور پیاس کے ساتھ خلقت کے حقیقی ہدف تک سفر کرنا ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: مسلمانو! آگاہ ہوجاؤ، بہت سارے لوگ ہیں جن کو شب بیداری سے تھکن کے لئے علاوہ کچھ نہیں ملتا اور بہت سارے ہیں جن کو روزے کے نتیجے میں بھوک اور پیاس ہی نصیب ہوتی ہے۔

پہلے دن کی دعا:

اللهمَ اجْعلْ صِیامی فیه صِیام الصّائِمینَ وقیامی فیهِ قیامَ القائِمینَ ونَبّهْنی فیهِ عن نَومَةِ الغافِلینَ وهَبْ لی جُرمی فیهِ یا الهَ العالَمینَ واعْفُ عنّی یا عافیاً عنِ المجْرمینَ

خدایا! میرا آج کا روزہ حقیقی روزہ داروں کی طرح قرار دے۔ میرا نماز کے لئے قیام حقیقی نمازیوں کی طرح قرار دے۔ مجھے غفلت کی نیند سے بیدار کرے اور میرے گناہوں کو معاف کرے اے دوجہانوں کے معبود اور مجھے بخش دے اسے مجرموں کو بخشنے والے۔

تفسیر

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: مسلمانو! آگاہ ہوجاؤ، بہت سارے لوگ ہیں جن کو شب بیداری سے تھکن کے لئے علاوہ کچھ نہیں ملتا اور بہت سارے ہیں جن کو روزے کے نتیجے میں بھوک اور پیاس ہی نصیب ہوتی ہے۔

ہمارا روزہ اور عبادات اس طرح ہونا چاہئے جس سے ہم فائدہ لے سکیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر روز کی دعا میں اللہ تعالی سے اپنی بندگی اور عبادت کی درخواست کرتے ہیں۔

چنانچہ فرماتے ہیں: اللهمَ اجْعلْ صِیامی فیه صِیام الصّائِمینَ وقیامی فیهِ قیامَ القائِمینَ ونَبّهْنی فیهِ عن نَومَةِ الغافِلینَ وهَبْ لی جُرمی فیهِ یا الهَ العالَمینَ واعْفُ عنّی یا عافیاً عنِ المجْرمینَ

خدایا! میرا آج کا روزہ حقیقی روزہ داروں کی طرح قرار دے۔ میرا نماز کے لئے قیام حقیقی نمازیوں کی طرح قرار دے۔ مجھے غفلت کی نیند سے بیدار کرے اور میرے گناہوں کو معاف کرے اے دوجہانوں کے معبود اور مجھے بخش دے اسے مجرموں کو بخشنے والے۔

ماہ رمضان کے پہلے روز ہمیں کیا کرناچاہئے؛

1۔ حقیقی روزہ دار بنیں

2۔ حقیقی شب زندہ دار بنیں

3۔ غفلت کی نیند سے بیدار ہوجائیں

4۔ ہمارے گناہ معاف کئے جائیں

5۔ اللہ کی بخشش اور عفو ہمیں نصیب ہوجائیں

«اللّهُمَّ اجْعَلْ صِیامِی فِیهِ صِیامَ الصَّائِمِینَ» 

حقیقی روزہ صرف بھوک اور پیاس کا باعث نہیں بنتا بلکہ انسان کو جھوٹ سے بچاتا ہے۔ غلط نگاہ سے محفوظ رکھتا ہے۔ جھگڑا فساد، حسد، غیبت، غصہ، دشمن اور دوسروں کو نقصان پہنچانے سے ہمیں بچاتا ہے۔ عبادات اور نیک کاموں کی طرف ہمیں بلاتا ہے اور اللہ کی قربت کا باعث بنتا ہے۔

«وَقِیامِی فِیهِ قِیامَ الْقائِمِینَ»

میری عبادت اور شب بیداری حقیقی عبادت گزاروں اور شب زندہ داروں کی طرح قرار دے جس کا نتیجہ تھکن ہی نہیں بلکہ اللہ کی بندگی کا شرف عطا ہوتا ہے جو کہ زندگی کا حقیقی ہدف اور مقصد ہے۔

سورہ ذاریات میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنْسَ إِلاَّ لِیَعْبُدُونِ میں نے انسان اور جن کو صرف اپنی عبادت کے لئے خلق کیا ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے عنوان بصری سے فرمایا کہ مقام عبودیت کی تین علامات ہیں؛ ان میں سے ایک یہ ہے کہ انسان خود کو کسی بھی چیز کا حقیقی مالک نہ سمجھے۔ اللہ کی بندگی کرنے والا دنیا سے رغبت نہیں رکھتا ہے۔

چنانچہ روایت میں ہے: الدنیا سجن المومن یعنی دنیا مومن کا زندان ہے۔ جب دنیا کی محبت انسان کے دل سے خارج ہوجائے تو خالق کی محبت کا نور روشن ہوتا ہے۔

«وَنَبِّهْنِی فِیهِ عَنْ نَوْمَةِ الْغافِلِینَ»

انسان اللہ کی طرف سفر کررہے ہیں چنانچہ سورہ انشقاق میں فرمایا: یَا أَیُّهَا الإِنْسَانُ إِنَّکَ کَادِحٌ إِلَی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلاَقِیهِ

انسان کو سفر کی حالت میں بیدار ہونا چاہئے اور پوری توجہ کے ساتھ منزل کی طرف گامزن ہونا چاہئے اسی طرح راستہ طے کرنے کے لئے مناسب وسائل ہونا چاہئے تاکہ کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے۔

غفلت کی حالت میں کوئی سفر طے نہیں کرسکتا ہے اسی لئے عرفاء اللہ کے راستے میں سفر کے لئے پہلا مقام خواب سے بیداری کو قرار دیتے ہیں۔

قرآن کریم میں غفلت میں رہنے سے منع کیا گیا ہے: سورہ اعراف میں ارشاد ہوتا ہے: وَ لاَ تَکُنْ مِنَ الْغَافِلِینَ اور غافل لوگوں میں سے مت ہونا
غافل شخص ریشمی کیڑے کی طرح ہے جو اپنے گرد چلتا ہے اور دنیا سے کبھی نکل نہیں سکتا ہے۔ اگر اس سے آزادی نہ ملے تو خلقت کے مقصد کو حاصل کرنے سے پہلے ہی دنیا سے چلا جاتا ہے۔

«وَهَبْ لِی جُرْمِی فِیهِ یَا إِلهَ الْعالَمِینَ»

اللہ کی طرف سفر کرنے والا جب غفلت سے بیدار ہوتا ہے تو متوجہ ہوتا ہے کہ اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے باطنی صفائی کی ضرورت ہے جوکہ گناہوں سے پاک ہونا ہے اسی لئے اللہ سے گناہوں کی بخشش کی دعا کرتا ہے۔

«وَاعْفُ عَنِّی یَا عافِیاً عَنِ الْمُجْرِمِینَ» سوره آل‌عمران آیه ۱۳۵ میں ارشاد ہوتا ہے: وَالَّذِینَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَکَرُوا اللهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللهُ جب وہ برے کام کرتے ہیں یا خود پر ظلم کرتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرتے ہیں اور اللہ کے سوا کون گناہوں کو معاف کرتا ہے
انسان کو گناہ سے پاک ہونے اور باطنی طہارت و پاکیزگی کی ضرورت ہے پس گناہ کے مرتکب ہونے اور خود پر ظلم کرنے کی وجہ سے ہمیں اللہ سے بخشش طلب کرنا چاہئے۔

About خاکسار

Check Also

امریکی طلباء کے احتجاج کا دلچسب انداز/یونیورسٹی سربراہ کو فلسطینی پرچم پیش کر دیا

پیٹرز امریکن یونیورسٹی کے متعدد طلباء نے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے