Breaking News
Home / اخبار / بڑھتا ہوا سیاسی عدم برداشت کا رویہ اور اس کے نقصانات

بڑھتا ہوا سیاسی عدم برداشت کا رویہ اور اس کے نقصانات

قومیں مختلف ادوار میں آزمائشی تجربات سے گزرتی رہتی ہیں اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے والے ہی حال اور مستقبل میں ایک باوقار مقام پاتے ہیں پاکستان کا سیاسی ماحول بدقسمتی سے کبھی بھی مثالی نہیں رہا اسی کا نتیجہ ہے کہ بار بار جمہوری عمل کا تسلسل ٹوٹتا رہا مگر اس سے بھی بڑھ کر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان ماضی کی غلطیوں اور تلخیوں کے نتائج سے سبق نہیں سیکھ پاتے اور اسکا عملی مظاہرہ ہم جاری صورتحال کے اثرات کی صورت میں دیکھ رہے ہیں سیاست ایک جہد مسلسل‘ برداشت اور تجربات کا نام ہے اور سیاسی قائدین نہ صرف نظام حکومت چلاتے ہیں بلکہ وہ افراد قوم اور معاشرے کی تشکیل میں بھی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں.

پاکستان میں حالیہ دنوں سیاست میں ایک عجیب و غریب تناؤ پیدا ہوا ہے۔ مگر یہ کوئی نئی بات نہیں، اس سے قبل اس سے بھی بڑی بڑی سیاسی آفتیں اس ملک پر مسلط ہوتی رہی ہیں۔ یہ سیاستدانوں کی ہی غلطیاں تھیں جو ملک کو مارشل لاء کی طرف لے جاتی رہیں۔ سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف بڑے بڑے محاذ کھڑے کرتے رہے، ایک دوسرے کے اقتدار کو ختم کرنے کےلیے بڑی بڑی سازشیں ہوئیں۔ لیکن حالیہ دنوں جو کچھ ہورہا ہے اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے عوام کو سیاست دانوں پر حملوں کےلیے اکسانا شروع کردیا ہے، جنہوں نے اشتعال میں آکر مخالفین پر حملے بھی کر ڈالے۔ لیکن یہ رہنما اب بھی باز نہیں آرہے اور لوگوں کو مزید حملوں پر اکسا رہے ہیں۔

اسلام آباد میں سندھ ہاؤس پر حملہ ہوا، پشاور اور فیصل آباد کے منحرف اراکین کے گھروں اور دفاتر پر حملے کرکے ان کے اہل خانہ تک کو پریشان کرنے کی کوشش کی گئی۔ لندن میں مخالف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے دفاتر پر بھی حملے کیے گئے بلکہ نواز شریف پر بھی ایک جنونی سیاسی کارکن نے حملہ کرنے کی کوشش کی، جس میں ناکامی پر اس بپھرے ہوئے شخص نے دور سے ہی اپنا موبائل دے مارا جو نواز شریف کے گارڈ کو جا لگا۔

تحریک انصاف کے تقریباً تمام نمایاں رہنماؤں کی تاریخ دیکھ لیجئے کہ وہ کتنی جماعتوں سے انحراف کرتے کرتے پی ٹی آئی تک پہنچے ہیں۔ یہ کون سا ابتدا سے تحریک انصاف میں تھے۔ پارٹی سے منحرف ہونے کی روایت تو بہت قدیم ہے لیکن اس طرح کبھی کسی نے منحرفین کے خلاف جملے نہیں کسے، کبھی کسی نے ایک جماعت چھوڑ کر دوسری میں جانے والوں کو نہیں ستایا۔ یہ سیاسی عمل کا حصہ ہے جو ہمیشہ سے چلا آرہا ہے اور اس عمل کا حصہ خود تحریک انصاف بھی رہی ہے۔ دوسری جماعتوں کے منحرف ارکان نے کئی بار انہیں بھی ووٹ دیے ہیں، تب تو انہوں نے انہیں ووٹ دینے سے نہیں روکا۔ ان کے پاس جہاز بھر بھر کر لوگوں کے آتے رہے اور شمولیت اختیار کرتے رہے۔ ٹھیک ہے ان میں بہت سے آزاد ارکان بھی تھے لیکن دوسری جماعتیں چھوڑنے والوں کی بھی قابل ذکر تعداد موجود تھی۔ لیکن صرف آزاد ارکان کو بھی دیکھیے تب بھی وہ اخلاقی طور پر کسی جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کرسکتے کیونکہ عوام نے انہیں ووٹ دیا ہے نہ کہ کسی پارٹی کو۔

یوں لگ رہا ہے کہ ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت الیکٹرانک میڈیا اور دانشوران ملت کو ہر جمہوری قوت کو بدنام کرنے کا فریضہ سونپا گیا۔ نواز شریف، آصف زرداری اور دیگر سیاسی جماعتوں کو کرپٹ ثابت کرنے میں کئی سال لگے۔ آج اسی الیکٹرانک میڈیا کی تعلیم کے سبب سوشل میڈیا اس بات کو تسلیم کرنے پر ہی تیار نہیں کہ عمران خان اس قوم کا مجرم ہے اور نواز شریف دراصل اس قوم کا محسن ثابت ہوا ہے۔ اس کی وجوہات بہت واضح ہیں۔ موجودہ انسٹالڈ الیکٹرانک میڈیا پر جمہوری قوتوں کے خلاف ہزاروں گھنٹے صرف کیے گئے، ایک منصوبے کے تحت کمزور اینکرز کی بھاری بھرکم تنخواہوں پر بھرتیاں کروائی گئیں، ہر مخالف آواز کو نوکری سے برطرف کروایا گیا۔

ایک سازش کے تحت ہر پروگرام میں من مانی کی گئی۔ زر خرید اینکرز اور بے ضمیر تجزیہ کاروں کو یہ تک بتایا گیا کہ آج کے پروگرام کا موضوع کیا ہونا ہے، کس کس مہمان کو تجزیے کی دعوت دینی ہے، کس کس کو کتنا وقت دینا ہے اور کس سے کیا سوال کرنے ہیں۔ کس خبر کو اچھالنا ہے کس سے پہلو تہی برتنی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کو ایسے لوگوں کے حوالے کر دیا گیا جو وٹس ایپ کی گھنٹی سنتے ہی سر بسجود ہو جاتے تھے۔ بہت کم لوگ اس دور میں صحافی کی حیثیت سے اپنی عزت، صحافت اور نوکری بچا سکے۔عمران خان اب سوشل میڈیا کی مدد سے جس نہج پر جا رہے وہ اس ملک کو ایک دفعہ پھر دولخت کرنے کی سازش لگتی ہے۔ کبھی سرینڈر باجوہ کا ٹرینڈ چلواتے ہیں کبھی عدلیہ کے خلاف ہو جاتے ہیں کبھی امپورٹڈ حکومت کے ٹرینڈ پر انویسٹمنٹ کرتے ہیں، کبھی صدر کو آئین کی خلاف ورزی پر مجبور کرتے ہیں کبھی گورنر پنجاب سے آئین شکنی کی فرمائش کرتے ہیں۔ نفرت کا یہ بیانہ اس سرعت سے پھیلایا جا رہا ہے کہ کسی کو سنبھلنے کا موقع نہیں مل رہا۔

بہر حال یہ لاوا بہت خطرناک ہےتمام سیاسی سٹیک ہولڈرز کو مل کر اس کا سدباب کرنا ہوگا اور پاکستانی معاشرے کو ایک نارمل معاشرے کی طرف واپس لانا ہوگا۔ یہ معاملہ سیاسی مخالفت یا مخاصمت کا نہیں بلکہ پورے معاشرے اور اس کے مستقبل کا سوال ہے جس کے لیے ابھی سوچنا ہوگا اور نئی نسل کو سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھانے سے رکنا ہوگا وگرنہ بہت دیر ہوجائے گی۔

About خاکسار

Check Also

پاکستانی شہر ملتان میں اسرائیل کے خلاف احتجاجی مظاہرہ، اسرائیلی پرچم نذر آتش

مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم ملتان کے ضلعی صدر فخر نسیم صدیقی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے