Breaking News
Home / اخبار / سانحہ مری: گڈ گورننس سے خالی گورننس تک

سانحہ مری: گڈ گورننس سے خالی گورننس تک

سانحہ مری ایک ایسا چشم کشا واقعہ ہے جو کسی بھی حکومت اور قوم کوجگانے کے لیے کافی ہے مگر سانحہ ساہیوال سے ہی اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جو لوگ برسراقتدار ہیں ان کو انسانی زندگیوں سے کوئی غرض نہیں ہے۔ عمران خان کے دور حکومت میں ایسی ایسی بد انتظامیاں ہیں جو آپ کو ہر ادارے اور محکمے میں نظر آ رہی ہیں۔ سانحہ مری کی وجہ سے حکمرانوں کی بے حسی پر پی ٹی آئی کے اپنے کارکن بھی افسردہ ہیں۔ اس حکومت کی کوئی پلاننگ نہیں ہے۔ محکمہ موسمیات نے شدید برفباری کے طوفان کا خطرہ بتا دیا تھا لیکن اس کے سدباب کیلئے کچھ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ مری میں فوج بلانے کی نہیں بلکہ وہاں موجود فوج کو اس صورتحال سے پہلے ہی تیار کرنے کی ضرورت تھی۔ جہاں لوگوں کی اموات ہوئی، وہ آرمی اور پاک فضائیہ کی انسٹالیشن سے چند منٹوں کے فاصلے پر ہیں۔ وہاں چل کر پندرہ بیس منٹ میں پہنچا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر ان کیساتھ کوآرڈینیشن پہلے کر لی جاتی تو اس بڑے سانحے سے بچا جا سکتا تھا، حکومت نے انھیں آن بورڈ ہی نہیں لیا۔

کچھ روز قبل الرٹ جاری کیا گیا تھا کہ مری اور اس کے ملحقہ علاقوں میں شدید برفباری ہونے والی ہے۔ اس کے باوجود سیاحوں کی آمد شروع ہو گئی لیکن انھیں کسی نے نہیں روکا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہزاروں کی تعداد میں گاڑیاں پھنس گئیں اور ان میں لوگوں کی اموات ہوگئیں۔ پچھلے ادوار میں یہ ہوتا تھا کہ برفباری کا الرٹ جاری ہوتے ہی مشینری کو سڑکوں پر کھڑا کر دیا جاتا تھا۔ ایک حد سے زیادہ لوگوں کو مری جانے سے ہی روک لیا جاتا تھا۔ ہر طرف ایمرجنسی کی صورتحال نافذ کر دی جاتی تھی لیکن گذشتہ چند روز سے مری کو لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے۔ سیاح تو دور کی بات مری اور اس کے قرب وجوار میں رہنے والے لوگوں کے پاس خوراک ختم ہو چکی ہے۔ ان کا مکمل رابطہ کٹ چکا ہے۔ مقامی لوگوں نے سب سے پہلے اس سانحے کی انتظامیہ کو اطلاع دینے کی کوشش کی لیکن انہوں نے ماننے سے ہی انکار کر دیا کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ مقامی لوگوں نے اس صورتحال میں اپنی مدد آپ کے تحت لوگوں کو وہاں سے ریسکیو کیا۔

۔حکومت کی طرف سے رپورٹ طلب کرنے اور افسوس کا اظہار کرنے کے علاوہ ذمہ داری قبول کرنے کا ایک لفظ سننے میں نہیں آیا۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کو ٹوئٹ کے ذریعے غم و غصہ ظاہر کرنے یا ہمدردی جتانے سے زیادہ کچھ کرنے کا حوصلہ نہیں ہؤا۔ کیا یہ وہی ’مدینہ ریاست ‘ اور اس کا بے داغ سربراہ ہے جس کے خواب بیچ کر عمران خان اپوزیشن کے کپڑے اتارنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں؟ملک کے وزیر اعظم کو یورپی نظام کی خوبیا ں اور خرابیاں بتانے میں ملکہ حاصل ہے۔ وہ یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کہ ان سے زیادہ یورپ کو کوئی نہیں جانتا۔ وہ وہاں کی جمہوریت کے بارے میں بھی بے تکان لیکچر دے سکتے ہیں اور یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ وہاں کا فلاحی نظام کیسے چلتا ہے، کیوں کر وہاں قانون کی عملداری ہے جو تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھتا ہے۔ امیر ہو یا غریب، طاقت ور ہو یا کمزور اسے قانون کے مطابق اپنے جرم کی سزا بھگتنا پڑتی ہے ۔ مری میں رونما ہونے والے سانحہ اور بے بسی اور لاچاری کی حالت میں ہونے والی ہلاکتوں کی موجودہ صورت حال میں کیا عمران خان بتا سکتے ہیں کہ کسی یورپی ملک کا وزیر اعظم کیا ایسی کسی آفت پر ایک ٹوئٹ کرکے اور سب سے حساب لیا جائے گا نعرہ لگا کر اپنی پر تعیش رہائش گاہ میں دبک کر بیٹھا رہتا؟

صورت حال کی سنگینی اور مقامی انتظامیہ کی مکمل ناکامی کے بعد صوبے کے وزیر اعلیٰ اور ملک کے وزیر اعظم کا فرض تھا کہ وہ بنفس نفیس موقع پر پہنچتے اور امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کرتے اور ابھی تک سرد ی اور طوفانی موسم میں پھنسے ہوئے لوگوں کو سہولت بہم پہنچانے کی کوشش کی جاتی۔ اس کے برعکس ملک کے منتخب سول حکمران حالات کو سنبھالنے کا کا م رینجرز اور فوج کے حوالے کرکے خود اپنے گرم دفتروں یا رہائشوں میں بیٹھے اپنے ماتحتوں کے ذریعے ٹوئٹ پیغامات میں سب کچھ کنٹرول میں ہے کی اطلاع دے رہے ہیں یا افسوس کا اظہار کیا جارہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے ابتدائی طور پر معاون خصوصی شہباز گل کے ذریعے ہی اس سانحہ پر دکھ ظاہر کرنا کافی محسوس کیا گیا ۔ تاہم چند گھنٹے بعد ان کے اپنے ٹوئٹ سے پریشانی ظاہر کرتے ہوئے یہ بالواسطہ وضاحت دینے کی کوشش کی گئی کہ مقامی انتظامیہ موسم کی اچانک شدت کی وجہ سے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار نہیں تھی۔ اسی لئے یہ افسوسناک سانحہ ہؤا ہے۔

یہ وضاحت ناقابل قبول ہے کہ موسم اچانک شدید ہوجانے کی وجہ سے مقامی طور سے انتظامات نہیں کئے جاسکے اور کچھ لوگ جاں بحق ہوگئے۔حقیقت یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کے موجودہ دور میں یہ وضاحت حکمرانوں کی سفاکی پر دلالت کرتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق لوگوں کی بڑی تعداد برفباری کا نظارہ کرنے کے لئے مری کی طرف روانہ ہوئی۔ تاہم ناقص مواصلاتی نظام، ٹریفک کے غیر مربوط طریقے اور کسی کنٹرول سنٹر کی عدم موجودگی کی وجہ سے کسی بھی مرحلے پر نہ تو سیاحوں کو ضروری اطلاعات فراہم کی گئیں ، نہ ہی بروقت مری کی طرف ٹریفک روک کو صورت حال کو خراب ہونے سے روکا گیا اور نہ ہی سینکڑوں گاڑیوں کے برفانی طوفان میں پھنسنے کی اطلاعات ملنے کے بعد فوری طور سے امدادی کارراوئی کو مربوط کیاجاسکا۔

حکومت کے طرز عمل اور بے خبری کا اندازہ اس سے ہی کیا جاسکتا ہے کہ ایک روز پہلے ہی وزیر اطلاعات فواد چوہدری مری کی طرف ٹریفک کی بڑی تعداد کو ملک میں عام ہونے والی خوشحالی کی نشانی قرار دے کر مہنگائی کی خبروں کو جھوٹ اور پروپیگنڈا بتانے کی کوشش کررہے تھے۔ حالانکہ وہی وقت تھا جب مری میں موسم کی شدت میں اضافہ ہو رہا تھا اور ٹریفک روکنے،ایمرجنسی کا ادراک کرنے اور مشکل میں پھنسے لوگوں کی مدد کا اہتمام کرنے کی کوشش کی جاتی۔ حکومتی نمائیندوں کے طرز عمل سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اقتدار کی کسی بھی سطح پر صورت حال کا درست جائزہ لے کر فیصلے کرنے اور کسی بڑی مشکل سے پہلے ہی حالات سنبھالنے کی کوشش کرنے کے مزاج کا شدید فقدان ہے۔

اتوار، 9 جنوری 2021

About خاکسار

Check Also

برطانیہ، فرانس اور جرمنی سے نمٹنا باقی ہے، جنرل قاآنی

"وعدہ صادق آپریشن” میں ایرانی حملوں کو روکنے کی کوشش کرنے پر القدس فورس کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے